اصل جمہوریت معاشی ہی ہوتی ہے

گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا دنیا کی معاشی ترتیب یعنی معاشی ورلڈ آرڈر کا‘ جس دوران یہ چشم کشا حقیقت سامنے آئی کہ دنیا کی کل دولت کا 46 فیصد محض ایک فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ اگر سالانہ آمدن کی بات کریں تو یہ ایک فیصد لوگ دنیا کی کل آمدن کا لگ بھگ پچاس فیصد سمیٹ لیتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے اس حقیقت پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ کچھ افراد نے سمجھا کہ شاید پروف کی غلطی ہے‘ اس لیے دوبارہ یہ بات لکھ کر اس کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ حقیقت ایسے ہی ہے۔ اس ''غیر مساوی مساوات‘‘ کی مزید وضاحت اس طرح ہے ایک فیصد لوگوں کے دنیا کی کل دولت کا46 فیصد لے جانے کے بعد اگلا درجہ آتا ہے مڈل کلاس کا۔ اس کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا محض گیارہ فیصد ہے۔ شاید آپ کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ دنیا کی گیارہ فیصد آبادی‘ جو مڈل کلاس کہلاتی ہے‘ اس کے حصے میں دنیا کی کل دولت کاچالیس فیصد آتا ہے۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کل دولت کا86 فیصد محض 12 فیصد لوگوں کے پاس ہے جو معاشی سلطنت یا امپیریل ازم کا واضح اظہار ہے۔ اب بات کرتے ہیں اس88 فیصد آبادی کی‘ جو غریب کے زمرے میں آتی ہے۔ 33 فیصد آبادی‘ جسے غریب کہا جاتا ہے‘ کے حصے میں دنیا کی 13 فیصد دولت آتی ہے‘ اس کے بعد باقی بچتی ہے دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی یعنی 55فیصد افراد‘ ان کے حصے میں صرف اور صرف ایک فیصد دولت آتی ہے۔ عالمی ادارے اس اکثریتی طبقے کو قابلِ رحم طبقہ کہتے ہیں۔ یہ بجا طور پر قابلِ رحم ہیں کیونکہ اگر سو لوگوں میں سو گھر تقسیم کرنے ہوں اور 55 لوگوں کے حصے میں محض ایک گھر آئے تو اس المیے کو کن الفاظ میں بیان کیا جائے گا؟ یہی دنیا کی معیشت کا سب سے تلخ سچ اور سب گہرا گھائو ہے۔ اگرچہ دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں جمہوریت کا پرچار ہوتا ہے مگر وہاں پر بھی صرف سیاسی جمہوریت رائج ہے کیونکہ معاشی طور پر سبھی وسائل محض ایک‘ دویا زیادہ سے زیادہ بارہ فیصد طاقتور ترین افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔
معاشی جمہوریت کیا ہوتی ہے؟
اب بات کرتے ہیں چین کے موقف کی کہ ''جمہوریت ووٹ دے کر اپنی مرضی کے معاشی آمر منتخب کرنے کا نام ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری ملکوں میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ امیر ترین طبقے سے وسائل لینا تو درکنار‘ ان پر ٹیکسز لگا کر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو کم کرنے کی کوشش تک نہیں کرتی۔ آئیے دیکھتے ہیں دنیا کی سب سے مستحکم جمہوریت اور امیر ترین ملک امریکہ کی طرف‘ جو دنیا کی کل دولت کا ایک چوتھائی کماتا ہے۔ امریکہ کے ذکر پر گمان ہوتا ہے کہ یہاں کوئی غریب نہیں ہوگا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ امریکہ‘ جو دنیا کی کل کمائی کا ایک چوتھائی لے جاتا ہے‘ وہاں دنیا کی کل آبادی کا محض چار فیصد آباد ہے اور بظاہر فی کس آمدن ستر ہزار ڈالر سالانہ ہے لیکن جیسے ہی اس کی تفصیلی تقسیم میں جھانکیں تو علم ہوتا ہے کہ اس ملک کی نچلی پچاس فیصد آبادی کے پاس کل ملکی دولت کاصرف اڑھائی فیصد ہی آتا ہے۔ امریکہ کے اپنے اداروں کی رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ ملک میں لوئر کلاس کے سائز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ صدی میں ستر کی دہائی میں نچلے طبقے میں پچیس فیصد امریکی آتے تھے مگر اب یہ حجم بڑھ کر تیس فیصد ہو چکا ہے۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں مڈل کلاس کا سائز بھی سکڑ رہا ہے۔ یہ کلاس ستر کی دہائی میں61 فیصد ہوا کرتی تھی جو اب سکڑ کر پچاس فیصد رہ گئی ہے۔ اگر ہم اُن انتہائی غریب لوگوں کی بات کریں‘ جنہیں عالمی ادارے قابلِ رحم قرار دیتے ہیں تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور جدید ترین ملک میں یہ طبقہ ہونا ہی نہیں چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں انتہائی غریب افراد ملکی آبادی کا 12 فیصد ہیں۔ جی ہاں! ہر بارہواں امریکی غربت کی لکیر سے نیچے زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ یہاں پر غرت کی لکیر کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے۔ امریکہ کے اداروں کے مطابق غربت کی تشریح کچھ یوں ہے کہ چار افراد پر مشتمل ایک خاندان کی آمدن اگر 27 ہزار ڈالر سالانہ سے کم ہو تو اسے غربت کی لکیر سے نیچے اور اگر اس کے مساوی ہو تو غریب ماناجائے گا۔ اگر چار افراد میں اس رقم کو تقسیم کریں تو یہ فی کس سات ہزار ڈالر سالانہ سے بھی کم بنتی ہے، یعنی ماہانہ لگ بھگ 584 ڈالر۔ اگرچہ پاکستانی روپوں میں یہ رقم بھی ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے مگر اس کا حساب پاکستانی کرنسی میں نہ کریں کیونکہ امریکہ اور پاکستان میں ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کا حساب لگانا ہے تو امریکہ کی فی کس آمدن سے لگائیں۔ ان 12 فیصد امریکیوں کو سالانہ فی کس آمدن کے ستر ہزار ڈالر کے مقابلے میں محض سات ہزار ڈالر ملتے ہیں۔
چین معاشی جمہوریت کسے کہتا ہے؟
امریکہ کی فی کس آمدن تو آپ نے جان لی‘ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت یعنی چین کی فی کس آمدن 19 ہزار ڈالر ہے۔ بظاہر امریکہ فی کس آمدن میں چین سے تین گنا سے بھی زیادہ آگے ہے مگر تخفیفِ غربت کے حوالے سے جب چین کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حیرت انگیز بات سامنے آتی ہے کہ چین نے ساٹھ کروڑ لوگوںکو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا ہے۔ چین کے موجودہ صدر بار ہا اس سوچ اور اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ مشترکہ خوشحالی ہی اصل خوشحالی ہے۔ چین امیر اور غریب کے مابین فرق کو تو برداشت کر سکتا ہے لیکن اس فرق کو ایک خلیج بننے سے روکنے کے لیے سخت پالیسیاں اپناتا ہے۔ اس حوالے سے چین کی ایک پالیسی ''CPI‘‘ کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ CPIعمومی طور پر Consumer price index کو کہتے ہیں۔ چین بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر گہری نظر رکھتاہے۔جدید دور کے بڑھتے تقاضوں کے پیش نظر کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ چین میں معاشی لاگت کو قابو میں رکھنے میں ایک اہم کردار خاندانی نظام کا ہے۔ ایک ہی چھت چار سے پانچ لوگوں کو آسانی سے پناہ دیتی ہے‘ اسی طرح ایک ہی گھر میں زیادہ لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام قدرے سستا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اپنے خاندانی نظام کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور مغرب کی طرز پر انفرادی آزادی کو جدت نہیں سمجھتا بلکہ اس کی کھل کر مخالفت کرتا ہے۔ یاد رہے چین مغربی طرزِ زندگی کو اپنانے یا روکنے کیلئے ایک پردہ درمیان میں رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جسے وہ ''بانسوں کا پردہ‘‘ کہتا ہے۔ دراصل چرچل نے اشتراکیت کو یورپ میں آنے سے روکنے کیلئے ''لوہے کا پردہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی‘ یہ اسی قسم کی ایک اصطلاح ہے۔
معاشی خلیج کو کم سے کم رکھنے کی پالیسی کو چین معاشی جمہوریت کا نام دیتا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی معاشی جمہوریت ہی اصل جمہوریت ہے؟ اس حوالے سے زیادہ بحث یا دلائل کی ضرورت اس لیے نہیں کہ بھوک یا غربت سے زیادہ بھیانک کسی چیز کو نہیں مانا جا سکتا۔ بھوک کو تمام مسائل کی جڑ مانا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ بھوک سے دنیاوی نظریات تو کجا انسان اپنے عقیدے تک سے متنفر ہو سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاسی اختیارات کا ارتکاز تو معاشرے کے لیے خطرناک اور نقصان دہ ہو مگر معاشی دولت کا ارتکاز معاشرے کو کوئی نقصان نہ پہنچائے؟ یقینا دولت کا ارتکاز کہیں زیادہ بھیانک اور خطرناک ہوتا ہے۔ یہاں رفاہی اور فلاحی ریاست کا تصور سامنے آتا ہے جس کو یورپ کے کئی ممالک اپنا چکے ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی کو سوشل ڈیموکریسی کہتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کا ایک مغلوبہ ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ دولت کی کثرت اور قلت‘ دونوں انسانیت کی ترقی تو کجا‘ بقا کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں۔ چین اور امریکہ کی لڑائی یا کشمکش میں یہی بات بنیادی وجۂ تفریق ہے۔ مغرب کی حکومتوں پر بڑے بڑے سرمایہ داروں‘ جو کُل آبادی کا محض ایک فیصد ہیں‘ کا پریشر ہی انہیں چین سے الجھے رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں