ماحولیاتی تباہیاں اور بدلتے موسم

لاہور سمیت پنجاب بھر میں اس وقت نمونیا کی وبا بے قابو ہو چکی ہے۔ صوبہ پنجاب میں ہر روز آٹھ سے دس افراد‘ جن میں اکثریت بچوں کی ہے‘ نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ ہر روز اوسطاً 900 نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں، محکمہ صحت کے مطابق پنجاب میں اس وقت 16 ہزار سے زائد افراد نمونیا کا شکار ہو چکے ہیں۔ محض نمونیا ہی نہیں‘ ہر دوسرا شخص اس وقت بخار، شدید کھانسی، نزلہ زکام اور سانس کی تکالیف میں مبتلا نظر آ تا ہے۔ ڈاکٹر وبائی امراض اور بیماریوں میں شدت کی وجہ خشک اور شدید سردی کو قرار دے رہے ہیں۔ عوام بھی اب تک سردی کے حقیقی لطف سے محروم ہیں اور حدتو یہ ہے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں اب تک برف باری بھی شروع نہیں ہو سکی ہے، محکمہ موسمیات کی جانب سے اگرچہ آئندہ چند دنوں میں بارشوں اور برف باری کی پیش گوئی کی جا رہی ہے مگر جو بارشیں نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع میں ہونا تھیں‘ اگر وہ فروری میں ہوں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ماحولیاتی تباہیاں کس درجہ بڑھ چکی ہیں۔اب موسموں کے پیٹرن مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں اور ان کے انسانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؛ موسمیاتی اور وبائی بیماریوں کا پھیلائو اور ان میں شدت، فصلوں کا صحیح طریقے سے نہ پکنا، غذائیت سے محرومی، گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ‘ یہ تمام منفی اثرات اس وقت بھی ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔
پانی نہیں‘ بہتی چاندی
ایک وقت تھا جب پانی کو ایک بہ آسانی ‘مفت ‘اور کثرت سے میسر شے کے استعارے کے طور استعمال کیاجاتا تھا مگر اس وقت پوری دنیا میں سوا دو ارب لوگوں کی پانی تک براہِ راست رسائی نہیں ہے‘ اسی طرح محفوظ پانی کا تصور بھیانک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کو اب سیال یا بہتی چاندی سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اگر محفوظ یا صحت بخش پانی کا معیار دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی آبادی کی کثرت اس سے محروم ہے۔پاکستان کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 75 فیصد سے زائد علاقوں کا پانی صحت بخش نہیں ہے اور ماضی میں جن علاقوں کا پانی محفوظ اور پینے کے قابل سمجھا جاتا تھا‘ اب ان علاقوں کا پانی بھی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں لاہور شہر سرفہرست ہے۔ اس کی بڑی وجہ شہر کی آبادی میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے۔ شہر کے اندر رہائشی کالونیاں انتہائی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ جب زیرِ کاشت رقبے کی جگہ کنکریٹ کی عمارتیں تعمیر ہوں گی تو بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو سکے گا، جس کے نتیجے میں زیرِ زمین پانی کی سطح نہ صرف نیچے گر جائے گی بلکہ زمین میں موجود پانی بھی ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح صنعتی آلودگی سے پانی میں آرسینک اور دوسرے خطرناک اجزا شامل ہو کر اس کو آلودہ کرتے ہیں۔ لاہور‘ جو کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا‘اگر آج آلودگی کے اعتبار سے دنیا میں سر فہرست آچکا ہے‘ تو یہ بے وجہ نہیں ہے۔ یہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اس شہر کے ساتھ روا رکھا جانے والا وہ سلوک ہے جو اب موسمیاتی تباہیوں کی صورت میںہمارے سامنے ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آزادی کے وقت پاکستان میں فی کس پانی کی مقدار5300کیوبک میٹرز تھی جواب کم ہو کر فی کس ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکی ہے جو یقینا بے حد پریشان کن ہے۔ پانی کی کمی کا اثر کاشتکاری پر بھی پڑ رہا ہے۔ زیرِ کاشت علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کسان برساتی نالوں کا گندا پانی فصلوں اور کھیتوں کو لگارہے ہیںجس سے اُگنے والی فصل یقیناغیر محفوظ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن میں اُگنے والا چاول لذت اور Stuffکے اعتبار سے پہلے جیسا معیاری نہیں رہا ‘یہی صورتحال گندم اور سبزیوں کی بھی ہے۔ گندے پانی سے پیدا ہونے والی زرعی اجناس کے استعمال کے سبب لوگ بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں کی حالتِ زار دیکھ کر اب بجا طور پر کہا جا رہا ہے کہ لوگ روٹی ‘کپڑاور مکان کی بنیادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اب صاف پانی‘ شفاف ہوا اور خالص دھوپ کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔چند ہفتے قبل سموگ کے سبب لاہور جیسے شہروں میں زندگی اجیرن ہو چکی تھی،اب خشک سردی وبائوں اور امراض میں مبتلا کر رہی ہے۔ یہ المیہ بتدریج بڑھتا بڑھتا پورے سال پر محیط ہو چلا ہے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ویسے تو مغربی ممالک اور آسٹریلیا جیسے خطے بھی ان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں مگر پوری دنیا میں جنوبی ایشیا کا خطہ ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے سرفہرست ہے۔واضح رہے اس خطے کی آبادی میں سالانہ اڑھائی کروڑ سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے جو پوری دنیا کی آبادی میں ہونے والے کُل اضافے کا لگ بھگ ایک تہائی ہے۔
مسائل معلوم‘ مگر حل کیا ہے؟
اب بات پھر وہی کہ مسائل کا تو ہمیں علم ہے‘ ان کا حل کیا ہے؟ اس حوالے سے متعدد بار بات ہو چکی ہے۔ ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ماحولیاتی سائیکل کو ریکور کرنا ضروری ہے، یعنی جن وجوہات کے وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اچانک تو نہیں مگر رفتہ رفتہ یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے دو اقدامات نہایت ضروری بلکہ اب بقا کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ کاربن کے اخراج میں کمی اور درختوں کی تعداد میں اضافہ۔ مذکورہ دونوں اقدامات پر جنگی بنیادوں پر کام شروع کر دیا جائے تو اگلی ایک‘ دو دہائیوں میں کسی قدر فرق ڈالا جاسکتا یا کم از کم ماحولیاتی نقصانات کی رفتار گھٹائی جا سکتی ہے۔ کاربن کے سبب فضا سے سورج کی خالص روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی جس کی وجہ سے زمین پر موجود حیاتیات و بناتات کی درست نشو و نما نہیں ہوتی۔ پچھلے ایک کالم میں یہ بات بھی بیان ہوئی تھی کہ زمین پر آکسیجن پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ سمندر ہیں مگر سمندروں پر چلنے والے بحری جہازوں سے لیک ہونے والے تیل کے سبب دنیا بھر کے سمندروں پر تیل اور چکنائی کی ایک باریک تہہ وجود میں آ چکی ہے جو سمندروں کی آکسیجن پیدا کرنے کی استعداد کو متاثر کر رہی ہے‘ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سموگ کی وجہ سے درخت درست انداز میں کام نہیں کر پاتے۔دوسری طرف اگر شجر کاری کی بات کی جائے تو اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ درخت لگائیں کہاں ؟ خاص طور پر شہری علاقوں میں یہ سوال بڑی شدت سے ابھرتا ہے‘اس کے لیے بڑی شاہراہیں بہت آئیڈیل جگہ ہیں۔ اگر صرف جی ٹی روڈ اور موٹر وے کو دیکھیں تو ان سڑکو ں کے دونوں اطراف ‘مضبوط لکڑی اور لمبے قد والے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ درخت ماحول صاف کرنے کے ساتھ زمین کا درجہ حرارت کم کرنے میں بھی واضح کردار ادا کریں گے۔اگر صرف لاہور سے اسلام آباد موٹر وے کی بات کی جائے تو اتنی جگہ موجود ہے کہ لاکھوں درخت صرف اسی ایک سڑک کے دونوں اطراف میں لگائے جا سکتے ہیں۔ اگر پندرہ سے بیس فٹ کے فاصلے پردرخت لگائے جائیں تو ایک تخمینے کے مطابق اس موٹر وے کے دونوں اطراف میں تین لاکھ سے زائد درخت لگائے جا سکتے ہیں۔اسی حساب سے پورے ملک کی موٹر ویز اور جی ٹی روڈ کے اطراف پر درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ اس وقت تکمیل شدہ موٹر ویز پر درخت لگانے کی گنجائش تین سے چار کروڑ ہے۔سڑکوں کے بعد ریلوے ٹریکس کے دونوں اطراف میں بھی خاصی جگہ موجود ہے اور یہ سڑکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ ریلوے ٹریکس کے دونوں اطراف تقریباً ڈیڑھ سو فٹ جگہ حکومت کی ملکیت ہوتی ہے۔اسی طرح شہروں میں مخصوص رقبے سے بڑے گھروں کودرخت لگانے کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ گھروں کے لان میں زیبائشی پودوں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ ضرورت قد آور اور گھنی چھائوں والے درختوں کی ہے۔کچھ پودے اور درخت ایسے بھی ہیں جو رات کے وقت بھی آکسیجن پیدا کرتے ہیں جیسے پیپل اور سنیک پلانٹ وغیرہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں