سرمایہ دارانہ نظام‘ اشتراکیت‘ سوشل ازم اور اسلامی نظامِ معیشت میں کون سے دو نظام ایک جیسے ہیں یا پھر ان میں سے اسلام کے قریب ترین نظام کون سا ہے۔ یہاں پر پہلے تین نظاموں کا فرق جان لیتے ہیں۔ اس فرق کو جاننے کیلئے ایک سادہ مثال کچھ یوں دی جاتی ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس چار گائے ہیں تو سرمایہ دارانہ نظام اس کو یہ اجازت دے گا کہ وہ چاروں گائے اپنے پاس رکھے اور حکومت کو صرف ٹیکس دیتا رہے۔ اشتراکی نظام میں حکومت اس شخص سے چاروں گائے لے لے گی اور اس کی ضرورت کے مطابق اور آبادی کی معاشی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے اس کے حصے کا دودھ دے دے گی۔ اب باری آتی ہے سوشل ازم کی تو اس نظام میں حکومت اس شخص سے دو گائے لے لے گی اور باقی دو پر اس شخص کا حق برقرار رہے گا۔ ظاہری طور پر تو سوشل ازم ہی ایک ایسا نظام نظر آتا ہے جو انتہائی مناسب قسم کی تقسیم کرتا ہے۔ رہی بات اسلامی نظام کی تو اس کو دنیا کا سب سے پرانا نظام تسلیم کیا جاتا ہے اور سوشل ازم کو اسلامی نظام کے قریب ترین سسٹم قرار دیا جاتا ہے۔ یہی فیصلہ مرشد علامہ اقبال نے بھی دیا تھا۔
آج کل ان نظاموں پر صرف بات ہی نہیں بلکہ ایک ایسی علمی بحث چل رہی ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔ قصہ بہت واضح اور مختصر ہے کہ دنیا میں غریبوں کی تعداد یا غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس غربت کی وجہ وسائل کا کم ہونا نہیں بلکہ وسائل کی نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ تقسیم ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت دنیا کی کل آبادی کے صرف ایک فیصد حصے یعنی آٹھ کروڑ لوگوں کا دنیا کی آدھی دولت اور آمدن پر قابض ہونا ہے۔ اس حقیقت کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ اگر گزشتہ سال کی دنیا کی کل آمدن کو دنیا کی کل آبادی میں تقسیم کیا جائے تو فی کس سالانہ آمدن 14ہزار ڈالر بنتی ہے۔ اب اتنی برابری کے ساتھ وسائل کی تقسیم یقینا ایک خواب بلکہ اس سے بھی بڑی چیز ہے لیکن آپ یہ تقسیم کچھ یوں کر لیں کہ دس لوگوں کا ایک گروپ بنا لیں اور ان میں دولت کی تقسیم کچھ یوں کریں کہ نو لوگوں کو کم آمدن والے طبقات میں شمار کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کو ایک ہزار ڈالر دے دیے جائیں اور باقی پانچ ہزار ڈالر اُن میں سے ایک فیصد یعنی ایک آدمی کو دے دیے جائیں تو اُس شخص کی سالانہ آمدن پانچ ہزار ڈالر ماہانہ کے حساب سے 60ہزار ڈالر بنے گی جو اسے واضح طور پر دوسروں سے امیر آدمی بنا دے گی۔ اگر اسی یا اس کے قریب ترین فارمولے کے تحت فی کس آمدن تقسیم ہو تو دنیا کی دس فیصد آبادی آرام سے امیر ہو سکتی ہے۔ اس فارمولے کے تحت باقی نو افراد کی سالانہ آمدن 12ہزار ڈالر سالانہ بنتی ہے جس سے دنیا سے غربت کو آسانی سے کم ہی نہیں بلکہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں کیا ہو رہا ہے کہ دنیا کی ایک فیصد آبادی دنیا کی پچاس فیصد سے زیادہ آمدن لے جاتی ہے۔ اوپر بیان کیے گئے فارمولے کے تحت اگر اس طبقے کی دولت 42فیصد تک محدود ہو جائے‘ جس سے اس طبقے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن باقی کی آٹھ فیصد آمدن غریب طبقات میں تقسیم کرکے دنیا سے غربت کو مٹایا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا کی کل غریب آبادی کے پاس دنیا کی کل آمدن کا ایک فیصد حصہ ہی جاتا ہے۔ خیال رہے کہ پچاس فیصد آبادی کا مطلب چار ارب نفوس ہیں۔
دنیا کی کل سالانہ آمدن کی بات کریں تو یہ لگ بھگ 96ہزار ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس کا ایک فیصد ایک ہزار ارب ڈالر بھی نہیں بنتا۔ چلیں ہم اس کو ایک ہزار ارب ڈالر بھی مان لیں تو اس پچاس فیصد غریب آبادی کے حصے میں فی کس سالانہ محض 250ڈالر آتے ہیں۔ اس رقم کو اگر سال کے 365دنوں پر تقسیم کیا جائے تو یہ روزانہ کا ایک ڈالر بھی نہیں بنتا۔ یاد رہے کہ عالمی اداروں کے مطابق وہ شخص غربت کی لکیر سے نیچے تصور کیا جائے گا جس کی کم سے کم روزانہ آمدن دو ڈالر ہو گی۔ لیکن دنیا میں ایک ارب سے بھی زیادہ تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جس کے حصے میں روزانہ کا ایک ڈالر بھی نہیں آتا۔ یہاں مجھے عارف شفیق کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ:
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگ ایسے بھی ہیں جو دن میں بمشکل ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں یا یوں کہہ لیں کے یہ لوگ اپنی مطلوبہ کیلوریز ہی پوری نہیں کر پاتے۔ دنیا کا غربت کا نقشہ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ جیسے سپر پاور ملک میں بھی اڑھائی فیصد لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ اس نقشے میں صرف ان لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو Chronic hunger کا شکار ہیں۔ یورپی ممالک میں بھی یہ شرح اڑھائی فیصد ہے۔ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں یہ شرح دس فیصد تک ہے۔ گزشتہ کالموں میں ذکر ہوا تھا چین کا جو سوشل ازم کے نظام پر قائم ہے اور ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ اس ملک نے اپنی کل آبادی میں سے ساٹھ کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا ہے۔ اس وقت اس کی اڑھائی فیصد سے بھی کم آبادی بھوک کا شکار ہے۔ اگر اس قصے کی انتہا بتائیں تو دنیا کا ہر نواں شخص رات کو کھانا کھائے بغیر سوتا ہے۔ غذا کی کمی کی ایک اور قسم Malnutrition ہے۔ اس سے مراد ایسی خوراک ہے جو متوازن نہ ہو‘ جیسے صبح‘ دوپہر اور شام صرف روٹی ہی کھاتے رہنا اور گوشت‘ دودھ اور پھلوں کا استعمال باقاعدگی سے نہ کرنا۔ اس قسم کی خوراک سے اوسط عمر کم ہوتی ہے اور بیماریاں بھی زیادہ لاحق ہوتی ہیں۔
اب غربت یا ناقص غذا کی ایک اور قسم کی طرف چلتے ہیں جو وقت کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بات ہو رہی ہے پانی کی جو نہ صرف غذا کا لازم حصہ ہے بلکہ خوراک کی پیداوار کیلئے بھی ایک لازمی جزو ہے۔ اب دنیا کے دو ارب لوگوں کو صاف یا صحت مند پانی میسر نہیں ہے۔ اسی طرح جو غذا وہ کھاتے ہیں‘ اس کی کاشت کے دوران استعمال ہونے والے پانی کا معیار بھی ناقص ترین ہوتا ہے اور اس طرح پیدا ہونے والی غذا کے معیار کو ناقص ہی رکھتا ہے۔ گوکہ یہاں ہوا بھی بہت اہم ہے جو زندہ رہنے کیلئے ایک بنیادی ترین جزو ہے اور ایک ایسی خوراک ہے جو ہم ہر لمحہ استعمال کرتے ہیں‘ یعنی سانس لینے کیلئے ہمیں ہر وقت آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس موضوع پر تو بہت بات ہو چکی ہے‘ ویسے جنوبی ایشیا زہریلی ہوا ہی میں سانس لے رہا ہے جس سے اس خطے کے لوگوں کی اوسط عمر چھ سے سات سال کم ہونے کی وارننگ اب تو عالمی ادارے بھی دے چکے ہیں۔
سوشل ازم اور اسلامی نظام
اب اگر دنیا میں رائج نظاموں میں موجود مماثلت اور اختلافات کی دوبارہ بات کریں تو سوشل ازم کوئی نیا نظام نہیں ہے۔ کارل مارکس نے یہ نظریہ 1867ء میں پیش کیا تھا اور یہ نظام اسلام کے معاشی نظام یا طرزِ زندگی کے بہت قریب ہے۔ اگر اسلام کے صرف سیاسی نظام کو ہی لیا جائے تو بھی اس کے نمایاں خد و خال سوشل ازم میں ضرور نظر آتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کسی ملک میں ایک ہی سیاسی جماعت کا ہونا ہے جس میں شمولیت کیلئے آپ کا صاحبِ کردار اور باصلاحیت ہونا ضروری ہے۔ سوشل ازم اور اشتراکی نظام کے حامی یہ بات بہت کرتے ہیں۔ بالخصوص سوشلسٹ اس حوالے سے زیادہ بحث کرتے ہیں۔ دوسری طرف مغرب نہ صرف اشتراکیت کے خلاف ہے بلکہ اسلامی نظام کے بنیادی خدوخال کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نظام کے ماننے والوں کی مخالفت اور جنگی مخاصمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسلامو فوبیا اسی سوچ کے تحت پھیلایا جاتا ہے۔ آپ صرف امریکہ کے خود ساختہ تہذیبوں کے تصادم کے نظریے ہی کا مطالعہ کر لیں۔ اس نظریے میں صرف اسلامی تہذیب اور چین کی تہذیب کو ہی مغربی تہذیب کیلئے خطرہ قرار دیا گیا۔ اسی سوچ اور ایجنڈے کے تحت روس کے ٹوٹتے ہی پوری مسلم دنیا پر ایک جنگی کہر ڈھایا گیا جو اب بھی جاری ہے لیکن چین کے ایک عالمی طاقت بنتے ہی اس میں کمی آرہی ہے۔ اب ایک ایسے مباحثے اور بیانیے کی سخت ضرورت ہے جس سے یہ واضح کیا جائے کہ سوشل ازم سیاسی اور بالخصوص معاشی طور پر ہر طرح سے اسلام کے قریب ترین ہے۔ ماضی میں امریکہ نے صرف روس کے خلاف جنگ اور جہاد کیلئے اشتراکیت کو کفر تک قرار دلوایا تھا۔ ویسے اب چین کی تعریفیں وہ جماعتیں بھی کرتی ہیں جو کبھی روس کے اشتراکی نظام کو کفر کہا کرتی تھیں۔