گزشتہ سال (2023ء) کو انسانی تاریخ کا سب سے گرم سال قرار دیا گیا ہے۔ اس کو عام الفاظ میں گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے بیشتر حصوں میں سردی کے بھی ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں‘ اس کو 'گلوبل کولنگ‘ کہا جاتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو اکٹھا کیا جائے تو یہ جامع اصطلاح ''موسمیاتی تبدیلیاں‘‘ کہلاتی ہے مگر اب یہ محض تبدیلیاں نہیں رہیں بلکہ تباہیاں بن چکی ہیں۔ اس سارے عمل میں ایک زہریلا اضافہ مستقل فضائی آلودگی کا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت بڑھانے کے ساتھ ساتھ پورے پورے خطے کو ناقابلِ رہائش بنا رہی ہے۔ اس فضائی آلودگی میں جو سموگ کا عفریت سامنے آیا ہے‘ اس کو سردی، گرمی، بہار اور خزاں کے چار موسموں کے بعد پانچواں موسم قرار دیا گیا ہے۔ انگریزی میں اسے ففتھ اور فلتھی (Filthy) یعنی پانچواں اور زہریلا موسم کہا جاتا ہے۔ موسمیاتی تباہیوں کی وجہ سے قدرت کا سارا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ فصلوں کے پکنے کا عمل سست روی کا شکار ہے، پرندے اپنے علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں اور جانوروں کی افزائش پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ہر جاندار کی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر‘ نت نئی بیماریاں وائرس کے نام سے سامنے آ رہی ہیں۔
آخری موسم
پہلے جو قدرتی آفات ہوا کر تی تھیں، وہ سیلاب، طوفان، سونامی یا پھر زلزلے تھے۔ یہ سب آفات کچھ مخصوص دورانیے کے لیے ایک مخصوص علاقے کو متاثر کرنے کے بعد گزر جاتی تھیں، لیکن جوپانچواں موسم آلودگی کے نتیجے میں سامنے آیا ہے‘ یہ ایک مستقل زہریلی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ اور کچھ دیگر علاقے تمام موسمِ سرما میں سموگ نامی زہریلے غبار کی زد میں رہتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح آج جنگوں اور امن میں فرق کرنا مشکل ہو چکا ہے‘ عین اسی طرح Smogاور Fog کے درمیان فرق بھی مشکل ہو چکا ہے۔ اگر کسی علاقے میں صرف دھند یعنی خالص فوگ ہو تو بھی سموگ کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس موسم کو آخری موسم کیوں کہا جا رہا ہے؟ اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس پانچویں موسم سے نجات حاصل نہ کی گئی تو یہ ان تمام متاثرہ علاقوں میں زندگی کے اختتام کی علامت بن جائے گا جہاں یہ زہریلی فضا ہمہ وقت برقرار رہتی ہے۔اس وارننگ کو دہرانا پڑے گا کہ ماہرین بار ہا کہہ چکے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں زندگی گزارنا اپنی زندگی کے اوسط دورانیے کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ ماہرین نے یہ کمی سات سے بارہ سال تک بتائی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس علاقے میں پہلے بھی پانی خالص نہیں تھا‘ خوراک کافی حد تک مصنوعی اور ملاوٹ زدہ تھی تو اب ہی کیوں عمر کم ہونے کی وارننگ دی گئی؟ گزارش ہے کہ خوراک کے معاملے میں انسان پھر بھی کچھ احتیاط برت لیتا تھا، جیسے کھانا گھر میں پکانا‘ حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھنا، پانی کو فلٹر کر کے استعمال کرنا اور سادہ کھانا کھانا وغیرہ، اسی طرح صاف اور پینے کے قابل پانی کے ساتھ ساتھ منرل واٹر وغیرہ کا استعمال وغیرہ۔ یہاں ایک بڑی مثال فیصل آباد اور سرگودھا شہر کی دی جا سکتی ہے جہاں کا پانی پینے کے قابل نہیں لیکن لوگ نہروں کاپانی گھر لے جاتے ہیں جو قدرے صاف ہوتا ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ ہوا کا کیا کریں؟ صاف ہوا کہاں سے لائیں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ صاف ہوا‘ سانس لینے کے لیے چوبیس گھنٹے چاہیے ہوتی ہے جبکہ کھانا دن میں دو سے تین دفعہ اور پانی پانچ سے چھ دفعہ چاہیے ہوتا ہے۔ اس لیے اب اگر لوگوں نے زندہ رہنا ہے تو ماحول یعنی ہوا کا صاف ہونا ناگزیر ہے۔
اسی تناظر میں ایک اہم مگر خطرناک بات یہ ہے کہ پہلے امیر لوگ بیرونِ ملک سے منگوایا ہوا پانی استعمال کر لیتے تھے اور خوراک بھی امپورٹڈ استعمال کرتے تھے لیکن اب ہوا کا کیا کریں؟ یہ تو ہر جگہ صاف میسر نہیں آ سکتی۔ اگرچہ اس وقت ایئر پیوریفائر کے نام سے بھی کچھ مشینیں مل رہی ہیں جن کی کارکردگی اول تو خاصی مشکوک ہے‘ دوم امیر لوگ اپنے گھروں پر ہوا صاف کرنے کی مشینیں لگا سکتے ہیں لیکن یہ مشینیں محدود جگہ پر ہی ہوا صاف کر سکتی ہیں، اگر بیڈروم میں یہ مشین لگائی جائے تو ڈرائنگ روم‘ باتھ روم‘ کچن‘ ٹیرس‘ گیراج سمیت لاتعداد جگہیں ایسی ہیں کہ گھر میں ایئرپیوریفائر لگانے کے باوجود جہاں پر ہوا کو صاف نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کچھ افراد اپنی گاڑیوں میں ایئر پیوریفائر یا ایئر کنڈیشنر کا استعمال کرتے ہیں‘ لیکن کام کاج کے لیے باہر تو پھر بھی نکلنا پڑتا ہے۔ ہوا صاف کرنے والی مشینوں سے اور ایئر کنڈیشنر وغیرہ سے کام چل سکتا ہوتا تو بھارت کی ایک بڑی سیاسی رہنما سونیا گاندھی نیو دہلی چھوڑ کر ڈاکٹروں کے مشورے پر پڑوسی ریاست راجستھان کے شہر جے پور کیوں منتقل ہوتیں؟ حاصلِ کلام یہ ہے کہ آلودہ اور زہریلی فضا نے جو جان لیوا مشکلات پیدا کی ہیں‘ وہ امیر و غریب سب کے لیے یکساں ہیں۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان سب کے باوجود حکومتیں کوئی دیر پا ہنگامی اقدامات کیوں نہیں کر رہیں؟ پاکستان نے لاہور شہر میں مصنوعی بارش برسانے کی کوشش کی لیکن اس بارش‘ جو مقدار میں بہت ہلکی تھی‘کے باوجود چار دن تک مطلع صاف رہا اور آلودگی میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔ یاد رہے کہ پنجاب حکومت ایک اور مصنوعی بارش کا اعلان کر چکی ہے اور مناسب موسمی حالات کا انتظار کر رہی ہے لیکن بھارت اس حوالے سے تاحال نو من تیل کا انتظار کر رہا ہے۔
اندر کا موسم
ماحولیاتی آلودگی سے پہلے بھی ایک پانچویں موسم کا ذکر ہوا کرتا تھا جسے انسان کے اندر کا موسم یعنی اس کی ذہنی و قلبی کیفیت سے جوڑا جاتا تھا۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کا انسان کے موڈ یعنی ذہنی و قلبی کیفیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کئی دنوں تک سورج نہ نکلے تو انسان کا موڈ قدرے افسردہ ہو جاتا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں سردیوں میں راتیں سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک کی ہو جاتی ہیں‘ وہاں لوگ باقاعدہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ناروے، سویڈن اور فن لینڈ ان ممالک میں سرفہرست ہیں جہاں راتیں طویل ترین ہوتی ہیں۔ یہ ممالک دنیا کے خوشحال اور پُرامن ترین ممالک میں شامل ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں خود کشی کا تناسب بہت زیادہ ہے، جس کی ایک بڑی وجہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک چھائے رہنے والا اندھیرا ہے جو انسان کو ڈپریشن کا شکار کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر صاف ہوا کے مقابلے میں آلودہ ہوا میں سانس لیا جائے تو نہ صرف آنکھیں بلکہ گلا اور پھیپھڑے بھی شدید متاثر ہوتے ہیں اور انسانی موڈ بھی خراب رہنے لگتا ہے۔
اس بات کا احاطہ سائنسی بنیادوں پر کیا جائے تو مختلف سائنسی و طبی تجربات کے نتائج بتاتے ہیں کہ اگر آپ ایک ایسے کمرے میں آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں جہاں مناسب روشنی اور صاف ہوا کا انتظام نہ ہو تو کام ختم کرنے کے بعد نہ صرف زیادہ ذہنی تھکاوٹ محسوس ہو گی بلکہ موڈ بھی افسردہ ہو جائے گا۔ اگر اگلے دن اسی کمرے کی کھڑکیاں کھول دیں‘ پردے ہٹا دیں تو ورکرز کا موڈ واضح طور پر بدل جائے گا‘یعنی بہتر ہو جائے گا۔ اسی ضمن میں ایک بات آنکھوں کے دیکھنے کی صلاحیت اور تھکاوٹ کی ہے۔ جب کھڑکیاں کھلی ہوں گی تو گاہے گاہے انسان کی نظر کھڑکی پر پڑے گی اور وہ باہر دیکھے گا۔ ایسا کرنے سے آنکھوں کی صحت بہتر ہوتی ہے‘ بینائی کو طاقت ملتی ہے اور نظر جلدی کمزور نہیں ہوتی۔ اس ریسرچ کے مطابق دیہات اور شہروں کے لوگوں میں نظر کی عینک لگنے کی شرح نکالی گئی تو پتا چلا کہ دیہات میں لوگوں کی بینائی شہروں کے لوگوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے۔ دیہات کے لوگوں میں نظر کی عینک لگنے کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ اس سارے معاملے میں بنیادی فرق گرد و پیش کے ماحول کا ہے، یعنی دیہات کے لوگوں کا زیادہ وقت ایسی جگہوں پر گزرتا ہے جہاں ان کی نظر دور تک دیکھتی ہے اور وہ بھی قدرتی ماحول کو۔ اسی لیے ان کی آنکھوں کی دیکھنے کی صلاحیت اور بینائی بہتر طور پر کام کرتی ہے۔ معلوم نہیں کہ جنوبی ایشیا کے حکمرانوں کی نظر کب اس جانب پڑے گی کہ وہ سوچیں اور دور تک دیکھیں کہ ماحولیاتی آلودگی کو اگر فی الفور ختم اور ہوا کو صاف نہ کیا گیا تو یقینا ہم اس علاقے کے آخری موسم (دور) سے گزر رہے ہیں۔