جمہوریت کا بانس اور بانسری

جنوبی ایشیا ایک دفعہ پھر نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی توجہ کا بھی مرکز بن چکا ہے۔ اس سال دنیا کے تیس کے قریب ممالک میں الیکشن ہونا ہیں جن میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ روس اور امریکہ بھی شامل ہیں۔ کچھ ممالک میں الیکشن ہو چکے ہیں اور ایک ابال بھی پیدا کر چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے دو ممالک بنگلہ دیش اور مالدیپ میں الیکشنز کے بعد علاقائی سیاست میں بھی کچھ تبدیلی آئی ہے۔ مالدیپ میں الیکشن ویسے تو گزشتہ سال ہوئے جسکے نتیجے میں وہاں برسر اقتدار آنیوالی جماعت مکمل طور پر چین نواز اور بھارت مخالف ہے۔ سالِ نو کے پہلے ہفتے میں بنگلہ دیش میں الیکشن ہوئے جنہوں نے جمہوریت کے نام پر خاندانی آمریت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ شیخ حسینہ واجد پانچویں دفعہ وزیراعظم بن گئی ہیں جبکہ اس سے قبل وہ بیس سال تک وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ وہ دنیا کی سب سے طویل عرصے تک برسر اقتدار رہنے والی وزیراعظم بھی ہیں۔ اس سے قبل بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سترہ سال تک وزیراعظم رہے تھے لیکن شیخ حسینہ واجد نے تو جمہوریت کے نام پر بانس جتنی لمبی حکومت کر کے اس لفظ کے معنی ہی بدل دیے ہیں۔ جمہوریت کا لفظ جتنی کثرت اور شدت سے جنوبی ایشیا میں استعمال ہوتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں ہوتا ہو۔ اب دنیا کی نظریں بھارت کیساتھ ساتھ امریکہ پر مرکوز ہیں۔ یہاں پر یہ تذکرہ کرنا ضروی ہے کہ چین کا اٹوٹ انگ کہلانے والے جزیرے تائیوان میں بھی گزشتہ ہفتے الیکشنز ہوئے اور اب تک کے نتائج کے مطابق ان انتخابات میں چین نواز جماعت کو شکست ہوئی ہے۔
بنگلہ دیش میں بانس جیسی جمہوریت
بھارت نے آزادی کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کو وزیراعظم بنایا اور وہ تادمِ مرگ‘ سترہ سال تک وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہے۔ دوسری طرف گاندھی جیسے لیڈر کو کوئی بھی سرکاری یا ریاستی عہدہ نہ ملا اور بھارت ان کی جان کی حفاظت بھی ممکن نہ بنا سکا۔ اگر نہرو خاندان کی بات کی جائے تو یہ خاندان برہمن طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور نہرو کے بعد اندرا گاندھی اور پھر راجیو گاندھی کی شکل میں اس خاندان کے لوگ سب سے طویل عرصے تک بھارت میں وزیراعظم کے عہدے پر براجمان رہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آ رہے کیونکہ حسینہ واجد نے اپنے تمام مخالفین کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔ ایک ہی شخص کا اتنے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنا جمہوریت کی روح کی یکسر نفی ہے۔ اس حوالے سے جو سب سے بڑا اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ ایک شخص دس‘ پندرہ سال تک وزیراعظم رہنے کے باوجود اپنا کوئی جان نشین نہیں بنا پایا، یا پھر وہ چاہتا ہی نہیں کہ کوئی دوسرا اس کی جگہ لے۔ ہر دو صورتوں میں یہ آمریت ہی کی ایک شکل ہے جسے جمہوریت کا لبادہ پہنایا گیا ہے۔ ویسے تو تیسری دنیا کے تمام بڑے ممالک میں نئے حکمرانوں کی آمد میں امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ کی منظوری‘ امداد اور مرضی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن بنگلہ دیش میں حکومت سازی میں امریکہ کے علاوہ بھارت کی اشیرباد اور عمل دخل بھی شامل ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کا واحد زمینی ہمسایہ ملک بھارت ہے جو تقریباً تین چوتھائی علاقے کو گھیرے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش کے گزشتہ الیکشن میں بھی بھارتی مداخلت پر خاصا شور مچا تھا کہ بھارت نے حسینہ واجد کو جتوانے کے لیے الیکشن کے رزلٹ تک کو تبدیل کیا۔ اگر بنگلہ دیش کا عبوری جائزہ لیا جائے تو یہ جنوبی ایشیا کا ایک تیزی سے ترقی کرنے والا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی اپنی آبادی پر قابو پانا ہے۔ اپنے قیام کے وقت اس کی آبادی (مغربی) پاکستان سے تقریباً پچاس لاکھ زیادہ تھی لیکن آج اس کی آبادی پاکستان سے کم از کم سات کروڑ کم ہے۔ بنگلہ دیش میں شدت پسندی بھی بہت حد تک قابو میں ہے۔ اس ملک نے گارمنٹس کی صنعت میں بہت زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ چین اور امریکہ‘ دونوں طاقتوں سے کامیابی سے اپنے تعلقات استوار رکھنے کے ساتھ ان سے فوائد بھی حاصل کیے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ملک ترقی پذیر ممالک ہی کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے بیشتر عوام اب بھی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عسکری طور پر زیادہ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھارت کے سامنے دبا ہوا نظر آتا ہے اور اس کا ایک مظہر بھارت کا کھل کر شیخ حسینہ واجد کی سپورٹ کرنا ہے۔ دوسری طرف حسینہ واجد بھی بھارت ہی کو اپنا مسیحا مانتی ہیں۔
مالدیپ کی بغاوت
گزشتہ سال مالدیپ میں نئی حکومت آ چکی جس نے آتے ہی بھارت مخالف پالیسی اپنا لی۔ سب سے پہلے تو نئے صدر نے بھارت کے مالدیپ میں موجود فوجیوں کو واپس جانے کا حکم دیا۔ یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ مالدیپ کے تین وزرا نے سوشل میڈیا پر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا خاصا تمسخر اڑایا ہے۔ انہوں نے مودی کو جوکر اور مسخرہ جیسے القابات سے نوازا۔ اس واقعے کے بعد سے بھارت اور مالدیپ میں ایک تنائو چل رہا ہے اور بھارت نے اپنے شہریوں کو مالدیپ جانے سے روکنے کے لیے ویزوں کا اجرا بند کر دیا ہے۔ مالدیپ ایک چھوٹا سا ملک ہے، جو چند جزائر پر مشتمل ہے۔ اس کا کل رقبہ نوے ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ رقبے کے لحاظ سے مالدیپ بھوٹان کے بعد جنوبی ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ اس کی نئی حکومت نہ صرف سخت بھارت مخالف ہے بلکہ کافی حد تک چین نواز بھی ہے۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ چین کی سرپرستی ہی کی وجہ سے مالدیپ میں بھارت مخالفت کا حوصلہ پیدا ہوا ہے اور اس خطے میں چینی شہ پر بھارت کی مخالفت کرنے والا‘ بھوٹان اور نیپال کے بعد‘ یہ تیسرا ملک ہے۔ اپنی پوری تاریخ میں مالدیپ نے کبھی بھارت مخالف بیان تک نہیں دیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بھوٹان، سری لنکا اور نیپال کی طرح مالدیپ کو بھی بھارت ہی کی ایک کالونی سمجھا جاتا تھا لیکن اب سب کچھ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔
اس ضمن میں اہم ترین بات مالدیپ کے صدر محمد معیزو کا وہ بیان ہے جو انہوں نے چین کے پانچ روزہ دورے کے اختتام پر دیا۔ بھارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مالدیپ ایک چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن کسی کے پاس اس پر دھونس جمانے کا کوئی لائسنس نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف زمینی علاقے کو نہ گنا جائے‘ اگر ان کے ملک کے سمندری علاقے کو بھی شامل کیا جائے تو مالدیپ کا کُل رقبہ نو لاکھ مربع کلومیٹر بن جاتا ہے۔ مالدیپ کے موجودہ صدر نے اپنی الیکشن مہم بھارت مخالفت میں ''India Out‘‘ کے نعرے سے چلائی تھی۔ اب نیپال کے بعد مالدیپ بھارت کی کھلم کھلا مخالفت کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ دوسری جانب بھوٹان بھارت مخالف نہ بھی ہو لیکن چین نواز ضرور ہو چکا ہے۔ مالدیپ کے صدر نے بھارتی فوج کو آخری الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت 15 مارچ سے قبل مالدیپ سے نکل جائے۔ اس وقت مالدیپ میں 100 کے لگ بھگ بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ بھارت کے ہمسایہ ممالک میں اب صرف بنگلہ دیش ہی بچتا ہے جو اس کا مخالف نہیں ہے۔ '' String of Pearls‘‘ کی تھیوری کے مطابق بھارت سمجھتا ہے کہ چین اس کے گرد موجود بندرگاہوں کو اپنے زیرِ اثر لا کر بھارت کو گھیر چکا ہے۔ واضح رہے کہ چین میانمار، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ کے سمندری علاقوں میں موجود ہے۔
جنوبی ایشیا برطانوی تسلط سے تو آزاد ہو گیا لیکن ساتھ ہی برہمن کی اکھنڈ بھارت سوچ کے شکنجے میں آگیا۔ اب اس علاقے میں امریکہ کے عالمی استعمار کے علاوہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین کی بھی دلچسپی پیدا ہو چکی ہے۔ چین اور بھارت کی کشمکش کی بڑی وجہ بھارت کی امریکہ نواز پالیسی ہے جس کی وجہ سے بھارت چین کے معاشی منصوبوں کی مخالفت کر رہا ہے۔ بھارت ان منصوبو ں کا نہ صرف حاسد ہے بلکہ ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس علاقے میں کب امریکی عمل دخل کم ہوتا اور چین کا اثر و رسوخ بڑھتا ہے۔ سردست یہ خطہ جمہوریت کی بانس جیسی لمبی آمریت کی بانسری بجاتا نظر آ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں