بات معاشی جمہوریت کی ہو رہی ہے۔ گزشتہ کالم میں جائزہ لیا گیا تھا کہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں میں مجموعی طور پر امیر لوگوں کی دولت اور سالانہ آمدن اور اسی ملک کے غریب لوگوں‘جو محض زندہ رہنے کی جستجومیں رہتے ہیں‘ کی دولت اور سالانہ آمدن میں ایک وسیع خلیج جتنا فرق کیوں اور کیسے ہے۔ یہ بات جاننے کے بعد کہ دنیا کی کل آمدن اور دولت کا آدھا حصہ یعنی پچاس فیصد محض ایک فیصد لوگوں کے قبضے میں ہے‘ اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ماضی کے بیس‘ تیس سال کی تاریخ مستقبل کے رجحان کے حوالے سے کیا بتاتی ہے، کیا اس خلیج نما فرق میں کوئی کمی آ رہی ہے یا یہ فرق ایک شرح پر فکس ہے؟ یا یہ کہ اس میں مزید اضافہ تو نہیں ہو رہا۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں معاشیات کے مضمون میں یہ فرق 20 اور 80 کے تناسب کے طور پر پڑھایا جاتا تھا؛ یعنی آج سے لگ بھگ تیس سال قبل دنیا میں بیس فیصد لوگ مجموعی طور پر 80 فیصد وسائل پر قابض تھے، لیکن اب یہ تناسب غیر مساوی ہو چکا ہے۔ گزشتہ کالم میں اس کا ذکر ہوا تھا کہ محض بارہ فیصد لوگ دنیا کی 85 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہو گئی کہ امیر ترین لوگوں کی تعداد 20 فیصد سے کم ہو کر اب 12 فیصد رہ گئی ہے جبکہ ان کے قبضے میں دولت کا حجم 80 فیصد سے بڑھ کر 85 فیصد ہو چکا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ امیر ترین لوگوں اور باقی دنیا کی دولت اور آمدن میں فرق اب کسی خلیج سے بڑھ کر سمندر کے دو کناروں کی طرح ہو چکا ہے۔ اس جائزے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ فرق وقت کے ساتھ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ آج کی دنیا کا یہ سب سے بڑا‘ دن اور رات جیسا‘ تضاد ہے۔
آزادی‘ اخوت اور مساوات
جمہوریت کا جنم جس نعرے کے تحت ہوا وہ ''آزادی‘ اخوت اور مساوات‘‘ کا نعرہ ہے۔ یہ فرانس کے جمہوری انقلاب کا ماٹو تھا۔ انقلابِ فرانس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ فرانس کی اشرافیہ اعلیٰ مذہبی قیادت‘ جس نے چرچ کے نام پر بہت ساری زمینوں پر قبضہ کیا ہوا تھا اور یہ ٹیکس بھی نہیں دیتی تھی‘ عوام کا پوری طرح سے خون چوس رہی تھی۔ انقلابِ فرانس سے بادشاہت کے خاتمے کے بعد سیاسی جمہوریت تو آ گئی، لیکن امیر اور غریب کے فرق پر کوئی دھیان نہ دیا گیا۔ اس امر کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ فرانس کا انقلاب جب آیا تو یہ زرعی دور تھا۔ اس دور تک امیر اور غریب کا فرق کم ہوتا تھا، لیکن جیسے ہی صنعتی انقلاب آیا‘ جاگیردار کی جگہ سرمایہ دار نے لے لی اور امیر و غریب کی تفریق تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ صنعتی دور کے بعد لوگوں کے استعمال کی نت نئی اشیا ایجاد ہوئیں اور بنیادی ضرورتوں سے آگے بڑھتے ہوئے پہلے سہولتوں اور پھر تعیشات کی بھرمار ہو گئی۔ اشیا کی پیداوار اور ان کے استعمال کی بدولت مزدور طبقے اور امیر لوگوں کی زندگی میں فرق نمایاں ہونا شروع ہو گیا۔ اس بات کو ایک چھوٹی سی مثال سے واضح کرتے ہیں۔ جب تک زرعی دور تھا‘ دیہات میں سفر کرنے کی جدت صرف گھوڑے‘ گدھے یا اونٹ کی شکل میں سامنے آئی۔ انیسویں صدی میں سائیکل کی ایجاد سے قبل تک امیر بگھیوں وغیرہ پر ہی سفر کرتے تھے جبکہ ایک عام فرد کے پاس بھی سواری کا ایک آدھ جانور ضرور ہوتا تھا۔ اب تصور کریں کہ ان جانوروں پر سفر کرنے والے امیر افراد اور ایک غریب فرد یا پیدل سفر کرنے والے شخص کی رفتار میں کتنا فرق ہو سکتا تھا۔ یقینا یہ فرق منٹوں کے حساب سے ہو گا۔ لیکن اب اگر آپ موازنہ کریں ایک پیدل چلنے والے شخص کا اُس شخص سے‘ جو ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے تو...؟ لازمی بات ہے کہ اس کو موازنہ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ جو سفر جہاز چند گھنٹوں میں طے کرتا ہے‘ کسی قسم کی ذاتی سواری نہ رکھنے والا شخص وہ سفر مہینوں میں بھی طے نہیں کر سکتا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج کے امیر لوگوں کا غریبوں کے ساتھ کوئی موازنہ باقی رہا ہی نہیں۔ اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے آپ ایک امیر آدمی کے پالتو جانور کی خوراک، رہائش اور علاج کا موزانہ، کسی غریب کی اکلوتی اولاد سے بھی کر سکتے ہیں۔ ان دونوں کا بھی کوئی موازنہ ہے ہی نہیں۔ امرا کے پالتو جانوروں کی خوراک بیرونی ممالک سے درآمد کی جاتی ہے، ان کی ویکسین بھی امپورٹڈ اور خاصی مہنگی ہوتی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ کسی پوش علاقے میں پالتو جانوروں کی کسی علاج گاہ کے معیار کا موازنہ کسی ایسے سرکاری ہسپتال سے کر لیں‘ جہاں انسانوں کا علاج ہوتا ہے‘ ساری حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔ اس مہذب دور میں بھی امیروں کے پالتوں جانوروں کے کلینک تیسری دنیا کے غریبوں کے ہسپتالوں سے کہیں بہتر معیار کے ہیں۔
اب آزادی‘ اخوت اور مساوات کا نعرہ ذہن میں لائیں‘ یقینا اب اس کے معنی اور مفہوم قدرے تلخ حقائق کو سموئے نظر آئیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب غریب افراد اپنی خوراک، رہائش اور لباس کے لیے آزادی اور مساوات کا نعرہ تو لگا سکتے ہیں مگر حقیقت میں اشرافیہ تو کجا‘ وہ ان کے پالتو جانوروں کی بھی برابری نہیں کرتے۔ اب تو ان کا مطالبہ ہے کہ جو معیارِ زندگی امیر کے پالتوں جانوروں کو حاصل ہے‘ غریبوں کو کم از کم وہی میسر کر دیا جائے۔ وہ معیار مکمل طور نہ سہی‘ اس کے قریب ترین ہی کا معیار دے دیا جائے۔ یہاں سے براہِ راست آپ کو برطانیہ لیے چلتے ہیں جو دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی کل آبادی ساڑھے چھ کروڑ کے لگ بھگ ہے، لیکن یہاں پر موجود پالتو جانوروں کی تعداد جان کر شاید آپ چونک جائیں گے۔ برطانیہ میں پالتو کتوں کی تعدا ایک کروڑ بیس لاکھ ہے جبکہ پالتو بلیوں کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ پالتوں پرندوں کی تعدا بارہ لاکھ اور پالتو خرگوشوں کی تعداد پندرہ لاکھ ہے۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ پالتو جانوروں اور پرندوں کی تعداد کا لوگوں کی غربت سے کیا تعلق ہے؟ اس تعلق کی وضاحت یہ ہے کہ جو پالتو کتے اور بلیاں برطانیہ میں موجود ہیں‘ ان کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زائد ہے‘ وہ رقم جو ان کی خوراک، رہائش اور علاج پر خرچ ہوتی ہے‘ اگر وہی رقم برطانیہ کے غریبوں پر خرچ کی جائے تو یقینا ڈھائی کروڑ نہ سہی‘ کم از کم پچاس لاکھ لوگوں کو زندگی کی ضروریات بہترین انداز سے مہیا کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی اکثریتی ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد ایک تنخواہ سے اگلی تنخواہ کے سائیکل میں زندہ ہے، یعنی نوکری کے سبب ہی ان کا خرچ چل رہا ہے‘ اگر ان کی نوکری ختم ہو جائے تو نوبت فاقوں پر پہنچ جائے گی۔ دنیا کے سبھی ممالک میں لوگ بیروز گار بھی ہیں اور بغیر کسی چھت کے رہنے پر بھی مجبور ہیں۔ اس ساری بحث کا خلاصہ بہت واضح مگر کافی بھیانک ہے‘ وہ کہ امیر ممالک میں چند لاکھ لوگ جو بے گھر اور بیروزگار ہیں‘ کیوں نا پالتو جانوروں پر خرچ ہونے والی رقم اور سہولتیں ان لوگوں کو دے دی جائیں‘ اس طرح کم از کم ان ملکوں میں غریب اور محروم لوگوں کی شرح صفر پر لائی جا سکتی ہے لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام کے وہ بھیانک روپ ہیں جو انسانیت کے ماتھے کا کلنک ہیں۔
پیداوار اور کھپت والی انسانی مشین
سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ کم از کم تین سے چار فیصد لوگوں کو بیروزگار رکھا جائے۔ اگر سو فیصد لوگ برسر روزگار ہو جائیں گے تو پھر کوئی بھی آجر یعنی مالک معاوضہ طے نہیں کر سکے گا بلکہ کام کرنے والے لوگ یعنی مزدور خود اپنا معاوضہ طے کریں گے۔ اس کی مثال تیسری دنیا میں بکثرت مل سکتی ہے، مثلاً اگر آپ گھر بنانے کے لیے مزدور لینے جائیں اور وہاں بیس مزدور موجود ہوں تو مزدور کا چنائو اور معاوضے کا تعین آپ کریں گے لیکن اگر آپ کو پانچ مزدوروں کی ضرورت ہے اور میسر بھی صرف پانچ ہی مزدور ہیں یا اس سے بھی کم تو پھر معاوضے کا تعین مزدور کریں گے، جو یقینا زیادہ ہو گا۔ کوئی بھی ملک‘ خواہ کتنا ہی خوشحال کیوں نہ ہو‘ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ خفیہ اصول وہاں بھی کارفرما نظر آئے گا کہ تین سے چار فیصد لوگ بیروزگار ہوں گے۔ اشتراکیت والے اس اصول کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسانی مشینوں یعنی مزدوروں کو محض اتنا دیا جاتا ہے کہ وہ زندہ رہ سکیں اور مزید مزدور پیدا کرتے رہیں، اور جو کچھ وہ کمائیں اس سے سرمایہ دار کے گاہک بن کر مال کی کھپت میں حصہ ڈالیں۔