انرجی انسانی زندگی میں ایک ایسا عنصر ہے جس کے بغیر کوئی بھی چیز حرکت نہیں کرتی۔ انرجی کا سب سے بڑا ذریعہ سورج ہے جس کی حدت والی شعائیں زمین پر پہنچتی ہیں تو انرجی کا سرکل رواں ہو جاتا ہے۔ پودے‘ درخت اور فصلیں اس حدت سے اپنی خوراک بنانا شروع کردیتے ہیں جسے ہم عام زبان میں فصلوں کا پکنا کہتے ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ گندم کی فصل ہو یا چاول کی‘ یہ سورج سے حاصل کردہ انرجی اپنے دانوں میں سٹور کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر ہم یہی اجناس کھا کر اپنے جسم کو انرجی پہنچاتے ہیں جس سے ہم اپنے روز مرہ کے کام کاج کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم انسانی جسم کیلئے درکار انرجی کی پیمائش کیلوریز میں کرتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عام آدمی کو ایک دن میں دو ہزار کے قریب کیلوریز درکار ہوتی ہیں۔ انسانوں کے لیے خوراک کا تصور یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی مطلوبہ کیلوریز ایک متوازن خوراک سے حاصل کریں جیسا کہ ایک انسان ایک دن میں اپنی کیلوریز کسی ایک چیز مثلاً روٹی کے بجائے گوشت‘ دودھ‘ سبزی اور پھلوں سے پوری کرے۔ اگر کوئی انسان متوازن خوراک لینا تودور کی بات ہے‘ اپنی غذائی ضروریات پوری ہی نہ کر پائے یعنی وہ غذاکی کمی کا شکار ہو تو اسے Malnutritionکہتے ہیں۔جس طرح آج کل مزدور طبقہ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا چھوڑ چکا ہے بلکہ پوری دنیا کی غریب آبادی اکثر Malnutrition کا شکار رہتی ہے۔ اب اگر کوئی انسان ایسی خوراک کھائے جو کہ مضر صحت ہو تو اس سے اُس کی بھوک تو مٹ جائے گی لیکن اس کی جان کو بے شمار خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
اب بات چونکہ انسانی زندگی کو لاحق خطرات کی طرف چل نکلی ہے تو اپنے کالم کا رُخ انسانی زندگی کو لاحق دیگر خطرات کی طرف موڑتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم آلودہ یا گندی انرجی ہے جس سے نہ صرف انسان بلکہ پوری دنیا یا کرۂ ارض کی بقا کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ یہاں بات ہو رہی ہے انسانوں کے لیے پید اکی جانے والی انرجی کی جو آج بھی کوئلہ جلا کر یا پھر ڈیزل سے پیدا کی جاتی ہے۔ آج کی اس جدید دنیا میں بھی کل انرجی کی ضروریات کا ایک تہائی کوئلے سے پیدا کیا جا رہا ہے جو فضا کو آلودہ کرنے کا ایک بڑا اور خطرناک محرک ہے۔ کوئلہ کے جلنے سے ہی کاربن پیدا ہوتی ہے جو فضا میں شامل ہو کر نہ صرف ہوا کو آلودہ کرتی ہے بلکہ زمین کا درجۂ حرارت بڑھانے کا بھی سب سے بڑا محرک ہے۔ اگر بات کریں تیل سے چلنے والی گاڑیوں اور دیگر چیزوں کی تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں ڈیزل کا بے تحاشا استعمال ہو رہا ہے۔ ڈیزل کا شمار بھی آلودہ انرجی میں ہوتا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے بڑے شہروں میں ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع کر رکھا ہے۔ ڈیزل کے بعد باری آتی ہے پٹرول کی جو ڈیزل کی نسبت کم آلودگی پیدا کرتا ہے۔ سب سے اعلیٰ قسم کا تیل ہائی اوکٹین کہلاتا ہے جو پٹرول سے بھی کم آلودگی پیدا کرتا ہے لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اس ضمن میں اب دنیا نے ایک کروٹ لی ہے اور اب تمام اقسام کی گاڑیوں کو بجلی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے بھی اس معاملے میں کسی حد تک اپنی توجہ اور دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ نگران صوبائی حکومت صوبے میں بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلیں اور رکشے متعارف کروا چکی ہے۔ بجلی پر چلنے والی موٹر سائیکل دو یونٹ میں پوری چارج ہو جاتی ہے اور ایک چارج میں تقریباً اسی کلو میٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کے باوجود دو یونٹ کی قیمت ایک سو روپے بنتی ہے جبکہ پٹرول کے ایک لٹر کی قیمت تقریباً 260 روپے ہے۔ اب صرف لاگت کا حساب لگائیں تو یہ فرق بہت زیادہ اور نمایاں ہے۔ یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ بجلی پر چلنے والی موٹر سائیکل کا موبل آئل اور فلٹر تبدیل کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی جو کہ ایک اضافی فائدہ ہے وہ بھی معاشی طور پر۔ اب آپ کی توجہ بجلی پر چلنے والی موٹر سائیکل کے ایک اور فائدہ کی طرف دلاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بجلی پر چلنے والی موٹر سائیکل کا شور نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یہی سب فوائد بجلی پر چلنے والی کار کے بھی ہیں یعنی بجلی پر چلنے والی کار کی چارجنگ پر ہونے والے اخراجات پٹرول کی مد میں ہونے والے اخراجات سے بہت کم ہیں۔ فی کلو میٹر لاگت ہو یا انجن آئل کا تبدیل کروانا‘ یہ تمام فوائد آپ کو بجلی پر چلنے والی کار میں بھی ملیں گے۔
اب چلتے ہیں تیسرے فائدے کی طرف جو لاگت کے حساب سے تو انمول ترین ہے۔ یہ بات ہو رہی ہے گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کی جس میں کاربن کے ساتھ دھواں بھی شامل ہے۔ اب ایک شہر‘ چلیں لاہور ہی کی مثال لے لیں تو پتہ چلتا ہے کہ فضائی آلودگی کا چالیس فیصد تک صرف ٹریفک سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت نے بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے والوں یا اُلٹے ہاتھ پر موٹر سائیکل یا گاڑی چلانے والوں کے خلاف تو بھرپور مہم شروع کر رکھی ہے جوکہ اچھا اقدام بھی ہے لیکن آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ یہاں تک کہ اُنہیں وارننگ بھی نہیں دی جاتی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اشتہاروں کی حد تک ضرور مہم چلتی ہے کہ دھواں دینے والی گاڑیاں‘ پیدا کریں بیماریاں۔ ٹرکوں اور بسوں کی بات کریں تو یہ ڈیزل پر چلتی ہیں۔ ڈیزل پر چلنے والی گاڑیاں دھواں اور کاربن دونوں بہت زیادہ پیدا کرتی ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ لاہور کے شہری اب اپنے شہر ہی میں اپنی پٹرول پر چلنے والی موٹر سائیکل کو بجلی پر منتقل کر سکتے ہیں۔ یہ سارا کام پچاس ہزار روپے میں ہو سکتا ہے جو اگلے چھ ماہ کے عرصے میں اپنی لاگت پوری کر دیتا ہے۔ لیکن جو بات یاد رکھنے کی ہے اور جسے شدت سے مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہے کہ بجلی والی موٹر سائیکل اور گاڑیاں ہر گز دھواں نہیں پیدا کرتیں۔ دھواں پیدا نہ ہو تو اس سے ماحول صاف رکھنے میں سو فیصد مدد ملتی ہے۔ ماحول صاف ہو گا تو انسانی جانوں کی بچت بھی ہو گی اور انسانی جان کی تو کوئی قیمت ہی نہیں لگائی جا سکتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں اتنی سست رفتاری کیوں دکھائی جا رہی ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو بجلی پر منتقل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اب تو بسوں اور ٹرکوں کو بھی بجلی پر منتقل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن یہ سب کرنا پڑے گا‘ خود سے نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں مزید تاخیر کی گنجائش بالکل نہیں ہے‘ ہم پہلے ہی سموگ کے زہریلے دھویں کی لپیٹ میں ہیں۔
شروع میں بات ہو رہی تھی انسان کی خوراک کی تو اب تک ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ اگر انسان کم یا پھر آلودہ خوراک کھائے تو اس کی صحت اور جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے‘ عین اسی طرح گندے تیل پر چلنے والی گاڑی کا نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ گاڑی کی صحت اور جان کا انحصار اس کے انجن پر ہوتا ہے لیکن اگر گاڑی بجلی پر چلے گی تو اس کو انجن سے یکسر ہی نجات مل جائے گی‘ جو ایک ایسی چیز ہے جس سے گاڑی کی اوسط عمر بھی بڑھ سکتی ہے۔ ددسری بات جو انسانی فطرت کے بہت قریب ہے وہ یہ ہے کہ اس سے سفر کرنے کی لاگت کم ہو جاتی ہے۔ پتا نہیں لوگ خود بھی کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ جس عمل کو لوگ از خود اختیار کر لیں تو پھر اس کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ اب تو دنیا میں ریل گاڑیاں بھی بجلی سے چل رہی ہیں‘ وہ بھی تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی زیادہ۔ اب باقی باتیں چھوڑیں اور نہ صرف اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی بجلی پر منتقل کریں بلکہ اپنے جاننے والوں کو بھی یہی مشورہ دیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے کہ لوگ تو کسی حد تک بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر منتقل ہو رہے ہیں لیکن حکومت اب بھی قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقل نہیں ہو رہی۔