جنگ جاری ہے

طاقت کا ایک لازمی وصف ہے کہ یہ اظہار چاہتی ہے۔ اگر سامنے کوئی برابر کی طاقت کا حامل موجود نہ ہو تو پھر صاحبِ طاقت ظلم و جبرکے ذریعے باقی دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتا ہے‘ کمزوروں کا معاشی استحصال کرتا ہے‘ نت نئی شرائط لاگو کرتا ہے‘ یہاں تک کہ علاقوں کی نئی حد بندیاں بھی خود سے کرنے لگتا ہے۔ امریکہ کے دنیا میں طاقت کے اظہار کی شکل میں یہ سب باتیں سچ ثابت ہو چکی ہیں‘ جو اس نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر کی شکل میں جاری رکھا جبکہ ایشیا اور مسلم دنیا امریکی طاقت کے بہیمانہ استعمال کے لیے میدانِ جنگ بنے رہے۔ جب دو طاقتور آمنے سامنے آ جائیں تو ان کی طاقت کے اظہار کو جنگ کہتے ہیں۔ دنیا میں چین کے ایک عالمی طاقت بننے سے نیم سرد اور نیم گرم جنگ جاری ہے۔ اس نئی جنگ کے تمام میدان پہلے ایشیا ہی میں تھے جہاں امریکہ ایک ڈِس آرڈر جاری رکھنا چاہتا تھا جبکہ چین امن چاہتا تھا جو اس کی اپنی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔
جنگ تو پرانی‘ لیکن میدان نئے
چین نے ایشیائی ممالک کو مثبت سمت میں گامزن کرنے کی کوششیں پوری شدت سے شروع کیں۔ اس کے لیے نت نئے معاشی منصوبے شروع کیے لیکن مغربی دنیا نے امریکی سربراہی میں بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر چین کی معاشی ترقی کے خلاف اپنی رکاوٹی حکمت عملی جاری رکھی۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے تو چین کی دکھتی رگ‘ تائیوان کی بھرپور معاونت کر کے چین کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جاپان کو چین اور روس سے قصداً دور رکھا۔ بھارت کی مدد سے چین کے خلاف ایک پراکسی جنگ بھی شروع کی گئی۔ سب سے بڑھ کر امریکہ خود 20سال تک افغانستان میں بیٹھا رہا۔ اس کے بعد نہ صرف مسلم ممالک کو اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے پر تقریباً راضی کر لیا گیا بلکہ گریٹر اسرائیل کی پیش بندی بھی جاری رکھی گئی۔ اس کے ساتھ ہی چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے جنوبی چین کے سمندر میں بھرپور طاقت آزمائی کی گئی جس کیلئے آسٹریلیا‘ بھارت اور دیگر ممالک کو بھی فریق یا اتحادی بنایا گیا۔ یہاں تک تو سب کچھ مغربی سوچ اور پالیسیوں کے تحت چل رہا تھا لیکن روس نے یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرکے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اگرچہ اس سے پہلے روس کریمیا پر قبضہ کر چکا تھا لیکن چونکہ اس قبضے میں نہ تو طاقت زیادہ استعمال ہوئی اور نہ ہی وقت زیادہ لگا تھا‘ اس لیے دنیا نے اس کو ایک معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا لیکن یوکرین کا تنازع‘ جو اب بھی جاری ہے‘ نے یورپ اور امریکہ کی یہ خام خیالی دور کر دی ہے کہ کسی یورپی ملک پر حملہ نہیں ہو سکتا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ نئی سرد جنگ میں مغرب کے خلاف پہلا باضابطہ محاذ کھل چکا ہے۔ چین نے روس کے یوکرین پر حملے میں بھرپور مدد نہ بھی کی ہو لیکن اس نے روسی مؤقف کی حمایت کرکے اس جنگ کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر دی جس سے دنیا بھر میں یہ پیغام گیا کہ روس اس جنگ میں اکیلا نہیں بلکہ اس محاذ میں چین بھی مغرب کی مخالف سمت کھڑا ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی۔
دوسری طرف گزشتہ برس ستمبر میں جی 20اجلاس کے دوران بھارتی وزیراعظم نے ''انڈیا‘ مشرقِ وسطیٰ‘ یورپ اکنامک کاریڈور‘ کا اعلان کرکے چین کو ایک نئی چنوتی دی۔ اس منصوبے میں اسرائیل کو ایک بڑے علاقائی پلیئر کے طور پر دکھایا گیا جو مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑا مغرب نواز ملک ہے۔ اس نئے تجارتی راستے اور بلاک میں مشرقِ وسطیٰ کے سبھی اہم ممالک‘ سوائے ایران کے‘ کو حصہ دار بنایا گیا۔ لیکن اس منصوبے کے اعلان کے چند ہفتے بعد ہی وہ ہوا جو روس‘ یوکرین جنگ سے بھی بڑا تھا۔ حماس نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تصور کو زمین بوس کر دیا۔ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیلی دفاع کے ناقابلِ شکست تصور کو پاش پاش کر دیا۔ اب گزشتہ چار ماہ سے اسرائیل غزہ میں جوابی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن تاحال مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر پایا اور نہ ہی اپنی سابقہ پوزیشن کو بحال کر پایا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ اپنے تمام عسکری اور مالی وسائل کے ہمراہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل فلسطینی مجاہدین کو پسپا نہیں کر سکا۔ اس جنگ میں غزہ میں ہونے والا جانی نقصان انسانی تاریخ کا ایک بدترین داغ بن چکا ہے۔ یورپ ہو یا امریکہ‘ وہاں فلسطینیوں کی حمایت میں اتنے بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں کہ وہاں کی حکومتوں پر دباؤ بہت بڑھ چکا ہے۔ اصل میں تو یہ ان ممالک کی عوامی حمایت ہی ہے جس نے سفارتی محاذ پر اسرائیل کو شکست سے دو چار کر رکھا ہے۔ اس جنگ کے بعد امریکہ اور برطانیہ کا مسلم ممالک سے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرانے کا خواب بھی چکنا چور ہو چکا۔ علاوہ ازیں جو سب سے بڑی شکست اسرائیل اور اس کے حامیوں کو ہوئی‘ وہ گریٹر اسرائیل منصوبے کا خاک میں ملنا ہے۔
یورپ کے نئے اور بڑے محاذ
اب واپس چلتے ہیں یورپ کی طرف‘ جہاں روس نت نئے سر پرائز دے کر مغربی دنیا کو پچھلے قدموں پر دھکیل رہا ہے۔ یورپ کے جس ملک کی بڑی سمندری سرحد روس کے ساتھ ملتی ہے وہ سویڈن ہے۔ سویڈن کے آرمی چیف نے اپنی قوم کو خبردار کیا ہے کہ سویڈن کو ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سویڈن کے آرمی چیف کے اس بیان نے ایک بھونچال برپاکر دیا ہے۔ سویڈن کے آرمی چیف کا اشارہ دراصل روس کی جانب ہے کہ اس کی طرف سے سویڈن پر بھی حملہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف روس نے اس بیان پر کوئی خاص ردِ عمل نہیں دیا۔ اس ممکنہ جنگ کی وجوہات بھی یوکرین سے ملتی جلتی ہیں کیونکہ یوکرین امریکی فوجی اتحاد نیٹو کا ممبر بننا چاہ رہا تھا جس پر روس نے پہلے سے یوکرین کو خبردار کر رکھا تھا کہ روس اس اقدام کو اپنے خلاف مغربی جارحیت تصور کرے گا۔ سویڈن کا معاملہ یہ ہے کہ نیٹو میں شمولیت کرنے والا یہ تازہ ترین ملک ہے جبکہ اس کی سمندری سرحد بھی روس سے ملتی ہے۔ روس سویڈن کے خلاف کوئی مہم جوئی کرتا ہے یا نہیں‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن سویڈن کے آرمی چیف کے بیان نے پورے ملک میں خوف کی ایک فضا ضرور پیدا کر دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عملی جنگ سے زیادہ خوفناک جنگ کی دھمکی یا اس کا خدشہ ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں ملک کے ادارے اور فیصلہ ساز ہیجان اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس ہیجان میں جنگی تیاری‘ اشیا کی ذخیرہ اندوزی اور فورسز میں نئی بھرتیوں جیسے اقدام عوام کو ایک منفی سوچ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اسی بات کا اگلا پہلو یہ ہے کہ سویڈن کی جانب سے جنگ کے خدشے کا اظہار‘ یورپ کے دیگر بالخصوص چھوٹے ممالک کو بھی جنگی خدشات میں مبتلا کر رہا ہے۔ یاد رہے یورپ کے چند بڑے ممالک کے علاوہ بہت سارے ممالک ایسے ہیں جن کی نہ تو کوئی باقاعدہ فوج ہے اور نہ ہی زیادہ رقبہ۔ یہ ممالک مکمل طور پر بڑی یورپی طاقتوں اور امریکہ کے رحم و کرم پر ہیں؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سویڈن کے ساتھ کوئی بھی چھیڑ چھاڑ اتنی آسان نہیں ہو گی لیکن روس نے یورپ میں ایک نیا میدانِ جنگ ضرور گرما دیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا کا چوتھا بڑا بحر‘ جسے ہم بحرِ منجمد شمالی کہتے ہیں اور جس کا پانی ہمیشہ جما رہتا ہے‘ کو روس نے اپنا علاقہ قرار دیتے ہوئے وہاں ایسے جدید بحری جہاز بھی چھوڑ دیے ہیں جو برف کو توڑ کر منجمد پانی میں بھی نقل و حرکت کر سکتے ہیں۔ اس بحر میں تیل اور گیس کے ذخائر چھپے ہوئے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس بڑے سمندر میں نقل و حرکت شروع ہونے سے دنیا کو ایک نیا معاشی راستہ میسر آ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں