1981میںاقوامِ متحدہ میں ایک قرارداد پاس کی گئی جس کے تحت 21ستمبر 1982کو دنیا میں پہلی دفعہ امن کا عالمی دن منایا گیا۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اس سال یہ دنTeacher for Peace: Respect, Safety and Dignity for Allکے سلوگن کے ساتھ منایا گیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ جس چیز کی ضرورت میں سب سے زیادہ اضافہ ہورہا ہے ‘ وہ امن ہے۔ امن کی ضرورت کے بارے میں یہ تک کہا جا رہا ہے کہ یہ روٹی ، کپڑا اور مکان سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔زیادہ آسان الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امن کے بغیر روٹی، کپڑا اور مکان بے کار محسوس ہوتے ہیں۔ اسی طرح امن کی عدم موجودگی میںیعنی جنگ کی صورتِ حال میں بلکہ جنگی تیاریوں پر اتنا خرچہ ہوتا ہے کہ لوگ روٹی ، کپڑا اور مکان کو ترس جاتے ہیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی کے حامل ملک بھارت ہی کو دیکھ لیں جو سالانہ 50ارب ڈالر سے زائد دفاع کے نام پر جنگی تیاریوں پر خرچ کرتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت دفاعی بجٹ کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور ا س اعتبار سے بھارت، فرانس ، برطانیہ ، جاپان ، جرمنی ، آسٹریلیا اور برازیل جیسے ترقی یافتہ اور امیر ممالک سے بھی زیادہ دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی 50فی صد آبادی کو Toilet تک کی سہولت میسر نہیں ہے۔ نامناسب خوراک ملنے کی وجہ سے قد چھوٹا رہ جانے والی سب سے بڑی آبادی بھی بھارت میں ہی ہے۔ تقریباً 45 فی صد بھارتی بچوں کا وزن اپنی عمر کے اعتبار سے کم ہے ۔ پاکستانی دفاعی بجٹ9ارب ڈالر ہے جس کی سراسر وجہ بھارت کی روزِ ازل سے جاری جارحانہ جنگی پالیسی ہے۔پاکستان بننے کے بعد 1948میں پہلی جنگ ہوگئی‘ جس کے بعد 1965اور 1971کی جنگوں سے لے کر آج تک پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف بھارتی خطرے کی
وجہ سے ہے۔ آئیے! ایک اورمثال پر غور کرتے ہیں ذرا سوچیے کہ اگر بھارت1974 میں ایٹمی دھماکا نہ کرتا تو کیا پاکستان کے ذہن میں یہ خیال آتا کہ اسے بھی ایٹمی طاقت بننا چاہئے۔لہٰذا مکمل اور محتاط اندازے اور دعوے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ترقی پذیرممالک میں ایٹمی اسلحہ کارواج اور دوڑ شروع کرنے کا ذمہ دار بھارت ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت رقبہ آبادی اور بجٹ کے اعتبا ر سے کئی گنا بڑا ملک ہے ۔ا یسے حالات میں یہ بڑے ملک کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ چھوٹے ملک سے کس طرح کے تعلقات رکھنے ہیں۔ بھارتی نیت اور فتور کا سب سے بڑا مرکز ہزاروں فٹ کی بلندی پر موجود سیاچن کا محاذ ہے جس پر بھارت نے 1980کی دہائی کے اوائل میں صرف اور صرف پاکستان کو زچ کرنے کے لیے قبضہ کر لیا تھا ‘ جس کی وجہ سے آج تک سیاچن دنیا کا سب سے بلند اور مہنگا جنگی محاذ ہے۔ بھارت کے سرحدی تنازعات صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چین ، بنگلہ دیش ، بھوٹان، نیپال ، سری لنکا اور مالدیپ کے ساتھ بھی ہیں۔ چین کے ساتھ ہونے والی حالیہ سرحدی جھڑپیںا س کا سب سے تازہ اور بڑا ثبوت ہیں ‘ بھارت نے اپنے جنگی عزائم کا دائرہ کار افغانستان تک پھیلا رکھا ہے‘ جہاں وہ امریکی فوج کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنے پائوں جماچکا ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے مغربی بارڈر پر حالات خراب کرنا اور شدت پسندوں کو ٹریننگ اور پیسہ دے کر پاکستان میں داخل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو پہلی اور دوسری عالمی جنگ‘ دو ایسے سانحات ہیں جوامن کے ماتھے پر سب سے بد نما دھبے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو سرد جنگ کے نام پر تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ جس میں روس اور امریکہ کے درمیان دو نظریات کے نام پر ایسی جنگ کا آغاز ہوا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے
لیا۔اس جنگ میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے۔ سرد جنگ میں دنیا کے تمام براعظم شامل تھے اورہر بڑا ملک واضح طو ر پر امریکی یا روسی بلاک کا حصہ تھا۔ یہ جنگ 1945سے 1990تک لڑی گئی اور افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اور بعد ازاں اس کی تحلیل پر ختم ہوئی۔ سوویت یونین کی شکست کے فوری بعد امریکہ نے مسلم دنیا پر جنگی نظرجمالی اور مسلم دنیا کے ڈکٹٹیرز، فرقہ واریت اور معاشی بدحالی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہیں جنگیں کروائیں،کہیں خودحملہ کر دیا اور کہیں سول وار جیسی صورتحال پیدا کردی۔9/11 جیسا واقعہ اس انداز سے کروایا گیا کہ پوری مسلم دنیا زیر عتاب آگئی۔ جسے War on Terrorکانام دیا گیا ‘ اس جنگ سے متاثر ہونے والے اکثریتی ممالک کا تعلق ایشیاء سے ہے اور بیشتر مسلم ممالک ہیں۔ وہ مجاہدین جنہیں امریکہ نے خود تیار کیا اور افغانستان کی لڑائی میں استعمال کیا۔ راتوں رات دہشت گردقرار دے دئیے گئے‘ جسے جواز بنا کر اسلامی شدت پسندی کا الزام گھڑا گیا اور ہر ممکن طریقے سے مسلم امہ کو تہہ تیغ کیا گیا ۔ یہاں تک کہ اگر کسی ملک میں مسلمان ا کثریت میں یا حکومت میں بھی نہیں تھے وہاں بھی ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ میارنمار (برما) کے مسلمانوں پر ظلم کی حالیہ لہر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قارئین Relation International میں ایک فقرہ عقیدے کی مانند پڑھایا جاتا ہے ۔ یہ فقرہ کچھ یوں ہے کہ '' امن دو جنگوں کے درمیان اس وقفے کا نام ہے جس میں اگلی جنگ کی تیاری کی جاتی ہے۔‘‘
آپ دنیا میں امن یا جنگ کی تاریخ کا مطالعہ کریںتو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گااور آپ بھی اس جنگی عقیدے پر یقین کرنے لگیں گے کہ ـ ــ ـ امن اگلی جنگ کی تیاری کے دور انیے کا نام ہے ۔
شروع میں ذکر ہوا تھا بھارت کے جنگی جنون کا اور بعد میں سووت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ کا ‘ قارئین جب سے سوویت یونین تحلیل ہوئی ہے امریکہ مغربی دنیا کی حمایت کے ساتھ پوری دنیا میں من مانیاں کر رہاہے ۔جب تک سوویت یونین موجود تھی تودنیا کے کم و بیش تمام ممالک کے سامنے یہ Optionموجود تھاکہ وہ سوویت یونین یا امریکہ میں سے کسی ایک بلاک کا حصہ بن کر اپنے لئے عارضی امن حاصل کرلیتا تھا مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد دنیا کے ممالک کے پاس یہ Optionختم ہوگیا لیکن اب چین کے سپر پاور کے طور پر امریکہ کے مقابل آنے سے یہ Optionواپس آ چکا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کی ترقی اور سپر پاور بننے کی وجہ سے ایشیاء کے ممالک کو امن اور ترقی دونوں کا Optionمیسر آرہا ہے۔ آپ پاکستان کی ہی مثا ل لے لیںکہ چین ہر سطح پر پاکستان کی حمایت اور مدد کرتا ہے۔ اس طرح کے مختلف منصوبوں کی مدد سے پاکستان کو معاشی طور پر تقویت فراہم کررہا ہے ‘ پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مالدیپ ، بنگلہ دیش سنٹرل ایشیاء وہ ممالک ہیں جن میں چین سرمایہ کاری کے ذریعے ایک انجن کے طور پر قیادت کررہا ہے ۔
بھارت وہ ناسور ہے جو آبادی اور رقبے کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے برِاعظم ایشیاء کی ترقی اور استحکام کو دیمک نہیں کینسر کی طرح چاٹنے پر تلا ہوا ہے ۔ اگر چین کی سربراہی میں ایشیائی ممالک ایک بلاک بنالیں تو پوری دنیا میں طاقت کا توازن قائم ہوجائے گا ,جو قیام امن کیلئے ضروری ہوتاہے ،مگر بھارتی ہٹ دھرمی ہر ممکن طریقے سے بین الاقوامی امن کی Equation کو متوازن نہیں ہونے دے رہی۔