خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے لکھے گئے گزشتہ کالم میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا سب سے پہلا منشور اسلام نے دیا جس میں عورتوں کو نہ صرف مردوں کے برابر کا شہری تسلیم کیا گیا بلکہ اس کو بطورِ عقیدہ لازم قرار دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے زیادہ تر مسلم ممالک میں عورتیں آج بھی مکمل حقوق نہیں حاصل کر سکی ہیں۔ حسنِ اتفاق بلکہ حسین اتفاق یہ ہے کہ اسلام کی تکمیل کا دن یعنی خطبہ حجۃ الوداع 7 ویں صدی عیسوی 6 مارچ کو دیا گیا تھا جس میں خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کی خصوصی تلقین کی گئی تھی جبکہ جدید دنیا نے خواتین کا عالمی دن 8 مارچ کو 21ویں صدی سے منانا شروع کیا۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کو مغرب میں مکمل اختیارات دلانے میں کمیونزم یعنی روس کے سرخ انقلاب کا نمایاں کردار رہا ہے۔ حتیٰ کہ 8مارچ کو عورتوں کا عالمی دن منانے کا کریڈٹ بھی جرمنی کی فعال اور نمایاں ترین کمیونسٹ خاتون لیڈرClara Zetkin کو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے بادشاہی روس میں خواتین نے 8 مارچ 1917ء کو ''روٹی اور امن‘‘ کے مطالبے کے نام سے ایک ہڑتال کی اور جلوس بھی نکالا تھا لیکن چونکہ مغرب کو اسلام اور کمیونزم‘ دونوں سے عداوت ہے لہٰذا وہ اپنی تحریروں میں اپنی پسند کے حقائق بیان کرتے ہیں۔ ہماری اکثر تنظیمیں چونکہ سوویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ میں امریکا بالخصوص امریکی ڈالرز کے زیر اثر تھیں‘ اس لئے وہ ابھی تک کمیونزم مخالفت سے مکمل طور پر باہر نہیں آسکیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے وہ بھی سرخ انقلاب کے کردار کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتیں۔ سرد جنگ وہ دور تھا جب ''ایشیا سرخ ہے‘‘ یا ''ایشیا سبز ہے‘‘ کے سپانسرڈ نعرے لگا کرتے تھے۔
اس کے بعد تاریخ کا ایک انتہائی اہم موڑ چین کا عالمی طاقت کے طور پر ابھرنا ہے، چونکہ چین ایک کمیونسٹ ملک ہے اور تمام جماعتیں اب سبز ایشیا کے سحر اور مغربی ایجنڈے سے نہ صرف باہر آ چکی ہیں بلکہ چین کے اہم قومی دنوں پر چین کے سفارتخانے میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے سرخ رنگ کے کیک بھی کاٹتی ہیں۔ اس حوالے سے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب پنجاب یونیورسٹی‘ جو ''ایشیا سبز ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کا ہوم گرائونڈ سمجھی جاتی ہے‘ کے اندر چینی مفکر کنفیوشس کے نام پر ایک سنٹر پر سرخ رنگ کے پرچم لہرا رہے ہوتے ہیں۔ خوشگوار حیرت مزید آگے بڑھ کر پنجاب یونیورسٹی کے ''ناظم اعلیٰ‘‘ اور وائس چانسلر صاحب تک آتی ہے کہ وہ بھی چین کے تعاون سے چلنے والے سنٹر سے بھرپور تعاون کرتے نظر آتے ہیں۔ اس پر تعجب اس لئے ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے دورِ طالب علمی میں 'ایشیا سبز ہے‘ کے نعرے لگانے والی طلبہ تنظیم کے فعال رکن و لیڈر تھے۔
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے جماعت ا سلامی کے تحت چھ مارچ کو ''میرا خاندان‘ میرا سائبان‘‘ کے سلوگن کے تحت ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا مگر بعد میں ایک صاحب نے مجھے فون پہ بتایا کہ یہ محض اتفاق تھا کہ انہوں نے چھ مارچ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ بھی اس بات سے آشنا نہیں تھے کہ اس تاریخ کا تاریخی پس منظر کتنا اہم ہے۔ انہوں نے وعدہ نما اشارہ دیا کہ اگلے سال وہ عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے چھ مارچ کو Islamic Feminism کے حوالے سے عورت کی آزادی کے حقوق کا دن منائیں گے۔ انہوں نے ''روزنامہ دنیا‘‘ کے ساتھ مجھ پُرتقصیر کا بھی شکریہ ادا کیا۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ کمیونسٹ چین عورت کی آزادی کا تو قائل ہے مگر بے راہ روی کا نہیں اور اس بات کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ چین میں بھی شادی اور خاندانی نظام بہت مضبوط ہے۔
بات ہو رہی ہے نظریات کی جنگ کی تو ہمارے ہاں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح‘ عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے بھی مختلف ہی نہیں بلکہ مکمل متضاد مظاہرے ہوتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے اس حوالے سے نرم، دھیمے اور سخت گیر پیغامات کی صورت میں کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ کون سا مسلم ملک ایسا ہے جہاں خواتین کو حقوق میسر ہیں۔ اس بات کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا جاتا بلکہ ایک سخت خلاف ورزی کے طور پر اس تلخ حقیقت کا ذکر کیا گیا تھا جس پر ''لبرل‘‘ افراد نے بھی حیرانی کا اظہارکیا۔ دوسرا لوگوں کے لیے یہ حیران کن انکشاف تھا کہ پاکستان میں خواتین کی کل آبادی کا تناسب 49 فیصد ہے یعنی خواتین اقلیت میں ہیں جبکہ عمومی طور پر یہی بولا، لکھا اور دہرایا جاتا ہے کہ خواتین اکثریت یعنی ملکی آبادی کا51 فیصد ہیں۔ پہلے اسی سنگین غلطی کا ادراک (بشمول وجہ) کر لیتے ہیں۔ قدرت کے نظام کے تحت اگر بیٹی اور بیٹے میں فرق نہ کیا جائے تو کل آبادی میں خواتین کا تناسب 51 سے 52 فیصد تک ہی ہو گا جیسے دنیا کے بیشتر ممالک میں خواتین اکثریت میں ہیں، شاید اسی وجہ سے ہمارے ہاں بھی یہی تناسب رائج ہے کہ عورتیں51 فیصد ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں‘ سوائے بوسنیا کے‘ کسی بھی ملک میں عورتیں اکثریت میں نہیں ہیں۔ البتہ انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اور ایران میں یہ شرح 50 فیصد ہے، یعنی ان ملکوں میں مرد و خواتین کی تعداد برابر ہے۔
عمومی طور پر بیٹی کی پیدائش پر خوراک، دوائی اور احتیاط میں پوری توجہ نہیں دی جاتی اور یہ صورتِ حال پوری عمر جاری رہتی ہے۔ اسی طرح ان ممالک میں ابھی تک ایک ماں اوسطاً 4 سے 6 دفعہ زچگی کے مرحلے سے گزرتی ہے جس سے اس کی صحت خراب ہوتی جاتی ہے جبکہ اکثر نامناسب سہولتوں کی وجہ سے مائوں کی اموات بھی ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں سالانہ تقریباً 25 سے 30 ہزار خواتین دورانِ زچگی موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کے سب سے اہم امتحان CSS میں چند سال پہلے Gender Studies کا 100 نمبروں کا ایک اختیاری مضمون متعارف کروایا گیا۔ اس مضمون میں Feminismکی بہت ساری تھیوریز کا ذکر ہے مگر Islamic Feminism کا بالکل ذکر نہیں۔ اسی طرح اس مضمون میں پاکستان کے حوالے سے جن تین اہم خواتین کا ذکر کیا گیا ہے وہ ملالہ یوسفزئی، مختاراں مائی اور شرمین عبید چنائی ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خاں، محترمہ بینظیر بھٹو، بلقیس ایدھی، عاصمہ جہانگیر، ارفع کریم رندھاوا، پاکستان ایئر فورس کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ مریم مختیار، سمیت فن و ادب کے حوالے سے کتنی ہی قد آور شخصیات ہیں جن کا نام اس میں شامل ہو سکتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس مضمون میں LGBT کے عنوان کے تحت ہم جنس پرستی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
مشرق بالخصوس پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عورتوں کے حقوق کی بات اس انداز میں کی جاتی ہے گویا یہاں مردوں کو تمام حقوق حاصل ہو چکے ہیں۔ یقینا اس کا جواب نفی میں ہی ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات اہم ہونے کے ساتھ ساتھ تلخ بھی ہے کہ اگر عورت گھر میں کھانا پکاتی ہے اور مرد کما کر لاتا ہے تو فیصلہ آپ خود کر لیں کی چولہا جلانا مشکل ہے یا چولہے جلانے کیلئے کما کر لانا۔ اسی لئے لوگ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ مردوں کا عالمی دن یکم مئی یعنی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ ویسے بھی مارچ کے مقابلے میں مئی بہت زیادہ گرمی اور تپش کا مہینہ ہے اسی لئے شاید اس کا رنگ بینگنی کے مقابلے میں سرخ ہے۔ یہ سرخی سورج کی گرمی اور آگ کی تپش کے بغیر پیدا نہیں ہوتی اور یہ تپش یقینا چولہا جلنے کی حرارت سے ز یادہ ہوتی ہے۔