شیر شاہ سے قاسم سوری تک!

صوبہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 44 فیصد ہے جبکہ آبادی کے اعتبار سے محض پانچ فیصد ہے‘ یعنی اس کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ اتنی آبادی ایک میگا پولیٹن شہر کی ہوتی ہے۔لاہور کی آبادی 11.13ملین ہے جبکہ بلوچستان کی کل آبادی 12.34 ملین ہے اس طرح آپ بہتر طور پر اس صوبے کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی آبادی لاہور سے کچھ زیادہ اور کراچی سے کم ہے۔ اس صوبے میں ترقی اور دستیاب سہولتوں کی صورتِ حال بدقسمتی سے اچھی نہیں ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ بارش کا انتہائی کم ہوناہے جس کی وجہ سے روایتی شعبۂ زراعت کا اس علاقے میں زیادہ پیمانے پر نہ ہو سکنا ہے۔ اگر موسمی حالات موافق اور زمین قابلِ کاشت ہوتو دنیا کے کسی بھی علاقے میں زراعت کا شعبہ کسی ٹیکنالوجی اور کثیر سرمائے کے بغیر بھی اپنایا جا سکتا ہے مگر یہ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس میں بارش گرمیوں کے مقابلے میں سردیوں میں ہوتی ہے اور سردیوں کی بارش زراعت کیلئے زیادہ سازگار نہیں ہوتی۔بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ وہاں قدامت پسندی کے نام پر تعلیم کی شرح کا انتہائی کم ہونا بھی ہے۔ بہت سے علاقوں میں سخت گیر قسم کا قبائلی کلچر رائج ہے اور سب سے بڑھ کر سیاست پر چند بڑے خاندانوں کا قبضہ ہے۔ اسی طرح صوبے کے لوگوں میں بجا طور پر ایک ناراضی کا رجحان پایا جاتا ہے۔
کئی برس پرانی بات ہے کہ ایک علمی گفتگو‘ جو بنیادی طور پرایک سلیکشن بورڈ تھا‘میں راقم سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ اس صوبے کی بہتری کیلئے کیا کیاجاسکتا ہے؟ دیگر نکات کے ساتھ میرے ایک جواب کو بہت سراہا گیا جو کچھ اس طرح تھا کہ وفاق کی نوکریوں بالخصوص سی ایس ایس کے امتحان میں جو اس علاقے کا مخصوص کوٹہ ہے‘ وہ صرف ان امیدواروں کو دیا جائے جن کا نہ صرف تعلق اس صوبے سے ہو بلکہ انہوں نے تعلیم بھی اسی صوبے کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی ہو۔معاملہ یہ ہے کہ اگر کسی امیدوار کا تعلق تو صوبے سے ہو مگر اس نے تعلیم کسی بڑے شہر یا بیرونِ ملک سے حاصل کی ہو تو صوبے کے ان امیدواروں کا حق مارا جائے گا جنہوں نے تعلیم صوبے سے ہی حاصل کی ہوگی، اور لازم بات ہے کہ اس علاقے کا جو بندہ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرتا ہے وہ کسے بڑے‘ کسی امیر‘ کسی قبائلی سردار کی اولادہوگا، اسی لئے اس پوائنٹ کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
اس علاقے کی پسماندگی نے اس کا پیچھا سیاست میں بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اول تو سیاست میں علاقائیت کی جھلک نمایاں ہے اور اگر قومی دھارے کی کوئی جماعت کچھ نشستیں لیتی ہے تو اس پر بھی بھاری بھرکم چند امیدوار ہی حاکمانہ طور پر براجمان نظر آتے ہیں، بہت کم بلکہ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مڈل کلاس کا بندہ سیاست کے اس گھپ اندھیرے میں جگنو بن کر چمک سکے۔ اس صوبے سے تعلق رکھنے والا ایک جگنو نما کردارجناب قاسم سور ی کا ہے جو قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر فائز ہیں مگر ایک متوسط گھرانے سے تعلق ان کا جرم بن چکا ہے کیونکہ ان کے خلاف دوسری دفعہ تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی جاری ہے۔
قاسم خان سوری اب پاکستان کی سیاست کا ایک انتہائی دلچسپ کیس بنتا جا رہا ہے‘ آپ اس کو کیس سٹڈی کی مثال بھی کہہ سکتے ہیں۔اس کیس کی دلچسپی جاننے کے لیے آپ کو اس کا پس منظر جاننا ہو گا۔ قاسم سوری 1996ء سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور کوئٹہ شہرسے ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے دو سیاسی برجوں محمود خان اچکزئی اور نواب لشکری رئیسانی کو شکست دی تھی۔ بظاہر ان کے ڈپٹی سپیکر منتخب ہونے کو سیاسی حلقوں نے کافی سراہا تھا مگر لشکری رئیسانی صاحب کو پیپلز پارٹی نے قانونی چارہ جوئی کرنے کاصلاح نما حکم دیا اورالیکشن ٹریبونل نے قاسم سوری کے خلاف فیصلہ دیا (اندرونی کہانی آپ خود سمجھ جائیں) مگر اس فیصلے کی ایک عجیب منطق نے اسے نہ صرف انتہائی مشکوک بنا دیا بلکہ یہ فیصلہ خود اپنے خلاف ایک ثبوت بن گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ الیکشن ٹریبونل نے جتنے ووٹ کالعدم قرار دیے تھے اتنے ووٹ تو اس حلقے میں ٹوٹل بھی کاسٹ نہیں ہوئے تھے، اس لئے لامحالہ یہ شخص سپریم کورٹ میں پہلی تاریخ پر ہی اپنے صوبے کی سیاسی تاریخ میں نیا باب رقم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن بلوچستان کا ایک عام شخص‘ جس نے تعلیم بھی امریکا اور یورپ کے بجائے گورنمٹ سکول، گورنمنٹ کالج اور گورنمنٹ یونیورسٹی (جامعہ بلوچستان) سے حاصل کی‘ کیسے پرانے سیاسی خاندانوں کو بھا سکتا تھا لہٰذا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اس کے خلاف دوسری دفعہ تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے۔
واپس آتے ہیں اس کیس کی دلچسپی کی طرف‘ اس کا اگلا پہلو کچھ یوں ہے کہ یہ شخص صرف سپیکر کی عد م موجودگی میں(کبھی کبھار)ہی اجلاس کی کارروائی کا نگران ہوتا ہے۔ ویسے تو سپیکر کے اختیارات بھی‘ معذرت کے ساتھ‘ کچھ زیادہ نہیں ہوتے اور اس کا اندازہ قومی اسمبلی کی بجٹ سیشن کی کارروائی سے ہوگیا ہوگاجس میں سپیکر صاحب انتہائی بے بسی اور احتیاط سے صرف ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ یہ بے بسی اور احتیاط اس لئے تھی کہ کچھ لوگ اس دھینگا مشتی کو بھی جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ایوان مچھلی منڈی بن گیا تھا لیکن غور کیا جائے تو مچھلی جیسی مخلوق کا نام یہ تقاضا کرتا ہے کہ اسے کسی اور منڈی سے تشبیہ دی جائے۔
پاکستان کی سیاست کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس شعبے میں ترقی بہت کم ہوئی ہے۔ اگر آپ کو سیاست کے ساتھ ترقی کا استعمال عجیب معلوم ہوتا ہے تو ذہن نشیں رکھیں کہ کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی میں ایک نمایاں پہلو یا شعبہ پولیٹکل ڈویلپمنٹ کا ہے۔ گویا اس ترقی کا بنیادی نکتہ جمہوریت ہی ہے لیکن جمہوریت کی آڑ میں بعض اوقات کوئی خاص شخصیت یا مخصوص خاندان بھی قابض ہو جاتے ہیں، اس طرزِ حکومت کو جمہوری آمریت(Democratic Dictatorship)کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کا شکار پاکستان جیسے بہت سارے ممالک نظر آتے ہیں۔بھارت میں گاندھی خاندان کے صرف تین افراد 37 سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں۔ جواہرلعل نہرو انتقال کر جانے‘ جبکہ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی قتل ہونے پر اقتدار سے علیحدہ ہوئے تھے جبکہ اس خاندان کی اگلی نسلیں‘اندراگاندھی کی بہو سونیا گاندھی اور پوتا راہول گاندھی آج بھی بھارتی سیاست کی ''مقدس ہستیوں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جو چیز سب سے زیادہ اصل جمہوریت کے آڑے آتی ہے وہ خود جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری خاندانوں کا راج ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اگر کوئی مسیحا بھی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے راستے میں آنا چاہے تو ذہن میں رکھے کہ وہ ''تاحیات بے حیات‘‘ یعنی کم درجے کی حیثیت سے ہی رہے گا۔ المختصر وہ کبھی ملکی قیادت تو درکنار پارٹی کی قیادت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
واپس آتے ہیں قاسم سوری کی طرف‘ اب آپ کو اندازہ ہو چلا ہوگا کہ یہ شخص کتنی زیادہ وجوہ کی بنیاد پر اس سسٹم کی ''جمہوریت‘‘ میں فٹ نہیں آرہا۔بظاہر نظر آتا ہے کہ وزیراعظم صاحب قاسم سوری کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور زمینی حقائق بھی یہی بتا تے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کسی بھی قسم کا اعتماد حاصل نہیں کر پائے گی یعنی ناکام ہو جائے گی‘ لیکن پاکستانی سیاست میں کوئی بھی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔
اختتامی بلکہ تکمیلی کلمات سے پہلے ایک اہم بات یہ ہے کہ وفاق کے تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کے مقابلے میں سندھ حکومت نے بیس فیصد اضافہ کرکے ایک جمہوری اور سیاسی فتح حاصل کی ہے۔ جمہوریت اور جمہور کی حکمرانی کی دعویدار پیپلز پارٹی کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس دفعہ نہ سہی‘ ایک اور کوشش اور مزید انتظامات کر کے اگر قاسم سوری کو ہٹا بھی لیا تو یہ خود ساختہ سیاسی فتح درحقیقت اس کی شکست ہو گی۔ اس خطے کی سیاست میں سوری قبیلے کے شیرشاہ سوری کے بعد قاسم خان سور ی کا نام نمایاں ہو چکا ہے کیونکہ قاسم خان سور ی فرسودہ نظام اور روایتی سیاست کو چت کر کے بہر طور فاتح بن چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں