بدھ 4 اگست کو ایک اخبار میں ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ اولمپکس ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ کوئی میڈل بازار سے ہی خرید لے۔ اس سے پہلے اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ سے متعلق سوشل میڈیا پر متعدد پوسٹس دیکھنے کو ملیں جن میں بتایا گیا تھا کہ ان کے تقریباً 17 سالہ دورِ سربراہی میں پاکستان ایک میڈل بھی نہیں جیت سکا۔ اولمپکس کا نام آتے ہی ذہن میں قومی کھیل ہاکی کا نام آتا ہے‘ جس میں آخری بار پاکستان نے 1984ء میں امریکا کے شہر لاس اینجلس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا، مگر اس بار تو پاکستان ہاکی کے ایونٹ میں اولمپکس کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکا تھا۔ ویٹ لفٹنگ کے میدان میں ایک نوجوان طلحہ نے خوب محنت کی اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنے محلے کے سکول میں ٹریننگ کرتے ہوئے‘ اولمپکس کے میدان میں جوہر دکھائے۔ وہ میڈل تو نہ جیت سکا مگر لوگوں کے دل ضرور جیت لیے‘ حتیٰ کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے جانب بھی اس کی حوصلہ افزائی کے بیانات سامنے آئے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ بورڈ اربوں روپے کے بجٹ میں سے اس کھلاڑی کے لیے خطیر رقم کا اعلان کر دیتا بلکہ زیادہ اچھا یہ ہوتا اگر معقول ماہانہ مشاہرہ اس کے لیے مقرر کر دیا جاتا تاکہ یہ کھلاڑی اپنی توجہ پریکٹس پر مرکوز کرے اور آئندہ اولمپکس میں کوئی میڈل جیت لائے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر کتنے ہی کھلاڑیوں کی وڈیوز گردش کر رہی ہیں جنہوں نے بیسویں سے پچیسویں پوزیشن سے اپنے مقابلوں کا آغاز کیا تھا مگر اپنی محنت اور کارکردگی بہتر کرتے ہوئے بعد میں کانسی، چاندی اور سونے کے میڈل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ ہمارے اس ویٹ لفٹر کی پوزیشن تو ابھی سے پانچویں ہے‘ اگر تھوڑی توجہ دی جائے تو یقینا آئندہ اولمپکس میں وہ گولڈ میڈل حاصل کر سکتا ہے۔
اولمپکس دنیا کے سب سے قدیم کھیلوں کے مقابلے ہیں‘ جن کا آغاز قدیم یونان سے ہوا تھا۔ یہ مقابلے دنیائے کھیل کا سب سے بڑا ایونٹ سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں وہ ممالک بھی شریک ہوتے ہیں جو علیحدہ سے اقوام متحدہ کا حصہ نہیں ہوتے یا جو ایک مکمل علیحدہ اور آزاد ملک بھی نہیں ہیں جیسے کریبین ریاستیں؛Trindad & Tobago اور Saint Kitts۔ یہ دونوں ویسٹ انڈیز کا حصہ ہیں مگر اولمپکس میں علیحدہ طور شریک ہو رہی ہیں، اسی باعث ان کھیلوں میں شریک ممالک یا دستوں کی تعداد 206 ہے۔ اسی وجہ سے ان کھیلوں میں نمبر ون آنے والے ملک کو دنیا کا اصل فاتح اور نمبر ون مانا جاتا ہے۔ ان مقابلوں میں صرف حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے نام کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اولمپین کا اضافہ ہو جاتا ہے‘ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میڈل جیتنے والے کا مقام اور درجہ کیا ہو گا۔ پاکستان 1948ء سے‘ ہر چار سال کے بعد ہونے والے‘ ان مقابلوں میں شریک ہوتا آ رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے 1956ء میں ہونے والے مقابلوں میں ہاکی کی ٹیم نے پہلا سلور میڈل جیتا تھا، اس کے بعد 1960ء میں ہونے والے اولمپکس میں ہاکی ٹیم نے گولڈ میڈل اور ایک ریسلر محمد بشیر نے سلور میڈل جیتا تھا اور ان دو میڈلوں کی بدولت پاکستان کا میڈل فہرست میں نمبر بیسواں تھا‘ جو یقینا ایک اعزاز تھا۔ اس کے بعد بھی ہاکی ٹیم میڈلز کی دوڑ میں شامل رہی۔ 1988ء میں لیاری کے حسین شاہ نے باکسنگ میں پاکستان کو کانسی کا تمغہ جتوایا تھا اور آخری بار 1992ء میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ کل ملا کر اب تک پاکستان دس میڈلز جیت چکا ہے، جس میں تین گولڈ، تین سلور اور چار کانسی کے میڈلز ہیں۔ لیکن اب ان شاء اللہ ایک اور میڈل پاکستان کی میڈلز فہرست میں شامل ہونے کو ہے اور یہ میڈل ایتھلیٹکس کے میدان میں ہو گا اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ پہلا میڈل ہو گا۔ اس ایونٹ کو Javelin Throw کہتے ہیں۔ اردو میں اسے نیزہ بازی نہیں بلکہ ''نیزہ پھینکنا‘‘ کہا جانا چاہیے۔
اس میڈل کا حق دار ایک نوجوان ارشد ندیم ہے جس نے ابتدائی رائونڈ میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے 4 اگست کو فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اس کھلاڑی کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت روشن امید ہے کہ وہ پہلی تین پوزیشنز میں سے ایک ضرور حاصل کر لے گا۔ ویسے اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو اس کا مقابلہ دوسری پوزیشن کے لیے ہے اور یہ مقابلہ زیادہ دلچسپ اس لیے بھی ہے کہ اس کا قریب ترین مدمقابل ایک بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا ہے‘ جو بھارتی فوج کا صوبیدار اور کامن ویلتھ گیمز کا وِنر ہے۔ پاکستانی سپوت کو کوالیفائی رائونڈ سے 4 میٹر بہتر تھرو کرنا ہو گی جبکہ دو میٹر کا مارجن پہلے ہی موجود ہے کیونکہ اس نے ابتدائی مرحلے میں جو تھرو پھینکی‘ وہ لکیر سے تقریباً دو میٹر پہلے پھینک دی تھی اور اس کے باوجود اس کا فاصلہ 85.15 میٹر تھا جو اگلے مرحلے میں جانے کے لیے کافی تھا۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کوئی دوڑ ہو یا تھرو کرنا‘ اس میں کسی بڑے اَپ سیٹ کا امکان اس لیے نہیں ہوتا کہ کھلاڑی کی گزشتہ کارکردگی میں دس سے پندرہ فیصد بہتری یا تنزلی کا ہی چانس ہوتا ہے‘ زیادہ کا نہیں۔ بات ہو رہی تھی کہ مقابلہ بھارتی اور پاکستان کھلاڑی میں ہے‘ ان میں سے جو بہتر کارکردگی دکھا گیا‘ وہ سلور میڈل کا حقدار ہو گا جبکہ دیگر کھلاڑیوں کے پہلے تین میں آنے کا امکان بہت کم ہے۔ پہلے نمبر کا فیورٹ کھلاڑی جرمن پلیئر ہے۔ یہ بات شاید بہت عجیب لگے کہ بھارتی کھلاڑی کی اپنے وزیراعظم کے ساتھ 13 جولائی کو آن لائن گفتگو ہوئی تھی جس میں اس کا خاندان بھی شریک تھا۔ یہ بات عجیب اس لیے ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم خود ایک کھلاڑی ہیں اور یہ کھیلوں کا ایسا ایونٹ ہے کہ اس کی تفصیل انہیں سمجھانے کی ضرورت نہیں مگر تاحال کوئی ایسی خبر میرے علم میں نہیں آئی جس میں پاکستانی وزیراعظم نے کوئی بیان اس پاکستانی کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کے لیے جاری کیا ہو۔ حالانکہ ان کو بحیثیت کھلاڑی پورا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان کے میڈل جیتنے کے امکانات بہت واضح ہیں‘ وہ بھی 29 سال بعد۔ کم از کم وزیراعظم صاحب کو ویٹ لفٹر طلحہ اور اس ایتھلیٹ ارشد ندیم کے لیے تو لازمی کوئی ایسا اعلان کرنا چاہیے کہ وہ تلاشِ معاش سے بے نیاز ہو کر اولمپک مقابلوں کے لیے خود کو تیار کر سکیں۔
اب اولمپکس مقابلوں میں سیاست بھی نمایاں ہوتی جاتی ہے بلکہ یوں سمجھیں کہ بڑے ملکوں کے سربراہان ان مقابلوں کو ایک سفارتی جنگ کے طور پر لیتے ہیں اور انہیں زندگی اور موت کا مقابلہ سمجھتے ہیں۔ روس ہی کو لے لیں‘ جس کے دستے کو اپنے ملک کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں بلکہ اس کا دستہ ROC (رشین اولمپکس کمیٹی) کے نام سے شریک ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ روس کے کھلاڑی ما ضی میں قوت بخش ادویات استعمال کر کے میڈل جیتتے رہے جس سے بدنامی اس ملک کے حصے میں آئی۔ چونکہ ان مقابلوں کو پوری دنیا میں دیکھا جاتا ہے اور میڈلز کی فہرست میں اوپر نیچے ہونے کو ایک عالمی جنگ کے مانند سمجھا جاتا ہے‘ اسی لیے اگر کوئی ملک ایک کانسی کا تمغہ بھی جیت جائے تو اس کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتا ہے۔ تاحال تقریباً 80 ممالک میڈیلز جیتنے میں کامیاب ہو پائے ہیں یوں میڈل ٹیبل تک شریک ممالک کی نصف تعداد بھی نہیں پہنچ پائی۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں‘ چین اور امریکا کے مابین پہلی پوزیشن کا مقابلہ جاری ہے اور چین نمایاں طور پر اپنے حریف پر سبقت لے کر پہلے نمبر پر براجمان ہے۔
اب بات 7 اگست کی ہو جائے‘ یہی وہ دن ہے جب نیزہ پھینکنے کا فائنل کھیلا جائے گا۔ یہ مقابلہ پاکستان کے وقت کے مطابق صبح پانچ بجے ہو گا۔ اس کو ضرور دیکھیں اور اپنے ملکی ٹیلی وژن پر دیکھیں تاکہ عالمی سطح پر پتا چل سکے کہ پاکستان کے لوگ صرف کرکٹ ہی نہیں دیگر کھیلوں میں بھی دلچسپی اور برتری رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ارشد ندیم کا شکریہ‘ جس نے اپنے وسائل اور محنت سے وہ مقام پیدا کیا جو ایک جگنو اندھیروں کی مخالفت میں کرتا ہے۔ ارشد ندیم جگنو اس لیے ہے کہ وہ ایک اوسط گھرانے کا اپنے وسائل اور محنت سے آگے آنے والا سپوت ہے جو پاکستانیوں کے لیے ٹھنڈی، تازہ اور حوصلہ بڑھانے والی ہوا کا محض ایک جھونکا نہیں‘ ایک لہر ثابت ہوا ہے۔