1980ء میں ہاکی کی عالمی ٹرافی کا دوسرا مقابلہ پاکستان میں ہو رہا تھا‘ دنیا کی ٹاپ کی کل سات ٹیمیں اس میں شریک تھیں۔ مقابلے لیگ کی طرز پر ہو رہے تھے‘ ہر ٹیم نے دیگر تمام ٹیموں کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا اور پوائنٹس کی بنیاد پر فاتح کا تعین ہونا تھا۔ صورتِ حال کچھ اس طرح بنی کہ اپنے پانچ میچ کھیل کر ہی پاکستان فاتح ہو گیا تھا اور اس کا آخری میچ محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ گیا، بالکل اسی طرح جیسے اب ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں اپنے پہلے تین میچز‘ جو کہ سخت ترین تھے‘ جیت کر پاکستان سیمی فائنل تک رسائی تقریباً حاصل کر چکا ہے اور یہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے لیے پہلا موقع ہے کہ وہ واضح طور پر اپنے گروپ کی ٹاپ ٹیم بن چکا ہے۔ پاکستان کے سیمی فائنل رائونڈز میں پہنچنے کی باتیں اتنے وثوق سے اس لئے کہی جا رہی ہیں کہ اب پاکستانی ٹیم کو بقیہ دو لیگ میچز انتہائی کمزور ٹیموں‘ سکاٹ لینڈ اور نمیبیا‘ کے ساتھ کھیلنا ہیں۔ سکاٹ لینڈ ٹیم اب تک کوئی میچ نہیں جیت سکی جبکہ نمیبیا صرف سکاٹ لینڈ کو ہی شکست دے سکی ہے۔ پاکستان نے اپنا پچھلا میچ‘ جو افغانستان کے ساتھ تھا‘ سیکنڈ لاسٹ اوور میں چار چھکوں کی مدد سے جیتا اور اس کے ساتھ ہی دنیائے کرکٹ کے چھکے بھی چھڑا دیے۔ جیسے جیسے اب پاکستانی ٹیم آگے بڑھ رہی ہے‘ عوام سخت معاشی حالات سے بیگانہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن بھی اس ورلڈ کپ سے خوف کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ اسے خدشہ لاحق ہے کہ اگر پاکستان ورلڈکپ جیت گیا تو وزیراعظم اور حکمران جماعت کی ساکھ بہت حد تک بحال ہو جائے گی۔ پاک افغان میچ تھا تو کانٹے دار‘ لیکن زیادہ تر لوگ اس کو ایک دلچسپ میچ کے طور پر لے رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس میچ کو ''نیوٹرل تماشائی‘‘ کے طور پر دیکھ رہے تھے کیونکہ اگر افغانستان جیت بھی جاتا تو پاکستان کے سیمی فائنل تک کے سفر کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنا تھا۔ اب پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کنفرم ہو گئی ہے تو یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اب پاکستانی پاکستان سے زیادہ بھارت اور افغانستان کے میچز دلچسپی سے دیکھیں گے۔ افغانستان کے جو دو میچز نیوزی لینڈ اور بھارت کے ساتھ ہیں‘ ان کا شائقین بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں جبکہ سب کی نظریں آج (اتوار) کو کھیلے جانے والے بھارت‘ نیوزی لینڈ میچ پر بھی ٹکی ہوئی ہیں‘ اس میچ کی فاتح ٹیم ہی امکانی حد تک پاکستان کے گروپ سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی دوسری ٹیم بنے گی لیکن میرا کھیلوں کا تجربہ مجھے یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ افغانستان کی ٹیم بھارت یا نیوزی لینڈ میں سے ایک ٹیم کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو افغانستان بھی سیمی فائنل کی دوڑ میں شریک ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ افغانستان نے سکاٹ لینڈ کی ٹیم کو ایک سو تیس رنز کی بڑی شکست سے دوچار کیا تھا۔ افغانستان کے 190 رنز کے مقابلے میں سکاٹ لینڈ ٹیم محض 60 رنز ہی بنا پائی تھی۔ ایک اور بات جو بہت اہم ہے‘ یہ کہ ابھی تک افغانستان ٹیم کا نیٹ رن ریٹ تین ہے اور اسی وجہ سے یہ ٹیم تاحال اپنے گروپ میں‘ پاکستان کے بعد‘ دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ ٹیم دیگر ٹیموں کے مقابلے میں بہت تیزی سے اول درجے کی ٹیم بن کر ابھری ہے۔ ایک اور اہم بات جو شاید بہت سے افراد کو معلوم نہ ہو کہ ورلڈ کپ کے مقابلوں کے لیے بنگلہ دیش اور سری لنکا کی ٹیموں کو کوالیفائنگ مقابلے کھیلنا پڑے لیکن دوسری بڑی ٹیموں کی طرح افغانستان کی ٹیم نے بغیر کوالیفائنگ رائونڈ کے ورلڈ کپ مقابلوں میں شرکت کی۔ لہٰذا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زمبابوے‘ کینیا‘ بنگلہ دیش اور آئر لینڈ کے مقابلے میں اس ٹیم کا کھیل کافی بہتر ہے۔ افغان کرکٹ ٹیم کے پاس اس وقت نہایت مضبوط سپن اٹیک موجود ہے۔ افغان کھلاڑی راشد خان اور محمد نبی عالمی درجے کے آل رائونڈرز میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر تھوڑا باریکی سے غور کیا جائے تو افغانستان کی موجودہ ٹیم میں نویں نمبر تک بیٹنگ لائن موجود ہے جو ایک مضبوط ٹیم کی علامت ہے۔ اسی طرح اس ٹیم میں ایک اچھی اوپننگ جوڑی بھی موجود ہے۔
کھیل عالمی سفارتکاری میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ صدر ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے ہی بھارت کو ممکنہ جنگ سے باز رکھا تھا۔ آج کل افغانستان کے کرکٹ میچز کے دوران اس ملک کا نام مثبت طور پر لیا جانا‘ شاید گزشتہ بیس سالوں میں پہلا بڑا موقع ہے۔ جب اس ٹیم نے پریکٹس میچ میں موجودہ چیمپئن ویسٹ انڈیز کو شکست دی تو افغانستان کا کافی مثبت امیج ابھرا۔ اسی طرح اپنے پہلے میچ میں 130 رنز سے بڑی جیت نے بھی افغانستان کو ایک بڑی کرکٹ ٹیم کا تاثر دینے میں مدد دی۔ گزشتہ روز بھی افغان کرکٹ ٹیم نے نمیبیا کو یکطرفہ مقابلے کے بعد جس طرح 62 رنز سے شکست دی‘ اُس سے اس ٹیم کے ایک بڑی کرکٹ ٹیم ہونے کا تاثر مزید پختہ ہوتا ہے۔ افغان کھلاڑی اپنے ملک پر ہونے والے ظلم اور تشدد سے کتنے دکھی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ25 اکتوبر کی شام شارجہ سٹیڈیم میں سکاٹ لینڈ اور افغانستان کے مابین کھیلے جانے والے میچ سے قبل جب افغانستان کا قومی ترانہ بجا تو افغان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد نبی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ترانہ گاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ واضح رہے کہ اس ورلڈ کپ میں افغان ترانہ اور جو سہ رنگی پرچم استعمال ہو رہے ہیں، وہ طالبان حکومت نے منسوخ کر دیے ہوئے ہیں؛ تاہم آئی سی سی کا موقف ہے کہ ہم افغانستان کا وہ تسلیم شدہ پرچم استعمال کر رہے ہیں جو ہمارے ممبر (افغانستان کرکٹ بورڈ) نے ہمیں کنفرم کیا ہے۔ اگر افغان سپورٹرز کی بات کی جائے توگرائونڈ میں آئے بیشتر افغان تماشائی اپنے قومی اور مقامی لباس میں نظر آتے ہیں اس سے بھی افغانستان کا ایک مثبت تاثر اجاگر ہوتا ہے، نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ زیادہ تر افغان اپنے ملک کے کشیدہ حالات کی وجہ سے بیرونی ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں‘ جن میں سے ایک متحدہ عرب امارات ہے۔
''دوستی کے رشتے کھیلوں کے ناتے‘‘ یہ ماٹو تھا سیف گیمز 1989ء کا‘ جس کے تحت پاکستان میں مقابلے ہوئے تھے۔ قدرے اچھے وقت کی بات ہے جب اولمپکس کی طرز پر جنوبی ایشیا کے ممالک کے کھیلوں کے مقابلے ہر دوسرے سال منعقد ہوا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ 1984ء سے1995 ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد ان کھیلوں کا انعقاد‘ بھارت کے رویے کی وجہ سے‘ باقاعدگی سے نہیں ہوا، کبھی چار اور کبھی چھ سال کے وقفے سے ان گیمز کا میلہ سجا۔ واضح رہے کہ آخری مقابلوں کا انعقاد 2019ء میں ہوا اور اب اگلا ایونٹ 2023ء میں ہو گا۔ اگرچہ یہ سائوتھ ایشیا فیڈریشن گیمز ہیں مگر بھوٹان اور مالدیپ تاحال ان کھیلوں کا اپنے ہاں انعقاد نہیں کروا سکے‘ ان دو ممالک کے علاوہ باقی تمام ممالک میں یہ مقابلے ہو چکے ہیں۔ پہلے سات ممالک؛ پاکستان‘ بھارت‘ نیپال‘ بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور مالدیپ ان میں شریک تھے لیکن پھر افغانستان کا شمار بھی جنوبی ایشیا میں کیا جانے لگا اس لیے 2004ء کی سیف گیمز سے‘ افغانستان کو ملا کر آٹھ ممالک ان مقابلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ البتہ 2019ء کے مقابلوں میں افغانستان شریک نہیں ہو سکا تھا۔ اب پاکستان کو ہر ممکن کوشش اور ضروری انتظامات کرنے چاہئیں کہ افغانستان دوبارہ ان مقابلوں میں شریک ہو۔ موجودہ افغان حکومت کو اگرچہ دنیا نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا مگر افغان ٹیم ٹی ٹونٹی کے عالمی کپ میں شریک ہے‘ اسی طرح یہ سیف گیمز کے علاقائی مقابلوں میں بھی شریک ہو کر دنیا کو مثبت پیغام دے سکتی ہے۔ 2016ء کے سیف گیمز میں افغان دستے نے بھارت‘ سری لنکا اور پاکستان کے بعد‘ سات طلائی تمغوں کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی ‘جبکہ 2004ء میں پہلی دفعہ شرکت کے موقع پر افغانستان صرف ایک طلائی تمغہ حاصل کر سکا تھا۔
اب ذکر ایک مطالبے کا جو مالدیپ کے لوگ کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ مالدیپ میں تعینات بھارتی فوج کے خلاف ہے۔ بظاہر بھارت کی آرمی مالدیپ کی مدد اور حفاظت کے نام سے وہاں موجود بلکہ مسلط ہے مگر اب دور چل پڑا ہے چین کا‘ اور مالدیپ کی ایک بندرگاہ لیز پر حاصل کرنے کے بعد اب مالدیپ میں بھی چین بولتا ہے۔ یہ بالکل وہی بات ہے جیسے نیپال نے چین کی اشیرباد سے‘ پچھلے سال بھارت کے زیر قبضہ تقریباً چار سو مربع کلومیٹر علاقے پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ بھارت نے 1989ء میں مالدیپ میں فوج کشی کر کے وہاں کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ مالدیپ 98 فیصد کی اکثریت کے ساتھ ایک مسلمان ملک ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کرکٹ میں سیاست کا ذکر کہاں سے آ گیا۔ وجہ یہ ہے کہ اپنی مہم کو جاندار اور مشہور کرنے کیلئے مالدیپ نے کرکٹ کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے‘ بھارتی فوج کے انخلا کیلئے جو دو لفظی نعرہ بلند کیا ہے وہ ہے؛ ''انڈیا آئوٹ‘‘۔