اندرونی و بیرونی سیاست کا شکار پاکستان

موجودہ دور میں سیاست انتہائی پیچیدہ، بے رحم اور مفادات پر مبنی کھیل بن کر رہ چکی ہے‘ ایسا تب ہوتا ہے جب کسی ملک کی سیاست میں مقامی محرکات کے ساتھ عالمی طاقتیں بھی شامل ہو جائیں۔ پاکستان اس حوالے سے ایک مکمل فٹ کیس ہے۔ سب سے پہلے مقامی قوتوں کی بات کی جائے۔ ہمارے ملک میں بہت ساری سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہیں، جن میں سے تین قومی سطح کی پارٹیاں ہیں جبکہ دیگر بہت ساری جماعتیں مقامی سطح پر بہت مضبوط ہیں۔ تھوڑا غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان پارٹیوں کے منشور اور نظریات میں اختلاف ہی نہیں بلکہ کچھ تصادم بھی پایا جاتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ کچھ پارٹیاں مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں، کچھ قومیت کے نام پر، کچھ لسانیت کے نام پر۔ لیکن تصادم کا پتا اس وقت چلتا ہے جب کچھ پارٹیوں کا منشور سیکولر ازم سے متاثرہ نظر آتا ہے۔ اگر پاکستان کی سیاست میں عالمی طاقتوں یا محرکات کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں پر امریکہ، روس، چین اور برطانیہ جیسے ممالک کی مضبوط لابیاں موجود ہیں۔ ان میں سے سب سے اوپر امریکہ ہے جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کے جانے کے بعد اس نے دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے ریڈار پر رکھا ہوا ہے۔ حالیہ ''رجیم چینج‘‘ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی جنگی طرز کی سازشوں کا منفی عمل دخل بھی پاکستان میں روزِ اول سے چلا آرہا ہے۔ اسی طرح بہت سارے علاقائی ممالک بھی یہاں اپنا ایک مخصوص قسم کا حلقۂ احباب رکھتے ہیں۔ پاکستان سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ملک نے دنیا کی سب سے زیادہ گرم و سرد جنگیں لڑی ہیں۔ سرد جنگوں کے حوالے سے افغانستان میں پہلے روس اور پھر امریکہ کی سرپرستی میں بھارت کے خلاف دفاعی جنگیں لڑی گئیں۔ آج کل امریکہ اور چین کی سرد جنگ کا ایک میدان پاکستان بھی بنا ہوا ہے۔ جیسے پہلے بات ہوئی‘ بھارت کی جارحانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سلسلہ بھی یہاں ہمیشہ سے جاری ہے۔ بھارت پاکستان کے علاوہ سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک کے خلاف بھی جارحانہ عزائم جاری رکھے ہوئے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ممالک بھارت سے بچائو کے لیے پاکستان ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ان ممالک کی سالمیت پاکستان کی سا لمیت سے وابستہ ہے۔ ان تمام ممالک کا قصور صرف یہ ہے کہ ہندو بنیا آج کے جدید دور میں بھی ''اکھنڈ بھارت‘‘ کا بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ پاکستان اپنے قیام سے آج تک‘ اپنے حجم اور طاقت سے زیادہ کردار نبھاتا آیا ہے۔
جب بات پاکستان کی اندرونی سیاست کی کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اپنے تمام ادوار کے مقابلے میں‘ اس وقت سب سے پیچیدہ کھیل جاری ہے۔ مغربی طاقتیں پاکستان کو چین سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں ڈالر کے کھیل سے پاکستانی معیشت کو ہر طرح کا نقصان پہچانے کی کو شش کی گئی۔ معیشت کے بازو مروڑنے کے لیے مغرب کے زیر اثر چلنے والے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے انتہائی سخت معاشی شرائط کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں تاریخ کی بلند ترین شرح سے اضافے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ عالمی ادارے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے پر بھی ناراضی کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت کو اپنے ہی اعلان کردہ اضافوں کو کم کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں بھی ناقابلِ فہم اضافہ ان کے کہنے ہی پر جاری ہے۔ یہاں تک کہ بجلی کا ایک یونٹ جتنے روپے کا لوگوں کو ملنا چاہیے یا مل سکتا ہے‘ اتنا اضافہ ہر ماہ ایک ہی جھٹکے میں کر دیا جاتا ہے۔ اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت روز مرہ استعمال کی اشیا سے لے کر دیگر سبھی چیزوں کی قیمتوں میں تاریخی اور تیز ترین اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ایک سیاسی نکتہ یہ ہے کہ پہلے معاشی مشکلات کا تمام وبال پی ٹی آئی کی حکومت پر تھا مگر حکومت بدلنے سے یہ تمام بوجھ موجودہ حکومت‘ بالخصوص نون لیگ پر آگرا ہے۔ بات صرف نون لیگ ہی کی نہیں رہی بلکہ اس جماعت کے اندر بھی اب تقسیم واضح ہو چکی ہے اور سارا بوجھ ''شین گروپ‘‘ پر آن گرا ہے۔ آپ کی نظر سے ایسے بیانات گزر رہے ہوں گے جس میں ''نون گروپ‘‘ بڑھتی ہوئی پٹرول کی قیمتوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا نظر آ رہا ہو گا۔ اگرچہ اس وقت ملک کے دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے مگر عوامی غیظ و غضب کا سارا بوجھ وفاقی حکومت بالخصوص وزیراعظم اور وزیر خزانہ ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس وقت سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ وفاق میں تیرہ جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے مگر سارا بوجھ نون لیگ کو اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ مزید قریب ہو کر دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کے دور میں ہونے والے تمام تلخ معاشی فیصلوں کا مدعا ''شین گروپ‘‘ پر ڈالا جارہا ہے اور ڈالا جاتا رہے گا۔ اس کا نتیجہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کا ایک گروپ سیاسی طور پر استعمال ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کا سیاسی مستقبل تاریک ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ اپنی رٹ قائم کرنے یا سابقہ برسراقتدار جماعت کو بیک فٹ پر بھیجنے کے لیے جو چند اقدامات کیے گئے‘ وہ بھی زیادہ قابلِ فہم یا مضبوط نظر نہیں آرہے۔ گرفتاریوں اور میڈیا پر پابندیوں جیسے جتنے اقدامات اب تک کیے گئے ہیں‘ ان کا سارا سیاسی فائدہ پی ٹی آئی ہی کو ہوتا نظر آ رہا ہے۔ عالمی تناظر میں بات کریں تو اس وقت ملک کی اندرونی سیاست میں بھی دو بڑوں‘ چین اور امریکہ‘ کے حق اور مخالفت میں دو گروپ بنتے نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے عمران خان صاحب نے امریکہ مخالف ایک بیانیہ تشکیل دیا جسے عوامی سطح پر خاصی پذیرائی ملی۔ سابقہ حکومت کے دور میں چند اقدامات سے واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت امریکہ کی مخالف سمت میں چل رہی ہے۔ دوسری طرف کپتان کرپشن کے حوالے سے چینی ماڈل اور چین کے طرزِ عمل کی تعریفوں میں پل باندھ رہے تھے۔ واضح رہے کہ چین کرپشن کو کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اور بھیانک دشمن تصور کرتا ہے۔ اس وقت امریکہ مخالف اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس کی مداخلت کے بیانات پر چینی حلقے یقینا خوش ہو رہے ہوں گے۔ اصل پالیسی کسی ایک گروپ میں شمولیت نہیں بلکہ اپنے مفادات کے پیشِ نظر بہتر چوائس کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان اپنی جغرافیائی لوکیشن اور علاقائی ممالک سے سیاسی و عسکری تعلقات و معاملات کی وجہ سے چین کے لیے ایک ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔
دنیا واضح طور پر اب دو نئے دھڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ معاشی مشکلات عالمی مسئلہ بن چکی ہیں۔ بالخصوص یوکرین مسئلے کے بعد یہ مشکلات مزید پیچیدہ ہو چکی ہیں۔ امریکہ تائیوان کے مسئلے پر چین کو کافی حد تک ناراض کر چکا ہے۔ ان حالات میں اگر چین نے کوئی نئی مہم جوئی شروع کر دی تو نہ صرف عالمی تنائو بڑھ سکتا ہے بلکہ معاملات تیسری عالمی جنگ کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کے لیے یہی قابلِ عمل آپشن نظر آتی ہے کہ معاشی شکنجہ مزید سخت طریقے سے دنیا پر کس دیا جائے تاکہ معاشی ریلیف کے نام پر دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنا حلیف بنایا جا سکے۔ پاکستان انہی حالات کا شکار ہے۔ بگڑتے عالمی حالات میں ایک بڑا سیاسی چیلنج جو موجودہ حکومت کو در پیش آچکا ہے وہ پنجاب میں اس کی حریف جماعت کی حکومت ہونا ہے۔ گمان کیا جا رہا ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت جلد ہی کچھ ایسے اقدامات کرے گی جن کی بدولت اس کی مقبولیت کا گراف بلندی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ اب ان حالات میں وفاقی حکومت کو بھی ایسے عوامی فیصلے کرنا ہوں گے جن سے عوام میں اس کی ساکھ بحال ہو سکے۔ اس کے لیے ڈالر کی قدر میں کم از کم اتنی کمی ناگزیر ہو چکی ہے‘ جہاں پر پی ٹی آئی حکومت نے اسے چھوڑا تھا۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کاروباری طبقہ نون لیگ کا حامی ہے مگر ڈالر کی اڑان نے اس طبقے کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ ان حالات میں کپتان کے بعد سارا فائدہ صرف ایک جماعت کو ہو رہا ہے اور وہ ہے پیپلز پارٹی۔ یہ بات کتنی درست ہے‘ اس کا اندازہ آپ خود لگائیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں