بانجھ ماحول اور ایکو سسٹم

آج کل موسمیاتی تبدیلیاں نہیں‘ تباہیاں ہو رہی ہیں بلکہ یوں کہنا پڑے گا کہ بہت زیادہ تباہیاں ہو چکی ہیں اور اب فیصلہ کن اور آخری تباہیوں کا وقت آن پہنچا ہے۔ 24ستمبر کا روزنامہ دنیا میرے سامنے ہے جس میں محترم آصف عفان کا کالم موجود ہے جس میں انہوں نے بھکاریوں کے کلب کا ذکر کرتے ہوئے انگریزی زبان کے ایک محاورے Beginning of the End کا ایک معنی خیز حوالہ دیا ہے۔ اس محاورے کا آج کل کے سب سے بڑے مسئلے‘ ماحولیاتی آلودگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ عالمی اداروں کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ90 فیصد سے زیادہ آبادی کسی نہ کسی شکل میں ہوا کی آلودگی کا شکار ہے۔ اسی طرح سالانہ ہوا کی آلودگی سے ہونے والی اموات کی تعدادتقریباً 45 سے 50 لاکھ سالانہ ہے۔ واضح رہے کہ عالمی وبا کورونا سے ہونے والی پوری دنیا میں کل اموات کی تعداد ابھی 65 لاکھ ہے جبکہ اس وبا کا دورانیہ تین سال سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اس حساب سے صرف ہوا کی آلودگی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد‘ کورونا سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ آلودہ پانی‘ جو نہ صرف ہم پیتے ہیں بلکہ فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں‘ سے ہونے والی بیماریاں اور ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔ اب یہاں لازم ہو جاتا ہے کہ اردو زبان میں ''کڑوے گھونٹ پینا‘‘ کے ساتھ ساتھ زہریلے گھونٹ پینے کا بھی محاورہ شامل کر لیا جائے۔
زمین کی یہ سچائی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ واحد ایسا سیارہ ہے جو آباد ہے‘ مطلب جس پر انسان آباد ہے اور زندگی موجود ہے۔ زمین کو انگلش زبان میں Planet Earth کہا جاتا ہے لیکن اب جس تیزی کے ساتھ یہ سیارہ آلودہ ہو رہا ہے‘ یعنی زمین پر آلودگی ایک لازمی عنصر بن چکی ہے‘ اس کی وجہ سے اسے آلودہ سیارہ کہنا بھی لازم ہو چکا ہے۔ اسے انگلش میں Planet Earthکہنے کے بجائے Polluted Earthقرار دینے اور پکارنے کا وقت آن پہنچا ہے۔اس کی ایک وضاحت اس طرح بھی بنتی ہے کہ پہلے لوگ روٹی‘کپڑا اور مکان کا مطالبہ کرتے تھے‘ وہ اب صاف ہوا‘ صاف پانی اور صاف دھوپ کے لیے سرگرداں ہیں۔ اب کسی بھی ملک کے امیر اور غریب ہونے کا ایک نیا معیار بھی سامنے آچکا ہے۔ اس معیار کو امیر اور غریب کے تناظر سے ہٹ کر آپ ممالک یا قوموں کی بقا کا معاملہ بھی انتہائی بجا طور پر قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں ایک پہلو انتہائی ضروری کچھ اس طرح ہے کہ ہوا کی آلودگی کا بنیادی مرکز اور شکار شہری علاقے ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا کہ لاہور شہر کی زندگی زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہے۔ اس بات کو کہے ہوئے بھی ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس تناظر میں ایک بات کا ذکر ادھورا رہ گیا تھا‘ جو اس طرح ہے کہ وفاقی کابینہ میں بیٹھنے والے جو صاحب یونیورسٹی تشریف لائے تھے‘ انہوں نے تفصیل جاننے کے بعد ایک بہت اہم بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حالات کا تقاضا تو پھر یہی ہے کہ وہ وقت پانچ سال دور نہیں بلکہ یہ تو کسی بھی لمحے وقوع پذیر ہونے والی صورت حال ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے اگر کسی شخص یا ملک کے حالات خراب چل رہے ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی بھی بڑا حادثہ کسی بھی وقت پیش آ سکتا ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ Beginning of the End کے الفاظ کیوں استعمال کیے گئے ہیں۔
اب اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ کیا ساری دنیا کے لیے ہی Beginning of the End ہو چکا ہے تو آپ اس ضمن میں کافی حد تک درست اور کافی حد تک غلط ہیں۔ اس کی ایک مثال کچھ یوں ہے کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے اور اسے ایک کے بجائے کئی بیماریاں لاحق ہو جائیں تو اس کے جسم کے کچھ حصے اس کے جیتے جی ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ کسی بھی شخص‘ حتیٰ کہ ایک جوان شخص کو بھی شوگر لاحق ہو جاتی ہے‘ گردوں کا مسئلہ ہو جاتا ہے‘ دمہ یعنی سانس کا مسئلہ ہو جاتا ہے تو اس کے جسم کے کئی اعضا جواب دے جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں کے جوڑ جواب دے جاتے ہیں۔ ویسے تو آصف عفان نے لکھا ہے کہ جیسے ہی کوئی نومولود بچہ پہلا سانس لیتا ہے تو اس کا اپنی آخرت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے لیکن ایک ایسا ماحول جس میں ہوا اور پانی تک بھی نہ صرف آلودہ بلکہ زہریلا ہو‘ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کی بہت ساری سانسیں ایسی ہوتی ہیں جو لینے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اب Beginning of the End کے بجائے Middle of the Endکے الفاظ استعمال کرنا پڑیں گے۔ اب اگر آصف صاحب کے کالم کو لے کر آگے چلیں تو انہوں نے جو ''بھکاریوں کے کلب‘‘ کا ذکر کیا ہے‘ پتا نہیں کیوں مجھے یوں لگ رہا ہے کہ یہ بھکاری اب بھیک میں آکسیجن کے سلنڈر اور پانی کی بوتلیں بھی مانگنا شروع کر دیں گے لیکن آصف عفان نے اپنے کالم میں بھکاریوں کی جو اقسام بیان کیں ہیں‘ ان میں کچھ ہٹے کٹے اور خود ساختہ بھکاری بھی ہیں۔ ایک ایسا ملک جو شدید سیلاب کی زد میں ہو اور وہ اس پانی کی ضرورت کے باوجود اسے ذخیرہ نہ کر سکا ہو اور اس سیلابی پانی سے اس کے تین کروڑ سے زیادہ باسی متاثر ہوئے ہوں‘ اس کے حکمرانوں کو اول تو عالمی برادری امداد دینے سے کترائے گی اور اگر وہ ان کو امداد فراہم بھی کرتی ہے تو ساتھ مضحکہ خیز انداز میں اُن پر ہنسے گی بھی کہ جو ملک پانی کی قلت کا شکار ہے‘ وہی پانی کی کثرت سے ڈوب رہا ہے۔
بات واپس لے جاتے ہیں Beginning of the End کی طرف۔ تو ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ دنیا کے کن ممالک میں یہ Endابھی شروع ہوا ہے اور کہاں آخری مراحل پر ہے۔ بات یہ ہے کہ دنیا میں ایسے ممالک بھی موجود ہیں جہاں ایک شخص کے حصے میں پانچ ہزار سے زیادہ درخت بھی آتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں فی کس درخت بمشکل صرف پانچ ہیں۔ اگرچہ ہم فی کس آمدنی کے معاملے میں بھی کہیں زیادہ غریب یا پھر قریب المرگ ہیں۔ اسی طرح ہم آج کی دنیا کی انوکھی آفت سموگ کے شکار چند ممالک میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ اس زہریلی دھند کا شکار کسی حد تک چین کا وہ علاقہ بھی ہے جو چین اور بھارت کا سرحدی علاقہ ہے۔ واضح رہے چین کا یہ علاقہ تقریباً غیر آباد اور پہاڑی ہے‘ جس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ بھارت کی طرف سے ہی یہ زہریلی دھند چین کی طرف جاتی ہے۔ اب یہ کسی طور بھی ماحولیاتی دراندازی اوردہشت گردی سے کم نہیں۔ ویسے تو چین نے حالیہ شنگھائی کانفرنس کے اجلاس میں بھارت کی ریاست اروناچل پردیش کو اپنا حصہ دکھاکر اپنی خارجہ پالیسی کو ایک بار پھر واضح کیا ہے‘ جس کے بارے بھارتی وفد ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا لیکن پتا نہیں سموگ کا اصل گڑھ ہونے کا نوٹس کب لیتا ہے۔
اب اگر زمین اور اس کے قدرتی ماحول کی بات کی جائے تو اس کے اندر پائی جانے والی محرمیاں‘ خامیاں اور آلودگی انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ انسان کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اب یہ Environmentیا Eco-System بانجھ ہوتا جارہا ہے۔ ارے یاد آیا ان دو اصطلاحات کے فرق کو تو ابھی تک جغرافیہ کے ماہرین بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اس سوال کو اٹھانے والوں سے بھی کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ اب Beginning of the End کے بجائے ہم کہنے کو مجبور ہیں کہ End of the End کا مرحلہ سموگ کے دھندلے اور زہریلے بادلوں کی صورت میں چھانے کو تیار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں