علامہ اقبال‘ عبدالستار ایدھی اور نوبیل انعام

برصغیر یعنی ہندوستان اپنے وقت کا نہ صرف آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا قطعۂ ارضی تھا بلکہ اپنی کل آمدنی کے حوالے سے بھی دنیا کا سب سے امیر خطہ تھا۔ اس لیے برطانیہ کے علاوہ دیگر یورپی طاقتوں کی بھی خواہش تھی کہ برصغیر کو اپنی کالونی بنائیں۔ بالآخر کامیابی برطانیہ کو ملی۔ برصغیر صرف معاشی یا سیاسی لحاظ سے اہم نہیں تھا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہاں فکر و تدبر میں بھی بہت وسعت پیدا ہوئی۔ مسلمانوں نے اپنی جداگانہ شناخت ''مسلم نیشنل ازم‘‘ برقرار رکھنے کے لیے ہر محاذ پر کامیاب کوششیں کیں۔ مسلم سکالرز میں سب سے نمایاں ترین نام ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال کا ہے۔ علامہ اقبال وہ مفکر‘ شاعر اور قانون دان رہنما ہیں جن کے خیالات اورکلام کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ علم اور ذہانت درکار ہے۔ بلاشبہ ان کی تحریریں آپ کو ڈکشنری ساتھ رکھنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ہم خوش قسمتی سے علامہ اقبال کو بطور شاعر تو جانتے ہیں مگر آپ کے دیگر علمی اور فکری کارناموں سے روشناس ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ علامہ اقبال نے معاشیات پر برصغیر کی سب سے پہلی کتاب لکھی۔ اُن کی یہ کتاب علم الاقتصاد‘ محض ذاتی افکار یا مشاہدات پر مبنی نہیں بلکہ خاصی دقیق تحقیق پر مبنی ہے، یعنی اس کتاب میں جو بھی باتیں آپ نے کی ہیں‘ ان کے باقاعدہ حوالہ جات یعنی ریفرنسز بھی دیے ہیں جن کی تعداد 225 سے زائد ہے۔ اس کتاب میں علامہ نے دولت کی پیداوار‘ تقسیم‘ تبادلہ اور ترسیل پر مفصل بحث کی ہے۔ علامہ نے جب یہ کتاب لکھی تو اس وقت برصغیر کی صرف تین یونیورسٹیوں میں معاشیات کو بطورِ مضمون پڑھایا جا رہا تھا۔ یوں علامہ اقبال برصغیر میں معاشیات کے علم کے بانی کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں علامہ اقبال بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب گورنمنٹ کالج کے اپنے برطانوی استاد پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر لکھی اور اس کتاب کا نام ''علم الاقتصاد‘‘ رکھا۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے علامہ نے اردو‘ فارسی اور عربی کی اصلاحات بھی استعمال کیں۔ اسی طرح علامہ نے بہت ساری نئی اصلاحات بھی وضع کیں۔ علامہ نے اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ ایران پر لکھا تھا۔ یوں فارسی شاعری کے علاوہ یہ دوسری بڑی وجہ ہے کہ ایران والے علامہ اقبال کواپنے قومی ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔ علامہ اقبال بطور مفکر جرمنی‘ جہاں سے آپ نے پی ایچ ڈی کی‘ ایران‘ سینٹرل ایشیاء‘ ترکی اور دیگر ممالک میں بھی یکساں مقبول ہیں اور علامہ کی بیشتر تصانیف ان ممالک کے تعلیمی نصاب میں شامل ہیں۔ بطور معیشت دان آپ نے پنجاب اسمبلی کے دو بجٹوں پر تفصیلی تقاریر بھی کیں۔
1917ء میں روس میں کمیونزم کے انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نظریاتی بحث اور ایک مقابلہ شروع ہوگیا۔ کارل مارکس کے نظریات نے دنیا کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا بلکہ دو دھڑوں میں بھی تقسیم کردیا۔ ایک وہ دھڑا جو کمیونزم کے نظریات کا حامی تھا‘ دوسرا وہ دھڑا جو اس کے خلاف تھا۔ مخالفت کرنے والوں میں زیادہ تر امرا تھے کیونکہ مارکس نے دنیا میں غربت کی وجہ وسائل کی عدم دستیابی نہیں بلکہ غیر متوازن تقسیم کو قرار دیا تھا۔ علامہ اقبال نہ صرف مارکس کے نظریات کے حامی تھے بلکہ اس کے نظریات کے معترف اور اس کی شخصیت سے بھی متاثر تھے۔ علامہ اقبال کا ایک فارسی کا شعر ہے جو آپ کے مارکسی خیالات کی عکاسی کرتا اور کارل مارکس کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتا ہے۔
وہ کلیمِ بے تجلّی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
علامہ اقبال اپنے افکار میں سوشل ازم یا پھر یوں کہہ لیں کہ لیبر طبقے کے حقوق کے کتنے داعی تھے‘ اس کا اندازہ معیشت کے سب سے بنیادی عنصر یعنی مزدوری سے متعلق علامہ کے ایک مشہور شعر سے لگایا جا سکتا ہے:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
آج بھی اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں دو معاشی انتہاؤں‘ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت میں سے کون سا نظریہ اسلام کے قریب ہے۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ ایک دفعہ علامہ اقبال سے بھی کسی نے پوچھا کہ کمیونزم‘ سوشل ازم اور کیپٹل ازم میں سے کون سا نظام اسلام کے زیادہ قریب ہے تو آپ کا جواب تھا ''سوشل ازم کوئی نئی بات نہیں‘ یہ سارا نظام اسلام کا معاشی نظام ہے‘‘۔ علامہ اقبال اس وقت یورپ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر آئے تھے جب یورپ میں اس ڈگری کے حامل لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ اس لیے جرمنی والے بھی آپ سے مستفید اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یورپ میں تعلیم حاصل کرنے اور مشاہدات کے بعد علامہ میں اسلام کی حقیقی شناخت یعنی علمی برتری کی تڑپ اور بھی ابھری اور آپ کے کلام میں ہمیشہ ایک خاص موضوع کے طور پر موجود رہی، مثلاً یہ شعر:
مگر وہ علم کے موتی‘ کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ کمیونزم کا حامی ہونا اور نہ صرف اسلامی شریعت و دستور کو اپنے کلام میں خاص طریقے سے پیش کرنا بلکہ مغرب کے سرمایہ دارانہ اور مکمل خود غرضی پر مبنی مغرب کے معاشرتی نظام پر تنقید کرنا وہ ایسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر علامہ اقبال کو نوبیل پرائز کا حق دار نہیں سمجھا گیا۔ اگرچہ پاکستان کی شکل میں مسلمانوں نے علیحدہ وطن توحاصل کر لیا مگر اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے اور نہ ہی فلاح کی منزلیں طے کی جا سکیں۔ حد تو یہ ہے کہ بجلی کی بچت کے لیے ہفتہ وار دو چھٹیاں کرنے کے باوجود اقبال ڈے پر تعطیل پر کئی سال منقسم رہنے کے بعد قوم اس سال یومِ اقبال صرف چھٹی کے طور منانے پر آمادہ ہوئی ہے۔ باقی علامہ اقبال کی ہدایات اور تعلیمات پر عمل تو دور کی بات‘ ہم بحیثیت قوم اس سے متصادم راستے پر چل رہے ہیں۔
اب بات ایک اور مردِ قلندر کی جنہوں نے پاکستان جیسے ملک میں دنیا کی ایک بڑی سماجی سہولت کے لیے ایک ایسی تنظیم کھڑی کی کہ دماغ حیرت کی وسعتوں میں گم ہو جاتا ہے کہ عبدالستار ایدھی جیسی شخصیت کو نوبیل انعام کیوں نہیں ملا۔ اس بات پر جانچ کرنے کی کوشش کی تو اولاً یہی خیال آیا کہ وہ اپنی شخصیت میں ایک دین دار آدمی کا مکمل مجسمہ تھے تو ان کو یہ انعام یا ایوارڈ دینے سے شاید اسلام اور پاکستان کا ایک انتہائی مثبت امیج ابھر کر سامنے آتا جو شاید مغرب والوں کو پسند نہیں لیکن ایک موقع پر ایدھی صاحب کا ایک ایسا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو زیادہ ڈسکس بھی نہیں ہوا تھا۔ اس انٹرویو میں وہ فرما رہے تھے کہ میں زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں ہوں لیکن جو سوشل ازم والے انسانی برابری اور خدمت کا درس دیتے ہیں‘ اس سے بہت متاثر ہوں۔ اُن کے یہ الفاظ ہی مغرب والوں کے لیے کافی تھے۔ واضح رہے امریکہ کے ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والے کاغذات میں ایک انکشاف یہ بھی تھا کہ امریکی بہت عرصہ تک جنوبی افریقہ کی جیل میں قید نیلسن منڈیلا کی مخالفت محض اس بنا پر کرتے رہے تھے کہ کہیں وہ کمیونسٹ خیالات کے حامی نہ ہوں۔
ایک آخری بات‘ جو پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ اقبال جیسے قومی شاعر اور دانشور کے واضح افکار کے باوجود یہ مغرب کا کرشمہ تھا کہ اس نے ڈالروں کے عوض ہمارے ملک میں ایک ایسی تحریک برپا کیے رکھی جس میں ہم نے اشتراکیت کو الحاد و کفر تک قرار دے دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں