ٹیسٹ کرکٹ کا نیا ریکارڈ اور بڑھتی آبادی

انگلینڈ نے راولپنڈی میں جاری پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے خلاف ایک نیا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا ہے۔ پاکستان نے بہت محنت کے بعد ملک میں کرکٹ بحال کی ہے۔ اس کھیل کی اہمیت اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر اور صدرِ پاکستان بھی میچ دیکھنے گئے۔ جمعہ کے اخبار میں میچ کی ان خبروں کے ساتھ ایک اور خبر یہ بھی چھپی ہوئی تھی کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لیے صوبے الگ سے وزارتیں قائم کریں۔ یہ بیان ایک وفاقی وزیر نے پاپولیشن کونسل کے قیام کی سترویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی تقریباً 23کروڑ ہو چکی ہے۔ آبادی کے حوالے سے اُن کا یہ اندازہ بالکل درست ہے بلکہ میرے خیال میں تو آبادی اب 23کروڑ کی حد بھی عبور کر چکی ہے کیونکہ پاکستان کی آبادی تقریباً پچپن لاکھ سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بیانوں میں آبادی کی تعداد کے حوالے سے کسی شک کا شکار ہوئے بغیر یقین کے ساتھ بات کیا کریں کیونکہ یہاں دو سال میں ایک کروڑ سے زائد نفوس ملکی آبادی میں شامل ہو رہے ہیں۔ مذکورہ وفاقی وزیر کو چاہیے تھا کہ وہ ملک میں نئی مردم شماری کے حوالے سے بھی کوئی بیان جاری کرتے۔ پاکستان میں آخری مردم شماری 2017ء میں ہوئی تھی لیکن ضروری ہے کہ مردم شماری کا عمل ایک تسلسل اور ترتیب کے ساتھ جاری رہے۔ انگریز دور میں ہر دہائی کے پہلے سال مردم شماری ہوا کرتی تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد یہ تسلسل شروع میں جاری رہا لیکن 1991ء میں ملک میں جمہوری حکومت موجود ہونے کے باوجود جاری نہ رہ سکا اور جو مردم شماری 1991ء میں کی جانی چاہیے تھی وہ سات سال کی تاخیر سے 1998ء میں ہوئی۔ ملکِ عزیز میں پانچ برس قبل 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے حوالے سے کئی طبقات کو تحفظات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نئی مردم شماری سے پہلے اس عمل کی انجام دہی میں حصہ لینے والے سٹاف کی باقاعدہ تربیت کی جائے‘ اعلیٰ حکام کی نگرانی میں یہ مردم شماری کروائی جائے تاکہ ملک کے تمام صوبوں اور اضلاع میں آبادی کی تعداد‘ وہاں آبادی بڑھنے کی شرح‘ شرح خواندگی اور دیگر حقائق کا درست اندازہ ہو سکے۔
ملک میں آبادی کے اضافے کی درست شرح کا علم ہونا اس لیے بھی بہت ضروری ہے تاکہ آبادی کے تناسب سے ملکی وسائل میں اضافہ بھی یقینی بنایا جا سکے۔ وزیر صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ 2030ء تک ملکی آبادی 26کروڑ تک پہنچ سکتی ہے لیکن اگر آبادی میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والے اضافے کی شرح کو مدنظر رکھا جائے تو 2030ء تک ملکی آبادی ساڑھے 27کروڑ کی حد عبور کر سکتی ہے۔ اگر مردم شماری کے بعد حاصل ہونے والے درست اعدادو شمار کے بجائے محض اندازوں کی بنیاد پر ہی وسائل کی تقسیم اور ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کی جائے گی تو یہ ناانصافی ہوگی۔ جب تک آبادی کی درست تعداد کا ادراک نہیں ہو سکے گا تب تک عوام کو اُس تناسب سے بنیادی سہولیات کیسے فراہم کی جا سکیں گی۔ آبادی کے درست اعدادو شمار کے حصول کے لیے نادرا کے ڈیٹا سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ بالخصوص ایسے علاقوں میں نادرا کے ڈیٹا کا استعمال ضرور کیا جانا چاہیے جہاں قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبران اپنے ووٹوں کی تعداد بڑھانے کی غرض سے جعلی اینٹریز کرواتے ہیں۔ گزشتہ مردم شماری کے بعد کراچی کی ایک سیاسی جماعت کی طرف سے مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن وہ جماعت آبادی میں اضافے کی جو تعداد بیان کر رہی تھی وہ تو کسی بھی عالمی سروے کے مطابق بھی درست نہیں تھی۔
وفاقی وزیر نے اپنے بیان میں یہ عندیہ بھی دیا کہ وزیراعظم جلد ہی ملک میں آبادی کنٹرول کرنے کے لیے ایمرجنسی پلان کا اعلان کرنے والے ہیں۔ میں اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ اس مہم میں تمام مکتب فکر کے رہنمائوں کو شامل کیا جانا چاہیے جن کے بیانات اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے نشر کیے جائیں تاکہ یہ رہنما لوگوں کو دلائل کے ساتھ سمجھا سکیں کہ آبادی پر قابو پانے کا عمل غیر شرعی نہیں بلکہ تمام حوالوں سے بالکل درست ہے اور معاشی اور معاشرتی طور پر ضروری بھی ہے۔ ڈاکٹروں کو خصوصی طور پر اس مہم کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو باور کروا سکیں کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ زچہ اور بچہ کی صحت کے لیے بھی کتنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر کی بات پر لوگ ویسے بھی زیادہ دھیان دیتے ہیں۔ اس کے بعد باری آتی ہے تعلیمی نصاب کی‘ خاص طور پر مطالعہ پاکستان کی‘ جس میں بڑھتی ہوئی آبادی سے پید ا ہونے والے بلکہ پیدا ہو چکے مسائل مثلاً پانی کی کمی‘ روز افزوں آلودگی‘ زیر کاشت رقبہ میں کمی‘ بیروزگاری میں اضافہ‘ غربت میں اضافہ وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہونا ضروری ہے۔ آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک صرف آبادی میں اضافے پر قابو پانے کی بات کی جاتی رہے گی‘ لوگ اس مسئلے کی سنگینی کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے لیکن جب آبادی میں اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل پر بات کی جائے گی اور عوام کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے گی تو لوگ اس بات کا اثر ضرور قبول کریں گے۔
اب ذکر دوبارہ کرکٹ کا‘ ملکِ عزیز میں جاری ٹیسٹ کرکٹ سیریز میں انگلینڈ کی ٹیم نے پہلے ٹیسٹ کے پہلے ہی دن پانچ سو سے زیادہ سکور بنا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا ہے۔ ایک طرف انگلینڈ ٹیسٹ کرکٹ میں نت نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے‘ تو دوسری طرف پاکستان آبادی میں اضافے کے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ یہاں کرکٹ اور آبادی میں اضافے کا ایک ساتھ ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کوئی ٹی وی پروگرام دیکھے یا نہ دیکھے لیکن وہ کرکٹ میچ ضرور دیکھتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی ہر بڑی کرکٹ سیریز میں ایک سلوگن یا ماٹو آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے جاری کیا جانا چاہیے تاکہ اس کی بھرپور تشہیر ہو سکے۔ ایسی مشہور شخصیات جن کے بچوں کی تعداد دو تک محدود ہے‘ انہیں ایسی اشتہاری مہم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت دو برس کے دوران چین کی کل آبادی کا ریکارڈ توڑتے ہوئے دنیا کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک بننے والا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں ہی کرکٹ کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے۔ بھارت بھی اپنے ہاں ہونے والے کرکٹ میچوں کو آبادی پر قابو پانے کی مہم چلانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت سے یاد آیا کہ کورونا کی وجہ سے وہاں تاخیر کا شکار ہونے والی مردم شماری تاحال تاخیر کا شکار ہی ہے لیکن دوسری طرف دیکھیں کہ وہاں باقاعدگی سے قومی اور بین الاقوامی کرکٹ سیریز کا انعقاد کروایا جا رہا ہے۔
اب بات ان دونوں ملکوں میں جاری سموگ نامی آفت کی‘ جس میں بھارت سب سے آگے ہے۔ واضح رہے جب بھی ہوا کا رخ بھارت سے پاکستان کی طرف ہوتا ہے تو پاکستان میں اس دوران آلودگی کی شرح بڑھ جاتی ہے لیکن جیسے ہی ہوائوں کا رخ پاکستان سے بھارت کی طرف ہوتا ہے یا پھر ملک کے شمالی علاقوں سے ہوا چلنا شروع ہوتی ہے تو ساتھ ہی ملک میں آلودگی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ ان ہوائوں کو مغربی ہوائوں کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ جس طرح دونوں ممالک میں کرکٹ کا جنون موجود ہے اُسی طرح دونوں ممالک میں آبادی میں اضافے پر قابو پانے اور روز افزوں فضائی آلودگی کا تدارک کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ یہاں کرکٹ کے فروغ کا تو کوئی پتا نہیں‘ آبادی کے بوجھ سے آلودگی میں اتنا اضافہ ضرور ہو جائے گا کہ کرکٹ ان ممالک کے اندر نہیں کھیلی جا سکے گی۔ ملک میں جس طرح سخت اقدامات کرکے کرکٹ بحال کی گئی ہے‘ عین اسی طرح آبادی کنٹرول کرنے کے لیے بھی سخت اقدامات کیے جانے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں