نئی سرد جنگ کا میدان

''مار دو‘ نہیں تو مار دیے جائو گے‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو بھارت اور چین کی سرحد پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس کی وڈیو بھارت کی چین کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی خبر میں بھارت کے ایک ٹی وی چینل پر بھی نشر کی گئی۔ چین‘ بھارت کشیدگی کا تازہ مظاہرہ 9 دسمبر کو بھارت کی ریاست اروناچل پردیش کے سرحدی علاقے توانگ میں دیکھا گیا۔ یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جس میں چین نے کئی مقامات پر اپنی مستقل چھوٹی بستیاں بھی آباد کر رکھی ہیں۔ چین نے یہ علاقہ 1962ء کی جنگ میں بھارت سے مکمل طور پر چھین لیا تھا لیکن بعد میں کچھ علاقہ واپس کر دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ چین اب بھی اس ریاست کو اپنے نقشے میں چین کے حصے کے طور پر دکھاتا ہے۔ حتیٰ کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی حالیہ کانفرنس کے موقع پر نریندر مودی کی موجودگی میں چین نے اس علاقے کو اپنے نقشے میں چین کے حصے کے طور پر دکھایا۔ اسی ماہ افغانستان نے کابل میں ایک چوک میں جنوبی ایشیا کا ایک نقشہ نصب کیا ہے۔ اس میں مقبوضہ کشمیر کو آزاد کشمیر کا حصہ دکھایا گیا ہے جبکہ لداخ اور کشمیر کا وہ علاقہ‘ جو چین کے قبضے میں ہے‘ اس کو چین کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یہ افغانستان جیسے ملک کی طرف سے بھارت کے لیے ایک بہت بڑا سفارتی پیغام ہے اور اس کے ذریعے طالبان کی عبوری حکومت نے اپنے چین کی طرف جھکائو کا بہت واضح انداز میں اظہار کیا ہے۔
بھارت اور چین کی سرحد تقریباً ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل ہے اور یہ دنیا کی طویل ترین سرحدوں میں سے ایک ہے۔ یہ سلسلہ کشمیر سے شروع ہو کر بھارت کی شمال مشرقی سرحدی ریاست اروناچل پردیش تک پھیلا ہوا ہے۔ کشیدگی کے اعتبار سے بھی یہ دنیا کی سب سے لمبی سرحد ہے۔ اس سرحدی لائن میں ایک چھوٹا سا ملک نیپال بھی آتا ہے۔ یہ ملک کبھی بھارت کی طفیلی ریاست کا درجہ رکھتا تھا مگر اب اس نے بھی گزشتہ سال سے بھارت کے تقریباً چارسو مربع کلومیٹر علاقے پر اپنا حق جتلایا ہوا ہے۔ نیپال نے نیا نقشہ اپنی پارلیمنٹ سے منظور بھی کرا لیا تھا۔ افغانستان کی طرح‘ نیپال کے اس دعوے کے پیچھے بھی یقینا چین بول رہا ہے۔ واضح رہے کہ نیپال کے اس دعوے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازع کے بعد بھارت اور چین کے ساتھ تمام سرحد متنازع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹے سے جنوبی ایشیائی ملک بھوٹان کی سرحد پر بھی چین اور بھارت کا سرحدی تنازع جاری ہے۔
میں اپنے کالموں میں متعدد بار یہ ذکر کر چکا ہوں کہ برطانیہ کے جانے کے بعد سے اس خطے میں عمل دخل اور بالواسطہ حکم امریکہ کا چلنا شروع ہو گیا۔ امریکہ تاحال اس خطے کو استعمال کرتا آ رہا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اس بھیانک حقیقت کا اظہار سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورۂ چین میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کھل کر کیا تھا۔ اس بات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھتے ہیں۔ امریکہ مغربی ممالک کے بلاک کی سربراہی کرتا ہے۔ یہ سلسلہ دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ مغربی بلاک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ ایشیا سے ایک تاریخی عداوت رکھتے ہیں۔ روس نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے لے کر 1990ء تک امریکہ اور مغربی بلاک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اب یوکرین پر حملہ کرکے ایک دفعہ پھر اس نے مغرب کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔ دوسری طرف چین کی شکل میں ایک اور مشرقی طاقت ابھر رہی ہے جس نے امریکہ کی سربراہی میں مغرب کی حاکمیت اور اجارہ داری توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک خاموش مگر واضح کشمکش یا یوں کہہ لیں کہ چین اور امریکہ کی نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے۔
اسی تناظر میں ایک اہم اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ یورپ کے اکثر ممالک کا جھکائو اب چین کی طرف ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اگرچہ روس کے حملے کے بعد تھوڑی سی سرد مہری یورپ میں چین کے حوالے سے اس لیے پائی جاتی ہے کہ چین نے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت نہیں کی بلکہ چین نے جو موقف اپنایا وہ روس کی حمایت کے مترادف ہے مگر بہت سے ممالک اپنا معاشی مستقبل چین کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ ایشیا کے تمام ممالک کو اپنے ساتھ ملائے۔ چین ایشیا کے ممالک کی اسی طرح سے فکر کرتا ہے جس طرح امریکہ نیٹو ممالک کی کرتا ہے۔ یہ بات چین کی تعریف سے زیادہ اس کی اپنی ضرورت کے زمرے میں آتی ہے۔ چین اپنے ہمسایہ ممالک کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کی زمینی سرحد چودہ ممالک کے ساتھ ملتی ہے۔ کسی بھی بڑی طاقت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ہمسایہ ممالک بالکل چھوٹے اور بے اثر ہوں؛ تاہم اگر وہ ممالک بڑے ہوں یا بڑی عسکری طاقت رکھتے ہوں تو وہاں معاشی خوشحالی ضرور ہو۔ بات بہت واضح ہے کہ اگر وہاں معاشی خوش حالی اور ترقی نہ ہو گی تو وہاں افراتفری اور جنگی صورت حال کا خدشہ ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس حوالے سے بھارت چین کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ سی پیک کے منصوبے کے سبب پاکستان پہلے ہی چین کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت اس خطے کا واحد ملک ہے جو ابھی تک نہ صرف سی پیک سمیت چین کے دیگر معاشی منصوبوں کا حصہ نہیں بنا بلکہ یہ ان کی مخالفت اور ان میں خرابی پیدا کرنے پر اپنی توانائیاں اور سرمایہ بھی خرچ کر رہا ہے۔ افغانستان میں چین کے ایک ہوٹل پر ہونے والا حالیہ حملہ‘ جس میں تینوں حملہ آور مارے گئے‘ بھارت ہی کی کارستانی معلوم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ امریکہ کے قبضے کے وقت سے موجود اور بہت گہرا ہے۔ بھارتی میڈیا چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کی خبر کے ساتھ افغانستان میں چینی ہوٹل پر ہوئے حملے کی خبر کو بھی نمایاں کر کے نشر کرتا رہا۔
بات شروع ہوئی تھی بھارت کی صورتحال‘ خاص طور پر چین جیسی طاقت کے ساتھ اس کی سرحدی کشیدگی سے۔ اب تک کے حقائق سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت تاحال چین کے ساتھ اپنے تعلقات کسی مثبت ڈگر تو درکنار‘ نیوٹرل بھی نہیں کر پایا۔ حالیہ کشیدگی کی وجہ بھارت کی جانب سے چین کے خلاف پراکسی جنگ جاری رکھنا ہے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بھارت اس خطے میں برطانیہ کے نائب کا کردار نبھا رہا ہے۔ برطانیہ نے اس خطے کو دو صدیوں تک لوٹا اور برباد کیا مگر بھارت اس خطے میں ایک خودکش بمبار کی طرح تباہی مچانے کے درپے ہے۔ مطلب صاف ہے کہ گورے نے اپنے مفادکے لیے اس خطے کو پسماندہ رکھنے کا جو سلسلہ براہِ راست شروع کیا تھا‘ بھارت اسی سلسلے کو بالواسطہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چلی ہے کہ چین کو بھارت کی شکل میں جو پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا کرنے والا سپیڈ بریکر ملا ہے‘ چین اس کی وجہ سے رکنے والا نہیں۔ چین سرحدی تنازعات کی آڑ میں بھارت کے گرد گھیرا مسلسل سخت اور تنگ کرتا جا رہا ہے۔ چین کے بانی رہنما مائوزے تنگ کے ماننے والے نکسل باڑی پچھلی چار دہائیوں سے زائد عرصے سے بھارت کے تقریباً سو ضلعوں میں علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اب بھارت اپنی احمقانہ اور خودکش حرکتوں کی وجہ سے خود اپنے ٹکڑے کرتا نظر آ رہا ہے۔ بھارت کے اندرونی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کے لیے اب زیادہ سے زیادہ پانچ سال بچے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ سوویت یونین کے بعد اب بھارت کے حصے بخرے ہونے کو ہیں۔ اس جغرافیائی تبدیلی کا آغاز اروناچل پردیش کے 93 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے سے ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں تیزی چین کی تیزی سے بڑھتی معاشی طاقت کے ساتھ جڑی ہے۔ اس کا آخری اور فیصلہ کن مقام اُس وقت آئے گا جب چین امریکہ سے بڑی معاشی طاقت بن جائے گا اور یہ وقت آنے میں چار سے پانچ سال باقی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ''مار دو‘ نہیں تو مار دیے جائو گے‘‘ والی بات کون سا ملک کب اور کیسے اپناتا ہے۔ البتہ چین بہت آہستہ، خاموش اور کسی بڑی جنگ کا محاذ کھولے بغیر جنگ جیتنے کا طریقہ اپنائے ہوئے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں