ذکر ہو رہا ہے برصغیرپر برطانیہ کے دو صدیوں پر محیط راج کا۔ گزشتہ کالموں میں اس بات کا احاطہ کیا گیا تھا کہ گورے نے نہ صرف اس خطے پر ظالمانہ و شاطرانہ قبضہ کیا بلکہ اس خطے کو دن رات لوٹا۔ اس نے یہاں کے لوگوں میں نہ صرف سماجی تقسیم پیدا کی بلکہ یہ تقسیم اس طرز پر کی کہ لوگوں کو دائروں میں قید کرتے ہوئے ایک دوسرے کا مخالف بنا دیا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نشانے پر رکھا گیا۔ اگر علاقوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نقصان بنگال اور پنجاب کے لوگوں کا ہوا۔ مسلمانوں کے علاوہ سکھ بھی گورے کی بھرپور زیادتی کا نشانہ بنے۔ تقسیمِ ہند کا سب سے زیادہ نقصان سکھ قوم کو ہواجن کے حصے میں زمین کا کوئی بھی ٹکڑا نہ آیا۔ بھارت نے ان کو جس خود مختار علاقے کا خواب دکھایا تھا‘ وہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اسی طرح ایک مقدمہ یہ بھی پیش کیا گیا تھا کہ آج بھی گورے کی پالیسیاں اس خطے میں جاری و ساری ہیں۔ زیادہ سے زیادہ فرق یہ آیا ہے کہ اب برطانیہ کی جگہ امریکہ نے کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔ ہاں! اب چین کی شکل میں ایک نیا ورلڈ آرڈر ابھرنے سے ایک نئی کشمکش جاری ہے، جس کے نتیجے میں توقع ہے کہ یہ خطہ اب جنگی جنون سے نکل کر شاید معاشی میدان کی صحت مند مسابقت میں داخل ہو سکے ۔اگر آج تک کی صورتحال کے حوالے سے اس خطے کے مختلف امور کا جائزہ لیا جائے تو یہ تصویر سامنے آتی ہے۔
دس گیارہ سے دس بارہ تک
گزشتہ کالم کے اختتام پر ذکر ہوا تھا کہ پاک بھارت تقسیم کے وقت جو قتلِ عام ہوا تھا‘ اس کو کوئی نام کیوں نہیں دیا جاتا، جبکہ تیس لاکھ کے قریب افراد اس دوران ہلاک ہوئے تھے، اور ان ہلاکتوں کی بڑی وجہ لوگوں کو ہجرت کے لیے انتہائی قلیل وقت دیا جانا تھا جبکہ اس ہنگامی ہجرت کے وقت لوگوں کی حفاظت کیلئے آرمی تو کجا‘ پولیس کو بھی تعینات نہیں کیا گیا۔ اس بات کو دہرانا اس لیے پڑا ہے کہ سکھ کمیونٹی تعداد میں دو‘ ڈھائی کروڑ کے قریب ہے لیکن ا س کے باوجود وہ پوری دنیا میں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتی رہتی ہے۔ تقسیم کے وقت برطانوی راج کی دانستہ غفلت سے ہوئے قتل وغارت کو کوئی مناسب نام دینے کیلئے مجھ سے ایک سکھ بھائی نے رابطہ کیا‘ جو اس سے پہلے بھی گاہے گاہے اپنی جمہوری اور آئینی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں‘ تو ان کا کہنا تھا کہ ایک سکھ خاتون نے سکھوں پر بھارت کے ریاستی مظالم پر ایک کتاب لکھی ہے جس کے عنوان میں 1947ء سے 1984ء تک کے الفاظ شامل ہیں ۔ واضح رہے کہ 1984ء میں بھارت کے شہر امرتسر میں سکھوں کی سب سے اہم عبات گاہ گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج نے ٹینکوں تک کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کر کے ان کے آزادی پسند مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو ساتھیوں سمیت ہلاک کیا تھا ۔ اس حملے کے نتیجے میں گولڈن ٹیمپل کا بڑا حصہ بھی تباہ ہو گیا تھا ۔ اب ان سردار جی نے مشورہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو یہی نام دیں گے۔ مطلب دس گیارہ (10/11) سے دس بارہ(10/12) ۔ اگر آپ اس کا مطلب سمجھنا چاہیں تو 1947ء کے پہلے دو ہندسوں کو جمع کریں (1+9)تو دس کا ہندسہ بنتا ہے جبکہ بعد والے دو ہندسوں کو جمع کریں (4+7) تو گیارہ بنتا ہے۔ اسی حساب سے 1984ء کے پہلے دو ہندسوں کو جمع کریں تو دس اور بعد والوں کو جمع کریں (8+4) تو بارہ کا ہندسہ بنتا ہے۔ نام دینے کا یہ سٹائل امریکہ میں ہوئے نائن الیون حملوں کی طرز پر ہے اور چونکہ یہ بہت زیادہ رائج ہے تو ہمارے مابین اسی پر اتفاق ہوا۔ اس موقع پر راقم کا کہنا تھا کہ اگرچہ تقسیم کے وقت ہونے والے مظالم پرانے ہیں اور انہیں نام بعد میں دیا جا رہا ہے لیکن دس گیارہ کا سانحہ امریکہ کے نائن الیون سے کئی ہزار گنا زیادہ بڑا تھا اور اس میں چند ہزار نہیں بلکہ کئی ملین لوگ مارے گئے تھے جبکہ مالی نقصان اور جنگی و جبری مضمرات اس کے علاوہ ہیں۔
بھارت کے گردو پیش
اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو ادراک ہو گا کہ چین اور بھارت کی سرحد پر جو جھڑپ نما لڑائیاں جاری رہتی ہیں‘ ان کی ایک بڑی وجہ بھارت کا امریکہ کے ایما پر چین کے خلاف ایک نیم سرد جنگ جاری رکھنا ہے۔ اگرچہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کی کئی ممالک نے مخالفت کی ہے مگر وہ سبھی یورپی اور مغربی ممالک ہیں۔ بھارت ہی واحد ملک ہے جو اس خطے میں موجود ہے اور اب تک چین کے تجارتی منصوبوں میں نہ صرف شامل نہیں ہوا بلکہ ان کی مخالفت بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اپنے غریب عوام کو روٹی دینے کے بجائے خود کو چین مخالف مغربی اتحادوں کا حصہ بھی بنا چکا ہے۔ یہاں پر فضائی حادثے میں مارے جانے والے سابق بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کی ایک حقیقت پسندانہ بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے دیے گئے ایک بیان میں کہی تھی۔ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ بھارت کی فوج ڈھائی محاذوں پر نہیں لڑ سکتی۔ اس بیان میں ایک محاذ پاکستان اور دوسرا چین کو کہا گیا جبکہ دلچسپ طور پر آدھا محاذ بھارت کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو قرار دیا گیا تھا۔ اگر آج کے بھارت کو دیکھیں تو اس کے محاذوں میں ایک نیا اضافہ نیپال کی شکل میں ہو چکا ہے۔ وفاقی جمہوریہ کہلانے والا یہ تقریباً تین کروڑ آبادی کا ملک ہے ۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کا سرکاری مذہب ہندومت ہے (بھارت اپنے آپ کو سیکولر کہتا ہے)۔ بھارت سے نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود یہ مکمل طور پر چین کا اتحادی بن چکا ہے اور اس نے بھارت کے تقریباً چار سو مربع کلو میٹر علاقے پر اپنا حق جتاتے ہوئے اپنے ملک کا نیا نقشہ اپنی پارلیمنٹ سے منظور کروا کر جاری بھی کر دیا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں آگے بڑھیں تو بھارت کے اندر شدت پسندی کا ایک نیا محاذ انتہاپسند ہندو مذہبی لیڈروں کی شکل میں جنم لے کر اب پروان بھی چڑھ چکا ہے۔
بھارت کو در پیش مشکلات
سالِ رواں میں کسی بھی وقت آپ کو یہ خبر پڑھنے اور سننے کو مل سکتی ہے کہ بھارت نے آبادی کے اعتبار سے چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آبادی کے اعتبار سے وہ دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ کچھ ماہرین تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ عملی طور پر ایسا ہو چکا ہے لیکن چونکہ یہ قابلِ فکر بات نہیں ہے‘ اس لیے میڈیا کے عالمی افق پر مغرب کی اجارہ داری کی وجہ سے اس کا اعلان نہیں کیا جاتا۔جہاں تک چین کی بات ہے تو گزشتہ ساٹھ سالوں میں پہلی بار چین میں شرحِ آبادی میں منفی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جی ہاں! چین کی آبادی اب بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔ 2022ء میں چین کی آبادی 2021ء کی نسبت ساڑھے آٹھ لاکھ کم ہوئی۔ بھارت کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ 2021ء میں بھارت کی مردم شماری ہونا تھی جو کورونا کی وجہ سے مؤخر ہو کر اب تک تعطل کا شکار ہے اور بھارت اس معاملے پر مکمل خاموش ہے۔ وہ اپنی کل آبادی کے حوالے سے درست اعداد و شمار ہی نہیں بتاتا۔ مردم شماری کے حوالے سے یہ فقرہ مشہور ہے کہ جو اپنی تعداد گن نہیں سکتے وہ عوام کی فلاح و بہبود کی منصوبہ بندی کیسے کریں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی کا مسکن بھی ہے۔ غربت کی کوکھ سے، تشدد، جرم اور انتشار پھیلا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی جگہ پر خوشامدی اکٹھے ہو جائیں تو شیطان ڈنر کرنے چلا جاتا ہے، لیکن جہاں غریب اکٹھے ہو جائیں تو شیطان وہ علاقہ ہی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ جو کچھ غریب اور بھوکے کا دماغ سوچ سکتا ہے‘ وہ شیطان بھی نہیں سوچ سکتا۔ اس پورے خطے میں غربت کے ناچ اور راج کی بڑی وجہ اس خطے کی جنگی صورتحال ہے جس کو بھارت نہ صرف کنٹرول کرتا ہے بلکہ بڑھاوا بھی دیتا رہتا ہے۔ البتہ ایک بات یاد رکھنے کی ہے‘ وہ یہ کہ غربت اور بقا زیادہ دیر تک ساتھ نہیں چل سکتے۔ شدید غربت ملکوں کو استحکام کے چیلنج سے دوچار کرتی ہے۔