نریندر مودی‘ بھارت اور براک اوباما

کسی ملک کا جغرافیہ اس کی سیاست و معیشت پر تو اثر انداز ہوتا ہی ہے لیکن یہ اس ملک کی برتری، بقا اور سالمیت میں بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ آپ دوست تو بدل سکتے ہیں لیکن ہمسایے نہیں۔ ان کی مراد پڑوسی ممالک سے طرف تھی کہ ملک کا جغرافیہ تبدیل نہیں ہو سکتا لہٰذا پڑوسی‘ خواہ کتنا ہی ناقابلِ برداشت کیوں نہ ہو‘ اس سے ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا چاہیے۔علم جغرافیہ کی سب سے مقبول شاخ سیاسی جغرافیہ ہے لیکن اس کا مطالعہ دیگر مضامین سے قدرے مشکل اور زیادہ گہراہوتا ہے۔ آج ہم سیاسی جغرافیے کے مطابق جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک یعنی بھارت کی صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ جغرافیہ کے ماہرین نے کچھ عوامل ایسے بیان کر رکھے ہیں جو کسی ریاست کی برتری، ترقی یا پھر سالمیت کیلئے ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ عالمی طاقت امریکہ کو ہی لے لیں‘ اس کی دو بڑی سرحدیں سمندر سے ملتی ہیں جہاں سے اس کو اپنے دفاع میں آسانی رہتی ہے۔ ایک زمینی سرحد کینیڈا سے ملتی ہے جس کے ساتھ اس کے تعلقات نہایت دوستانہ ہیں۔ اس کے جنوب میں میکسیکو ہے لیکن یہ ایک کمزور ملک ہے اور اس کے تعلقات بھی امریکہ سے خراب ہر گز نہیں ہیں۔ یعنی جغرافیائی طور پر امریکہ کو ایک سبقت اور سہولت حاصل ہے۔ دوسری مثال چین کی لیتے ہیں جو ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اس کی سرحد چودہ ملکوں سے ملتی ہے۔ اب یہ بات چین کے لیے فائدہ مند بھی ہو سکتی ہے اور اس کے بر عکس بھی۔ اگر یہ ممالک پُر امن اور خوشحال ہوں گے تو چین کو تجارتی فائدہ ہو سکتا ہے، چین ان ممالک کے ساتھ مل کر نیٹو کی طرز کا ایک اتحاد بنا سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان چودہ ممالک میں سے ایک ملک وہ ہے جس سے چین کے حالات ہر وقت کشیدہ رہتے ہیں اور دونوں میں طویل سرحد پر دیرینہ تنازعات بھی موجود ہیں۔ یہ ملک بھارت ہے۔ بھارت کی چین سے ملنے والی سرحد (نیپال اور بھوٹان کو ملا کر) پانچ ہزار کلو میٹر سے زائد بن جاتی ہے۔ اس سرحد پر پانچ سے سات مقامات پر تنازعات بہت واضح اور کشیدہ ہیں۔ اسی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے سے غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ سرحدی تنازعات سے ہٹ کر دونوں ممالک میں بنیادی جھگڑا بھارت کا امریکی ایما پر چین کے خلاف ایک پراکسی وار لڑنے کی انتہائی احمقانہ کوشش ہے۔ یہ بات چوہے کی نشے کی حالت میں بلی کو للکارنے کے مترادف ہے۔ اب بات کرتے ہیں بھارت کے دیگر جغرفیائی عوامل کی۔
غربت، کمزور سرحدیں اور شعور
صرف جغرافیہ ہی نہیں بلکہ ہر سماجی علم کے حوالے سے یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ جس ملک کے عوام بھوکے ہوں‘ وہاں ہر وقت انقلاب اور بغاوت کے اجرا سے تکمیل تک کا سامان موجود رہتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی پائی جاتی ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں غریب پائے جاتے ہیں مگر غریبوں کا ہونا عیب اس وقت بنتا ہے جب ان کی تعداد میں کمی نہ آرہی ہو بلکہ الٹا اس میں اضافہ ہو رہا ہو۔ بیروزگاری کی شرح بھارت کے اپنے میڈیا کے مطابق اتنی زیادہ ہے کہ ہر چار میں سے ایک جوان کے پاس کرنے کیلئے کوئی کام نہیں ہے۔ مطلب پچیس فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ یہاں پر ایک جدید نظریہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ کسی بھی ریاست میں نظام چاہے کوئی بھی ہو‘ اگر کوئی شخص بھوکے پیٹ رہتا ہے تو وہ اس ریاست سے ذہنی طور پر اجنبی ہو جاتا ہے۔ اس اجنبیت کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ وہ کوئی بھی غیر قانونی کام حتیٰ کہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی ریاست میں ہر وہ شخص‘ جس کا کوئی نقصان ہو جائے‘ اس کے ساتھ ناانصافی ہو اور اس کی داد رسی نہ ہوتی ہو‘ وہ بھی ذہنی طور پر ریاست سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ آپ اس کو احساسِ عدم تحفظ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ جب خوشامدی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو شیطان چھٹی پر چلا جاتا ہے۔ اسی فقرے کی بنیاد پر ایک اور فقرہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی علاقے میں بھوک عام ہو جائے تو شیطان وہ علاقہ ہی چھوڑ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھوکے پیٹ والے ہر وہ چیز سوچنے اور کرنے لگ جاتے ہیں جس کے لیے شیطان انسانوں کو اکسانے کی کوشش کرتا ہے۔
اب یہاں روس کا ایک جاسوس افسر Oleg Kaluginیاد آرہا ہے جس نے اپنی کتاب ''My 32 Years of Espionage‘‘ میں روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے دوران اپنے بھارت میں قیام سے متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق جب وہ اپنی مرضی کے کام کے لیے بھارت میں افراد کو بھرتی کر رہا تھا تو ایسے لگا کہ ''پوری (بھارتی)قوم ہی برائے فروخت ہے‘‘۔ اس بات کو بھوک کی ماری ہر قوم پر لاگو کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بات سرد جنگ کے دوران بھات کی غربت کے حوالے سے کی گئی۔ سیاسی جغرافیہ کا علم کہتا ہے کہ اگر غربت ان علاقوں میں ہے جو ملک کے سرحدی علاقے ہیں اور جن کی سرحد کسی دوسرے ملک سے ملتی ہے تو ان علاقے کے لوگوں میں علیحدگی کا رجحان فروغ پا سکتا ہے۔ اگر اس علاقے میں لا قانونیت ہو اور اس علاقے کے لوگوں کی معاشی حالت اپنے پڑوسی ملکوں کے لوگوں سے بر تر ہو تو یہ علاقہ علیحدہ ہونے کا خدشہ یقین میں بدل سکتا ہے۔ اب اس تناظر میں آپ بھارت کی ریاست منی پور میں 3 مئی سے جاری خانہ جنگی کے حالات پر ایک نظر ڈال لیں۔ اس ریاست کی سرحد میانمار سے ملتی ہے۔ اس سٹیٹ میں دو بڑے عسکری گروہ ہی آپس میں برسر پیکار نہیں بلکہ وہاں کی سٹیٹ‘ یعنی پولیس بھی اپنے اپنے پسندیدہ گروپ کے ساتھ مل چکی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چند روز پہلے پولیس سٹیشنوں سے اسلحہ لوٹنے کی جو خبریں آئی تھیں‘ ان کی حقیقت یہ نکلی ہے کہ مذکورہ علاقوں کی پولیس نے خود ہی اپنے اپنے لوگوں کو اسلحہ مہیا کیا تھا۔ پہلے یہ تعداد ڈھائی ہزار بڑے ہتھیار بتائی جا رہی تھی لیکن اب اطلاعات ہیں کہ یہ ہتھیار چار سے پانچ ہزار ہوچکے ہیں۔ پوری ریاست میں انٹرنیٹ تا حال بند ہے، اور ہر وقت کرفیو لگا رہتا ہے۔ ریاست عملی طور پر دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ رہی سہی کسر کانگریس پارٹی کے اس بیان نے پوری کر دی ہے جس میں ان فسادات کا ذمہ دار آر ایس ایس کو ٹھہرایا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کی ایک بے بسی یہ ہے کہ یہ فسادات ہندوئوں اور مقامی عیسائیوں کے مابین ہو رہے ہیں‘ اس لیے مسلمانوں یا پاکستان کو کسی طرح بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ جو بھارت کی ازلی روش رہی ہے۔ اس علاقے کے لوگوں حتیٰ کہ خواتین میں بھی انگریزی بولنے کی شرح حیران کن ہے۔ اس سے علم ہوتا ہے کہ اس ریاست کی شرحِ خواندگی بہت زیادہ ہے۔ اس بات کی تصدیق بھارتی حکومت بھی کرتی ہے۔
لوگوں کا پیٹ نہ سہی‘ دماغ تو بھرو
ان کشیدہ حالات کے باوجود تاحال وزیراعظم نریندر مودی نے مذکورہ علاقوں کا دورہ تو کجا‘ کوئی بیان تک نہیں دیا۔ ریاست کے کم و بیش ستر ہزار لوگ اپنے گھر چھوڑ کر مہاجرین والی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مودی صاحب امریکہ میں بھی پاکستان مخالف بیانات کی بدولت اپنی قوم کا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں شاید علم نہیں کہ اس طرح کے بیانات پیٹ تو دور‘ دماغ بھی نہیں بھر سکتے۔ دماغ بھرنے کی اصطلاح آپ کو عجیب نہ لگے‘ اس لیے وضاحت کردیتے ہیں کہ اگر کسی بات میں کوئی دم نہ ہو‘ کوئی منطق نہ ہو تو اس کو ماننا تو دور کی بات‘ کوئی اس کو پورا سننے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ پاکستان مخالف باتیں بھلا منی پور جیسی ریاست کے لوگوں کو کیسے بھا سکتی ہیں جو باہم لڑائی اور دہشت گردی کے ماحول سے دوچار ہیں۔ چند روز قبل کے ایمبولینس واقعے‘ جس میں ایک بچے کو اس کی ماں اور ایک دیگر فرد کے ساتھ ایمبولینس میں جلا کر راکھ کر دیا گیا تھا‘ کی وجہ سے بھارت میں بہت واویلا ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ مودی کے دورۂ امریکہ کے دوران ہی سابق امریکی صدر اوباما نے بیان دیا ہے کہ بھارت نسلی فسادات کی وجہ سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔براک اوباما نے اب پھر مودی کے دورۂ امریکہ پر بھارت میں اقلیتوں کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں