بات چل رہی تھی کہ اب نہ تو قیمتی زرعی زمین، نہ معدنیات سے مالا مال علاقے اور نہ ہی اس طرح کی دیگر وجوہات‘ اب جنگیں صرف مخالف کو سر نگوں کرنے کے لیے لڑی جارہی ہیں۔ جنگوں میں پہلے مخالف کی فوج اور لشکر کو مارا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ عام شہری یا سویلینز بھی جنگوں کا لقمہ بننے لگے اور دوسری عالمی جنگ میں بعض ممالک کے مقتول سویلینز کی تعداد فوجیوں سے بھی زیادہ تھی۔ اس کے بعد سرد جنگ میں سویلینز پہلی دفعہ باضابطہ طور پر تربیت یافتہ فوجوں کے خلاف لڑنا شروع ہوئے۔ اس کی دو بڑی مثالیں ویتنام کی بیس سالہ جنگ اور افغانستان میں روس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہیں جن میں صرف سویلینز ہی لڑے تھے۔ افغانستان پر امریکہ کے حالیہ جنگی قبضے میں بھی بیس سال تک افغان شہری ہی جنگ لڑتے رہے تھے۔ اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ فوج کی جگہ عام شہری جنگ کا نشانہ بنے تو اس کے بعد پانچویں نسل کی جنگ یعنی ففتھ جنریشن وار فیئر نے جنم لیا جس میں حیران کن طور پر فوجوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ صرف سویلینز کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اس پانچویں نسل کی جنگ کا ایک حربہ یہ ہے کہ کوئی حملہ یا اعلانِ جنگ کیے بغیر مخالف ملک‘ جو کسی بھی وجہ سے آپ کو ناپسند ہے‘ کے خلاف جنگ شروع کر دی جائے۔ اب تک یہ جنگ مسلم دنیا کے خلاف لڑی گئی۔ مغرب نے تہذیبوں کے تصادم کا خود ساختہ نظریہ پیش کر کے مسلم ممالک کی تہذیبوں کو کرش (Crush) اور کریش (Crash) کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ تیس سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا۔ اب اس میں کچھ کمی ضرور آئی ہے لیکن ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
جسم نئے طریقے سے میدانِ جنگ بنے
پرانے دور میں بھی جسم ہی میدانِ جنگ تھے کہ جنگ میں لوگ مارے جاتے تھے۔ لیکن جب عام لوگوں اور شہری آبادی کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا تو انسانی جسم کا جو حصہ ٹارگٹ کیا گیا وہ دماغ تھا۔ مطلب اب سوچ اور نظریات کی جنگیں شروع ہو گئیں۔ سرد جنگ اس کی واضح مثال ہے جس میں سرخ اور سبز یعنی اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ شروع ہوئی۔ اس ذہنی کشمکش میں عام لوگ ہی ٹارگٹ تھے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے نظریات بدل کر ملکوں میں اشتراکی انقلاب برپا کیے جائیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹ دیا جائے۔ یہ سب سوویت یونین یعنی روس کی طرف سے شروع کیا گیا کیونکہ اسی ملک میں پہلا اشتراکی انقلاب آیا تھا اور یہ ملک دنیا کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا۔ اس جنگی طرز کی ذہنی کشمکش میں ہر ممکن حربے استعمال کیے گئے۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں مغربی دنیا‘ سوائے چند مشرقی یورپی ملکوں کے‘ مکمل طور پر محفوظ رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے تعلیمی نصاب اور میڈیا کی پروجیکشن سمیت اپنے شہریوں کی کڑی جاسوسی کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص ذاتی طور پر اشتراکیت سے متاثر نہ ہو۔ کئی واقعات ایسے بھی ملتے ہیں کہ عام شہریوں میں میاں بیوی بھی ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے تھے کہ کہیں ان کا پارٹنر اشتراکیت کا حامی تو نہیں ہو گیا۔ ذہنوں کی جنگ کی یہ ایک عجیب اور انوکھی مثال ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک میں‘ جہاں امریکہ نے اشتراکیت کا راستہ محض روکا ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر بند کر دیاتھا‘ وہاں اس جنگ کو مذہب کے نام پر لڑا گیا اور مسلم ملکوں میں اس کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا کر انتہائی کامیابی سے برتری حاصل کی گئی۔ ہر دو نظریات میں گہری خلیج پیدا کرنے کے لیے امریکہ نے مسلم دنیا کے حکمرانوں اور دائیں بازو کی جماعتوں سے مدد لی۔ اسی وجہ سے سرد جنگ میں پوری کی پوری مسلم دنیا نہ صرف امریکہ کے ساتھ تھی بلکہ اشتراکیت کی مخالفت میں نفرت کی حدوں تک پہنچ گئی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں اشتراکیت کے خلاف فنڈنگ میں صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ کئی مسلم ممالک بھی شامل تھے۔ اشتراکیت کے حامیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا‘ یہ آپ فیض احمد فیضؔ جیسے شاعر کے کلام اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اشتراکیت کے حق میں لکھنے یا بولنے والوں کو کس کس طرح سے روکا جاتا تھا۔ دوسری طرف روس نے اس عظیم شاعر کو لینن ایوارڈ سے نوازا تھا۔ امریکہ سرد جنگ میں کسی بھی ڈکٹیٹر کو قبول کرنے اور اس کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا تھا‘ بس اس کا سوویت مخالف ہونا ضروری ہوتا تھا۔
اسی حوالے سے ایک واقعہ ملاحظہ ہو کہ ایک پروفیسر صاحب سے کسی نے پوچھا کہ سیاسیات کے امتحانات ہونے والے ہیں‘ کچھ ایسے موضوعات بتا دیں کہ امتحانی تیاری مضبوط ہو جائے( عرف عام میں اس کو گیس کہتے ہیں)۔ پروفیسر صاحب نے طالب علم سے کہا کہ سب سے مشکل مضمون سیاسی نظریات یا تھیوری کا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرقی اور مغربی سیاسی نظریات کے دو مختلف پرچے ہوتے ہیں‘ اس لیے مشرقی نظریات میں علامہ اقبال اور ابن خلدون کو ہر حال میں مکمل تفصیل سے پڑھیں کیونکہ ان دونوں کے سیاسی نظریات سے متعلق سوالات ضرور آتے ہیں، جبکہ مغربی افکار میں اہلِ یونا ن کے مفکروں کے علاوہ آپ نے کارل مارکس کو ضرور پڑھنا ہے کیونکہ کارل مارکس کو ہی اشتراکیت کا بانی مانا جاتا ہے۔ اگلے دن اس طالب علم نے پروفیسر صاحب کو فون کر کے شکوہ کیا کہ آپ نے مغربی تھیوری میں کارل مارکس پر سب سے زیادہ زور دیا تھا لیکن میں نے بازار سے جو کتاب خریدی ہے‘ اس میں تو کارل مارکس کا ذکر تک نہیں۔ یاد رہے کہ یہ 1990ء کی دہائی کا واقعہ ہے جب سوویت یونین ابھی شکست و ریخت کا شکار تھا اور پاکستان میں اشتراکیت کی مخالفت کی شدت ابھی باقی تھی۔ پروفیسر صاحب نے طالبعلم کو مذکورہ کتاب کے ہمراہ ملاقات کیلئے بلا لیا۔ جب اس کتاب کی جانچ کی گئی تو پتا چلا کہ کتاب کے ابواب کے عنوانات میں کوئی غلطی نہیں بلکہ کتاب کے مصنف نے ازخود کارل کارکس کو اس کتاب سے حذف کر دیا تھا۔ اب نصاب کو بغور دیکھا گیا اور گزشتہ سال کے امتحانی پرچوں کو بھی‘ تو ظاہر ہے کہ ان میں کارل مارکس کا ذکر اور سوال موجود تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ کتاب کے مصنف پروفیسر صاحب ایک دائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا انہوں نے اپنی شدتِ مخالفت کی وجہ سے اشتراکی نظریات کو اس قابل ہی نہ سمجھا کہ اسے اپنی کتاب میں شامل کیا جائے۔ اس حقیقی واقعے سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ سرد جنگ‘ جو نظریات کی جنگ تھی‘ کس قدر گہری اور وسیع تھی
مارو مت لیکن زندگی چھین لو
اس وقت پوری دنیا میں اسی طرز کی ایک معاشی جنگ جاری ہے لیکن بد قسمتی سے جس ملک پہ یہ جنگ مکمل طور پر حاوی ہو چکی ہے وہ ہمارا ملک پاکستان ہے۔ پاکستان اس وقت چین اور امریکہ کی سرد جنگ کا ایک بڑا میدان بنا ہوا ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں‘ بھارت بھی اس جنگ میں پوری طرح سرگرم ہے۔ پاکستان اس وقت مہنگائی کے ایسے طوفانوں اور ایسے معاشی بھنور میں گھر چکا ہے جو امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے پیدا کردہ ہیں۔ صرف دال روٹی کی شکل میں بھی خوراک پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ بجلی کی قیمت اس وقت پوری دنیا سے زیادہ ہے۔ یہ امریکی دبائو ہی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان ایران جیسے پڑوسی ملک سے سستا تیل نہیں خرید سکتا‘ اسی طرح گیس پائپ لائن بھی ایران سے پاکستان تک نہیں آنے دی جا رہی۔ آپ اگر مجموعی طور پر اس معاشی جنگ کا احوال دیکھیں تو پاکستان کو عالمی و علاقائی طاقتوں نے یوکرین سے زیادہ نقصان پہنچا یا ہے۔ ان حالات میں لوگوں کی زندگی تک چھن چکی ہے‘ لازمی طور پر اس سے ذہنی انتشار اور ہیجان عروج پر ہے۔ اسی صورتحال کو ''ڈرینڈ برین‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ذہنی طور پر ختم کر دینا۔ (جاری)