''اس جنگ کا نتیجہ پتا نہیں کیا نکلے گا ‘‘۔ یہ بات غزہ کی اسرائیل کے ساتھ جنگ سے متعلق نہیں کہی جا سکتی کیونکہ اس کا نتیجہ اس حد تک نکل چکاہے کہ اب اسرائیل کو کچھ نہ کچھ تو دینا ہی پڑے گا اور فلسطین کو اب کچھ نہ کچھ مل کر ہی رہے گا۔ اس بات کو انگریزی زبان میں ایک فلسفے کے طور پر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ something has to be given۔ اگلی اہم بات یہ ہے کہ حماس کے اسرائیل پر حملے کی خبر سن کر پوری دنیا کو بہت زیادہ حیرانی ہوئی کیونکہ اسرائیل کو امریکہ کے بعد دوسرا مضبوط ترین ملک سمجھا جاتا ہے بلکہ اب یہ کہنا پڑے گا کہ مضبوط سمجھا جاتا تھا۔ اس سے پہلے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو بھی یقین کرنے میں دشواری ہوئی تھی کیونکہ یوکرین پر حملے کو مغرب بالخصوص امریکہ پر حملہ گردانا جا رہا تھا مگر روس یہ کر گزرا۔ اسرائیل کو تو ایک امریکی ریاست ہی مانا جاتا ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی عالمی حکمرانی یا نئے ورلڈ آرڈر کی سرد جنگ میں امریکہ کو دوسرا بڑا جھٹکا لگ چکا ہے۔ اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب نیوز چینل الجزیرہ پر ایک تجزیہ کار نے کہا کہ یہ حملہ ایک ہالی وُڈ فلم کی طرح ہے۔ ایسے مناظر دیکھنے اور ایسی خبریں سننے کو ملی ہیں کہ لگتا ہے کہ کوئی ہالی وُڈ ایکشن فلم دیکھ رہے ہیں۔
فلسطینیوں نے کیا حاصل کیا؟
جنگ کے شروع ہوتے ہی فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملے میں اسرائیل کے بہت سارے فوجی غزہ میں جنگی قیدی کے طور پر قید ہو چکے ہیں۔ اس جنگ کو فلسطین کے ایک مبصر نے کچھ یوں بیان کیا کہ اس سے پہلے فلسطین والے اپنے اوپر ہونے والے حملوں پر صرف ری ایکشن دیا جبکہ پہلی دفعہ انہوں نے ایکشن لیا ہے اس لیے وہ اس کو ''کائونٹر اٹیک‘‘ مانتے ہیں۔ ان صاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے اپنے اوپر مسلط کردہ جنگ کا کئی دہائیوں کے بعد جواب دیا ہے۔ اس جنگ کی میڈیا کوریج‘ جو ہر ممکن طریقے سے جاری ہے‘ کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ پورے زور وشور سے نہ صرف دوبارہ زندہ ہو گیا ہے بلکہ اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ یہاں غزہ والوں نے ایک کمال کا کام یہ کیا کہ انہوں نے گولیوں سے شوٹ کرنے کے بجائے فون کے کیمروں کی مدد سے زیادہ شوٹنگ کی ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو خدشہ ہو گا کہ ماضی میں عالمی میڈیا پر فلسطین پر آئے روز ہونے والے جنگی حملوں کو جس طرح نظر انداز کر دیا جاتا تھا، کہیں اس جنگ کو بھی نظر انداز نہ کر دیا جائے، اسی لیے انہوں نے اپنے طور پر اس جنگ کی بھرپور کوریج کی۔ دوسری طرف ان کو یہ خدشہ بھی ہو گا کہیں عالمی میڈیا‘ جس میں اسرائیلی اثر و رسوخ ڈھکا چھپا نہیں ہے‘ ان کے مخالف پروپیگنڈا نہ شروع کر دے‘ اسی لیے اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر ہونے والے فضائی حملوں کی بھی بھرپور کوریج کی جا رہی ہے۔ اگلی جیت جو اہلِ غزہ کو ملی ہے وہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں۔ ایک مقامی لیڈر کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کو بیس سال سے زائد اسرائیل کی جیل میں گزارنا پڑے تھے۔ جب قیدیوں کا تبادلہ ہو گا تو دنیا کو پہلی دفعہ یہ پتا چلے گا کہ کتنے ہزار فلسطینی اسرائیل کی جیلوں میں قید ہیں اور کتنے عرصے سے قید ہیں۔ اس معاملے میں بھی فلسطین ہی کی جیت ہو گی۔ اس کے بعد جیت نہ سہی‘ ایک برتری فلسطین کو یوں مل سکتی ہے کہ جو عرب ممالک تیزی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے‘ اب اس سلسلے میں کچھ تعطل ضرور آئے گا۔ اس تعطل سے ایک اور بات واضح ہو رہی ہے کہ اب اسرائیل اور فلسطین میں جنگ بندی ہو بھی جائے اور اسرائیل کے عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات دوبارہ قائم ہونا شروع ہو جائیں تب بھی فلسطین کو کم از کم کچھ ایسا علاقہ ضرور مل جائے گا کہ جس کو وہ اپنی ریاست کہہ سکے اور لوگ اس میں محفوظ طریقے سے رہ سکیں۔ اس صورتحال کو ''Bargaining Power‘‘ کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ عرب ریاستوں نے اگر فلسطین کا مکمل ساتھ نہیں دیا تو بھی کم از کم یہ ضرور کہا ہے کہ اس مسئلے کا حل دو پُرامن ریاستوں کے قیام میں مضمر ہے، اس کے بغیر مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس جنگ میں فلسطین کی جو پوزیشن ہے‘ اس کو ایک مغربی ماہر نے ''Happy Upper Hand‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس سلسلے میں اگلی اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ سے پہلے اسرائیل کی طاقت کا خوف اور تاثر یہ تھا کہ اس کا کوئی بھی‘ کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مطلب اس پر حملے کا کوئی تصور تک نہیں پایا جاتا تھا۔ اب اس جنگ کے شروع ہونے کے بعد‘ جس میں کوئی باضابطہ آرمی اسرائیل کے خلاف نہیں لڑ رہی‘ اسرائیل کا ناقابلِ تسخیر یا ایسی طاقت ہونے کا تصور پاش پاش ہو گیا ہے جس پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا۔
امریکہ کے لیے ایک اور محاذ
اس جنگ سے پہلے امریکہ یوکرین جنگ کی وجہ سے بہت زیادہ بوجھ محسوس کر رہا تھا۔ ایک گزشتہ کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ امریکہ کو یوکرین کی مالی مدد کرنے میں اب مشکل پیش آ رہی ہے۔ امریکہ‘ جو پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا جنگی بجٹ والا ملک ہے‘ یہ سب کچھ اپنی عالمی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لیے کرتا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ ایشیائی اور مسلم ممالک کے اندر مختلف قسم کی تخریبی تحریکوں کے لیے بھی بھاری رقوم خرچ کرتا ہے۔ اس کا اندازہ امریکہ کے سینکڑوں فوجی اڈوں سے بھی کر سکتے ہیں جو پوری دنیا میں قائم ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کا قومی قرضہ پہلے ہی 33 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ اس کی کل سالانہ آمدن 24 ٹریلین ڈالر ہے۔ اس کے باوجود یوکرین کی طرح اس جنگ میں بھی امریکہ نے اسرائیل کی ہر ممکن مدد کا اعلان کیا ہے جبکہ ایک محاذ چین کی مخالفت میں تائیوان کی شکل میں بھی کھول رکھا ہے اور اہم امریکی عہدیدار تواتر سے تائیوان کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ بیک وقت اتنے سارے جنگی محاذ مہنگے ہی نہیں بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جنگ میں جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی‘ بس یہ ہوتا ہے کہ کم نقصان والا فاتح قرار پاتا ہے‘ اس جنگ میں بھی یہی ہو گا؛ تاہم ایک بات عیاں ہے کہ امریکہ عالمی جنگوں میں اس قدر الجھ چکا ہے کہ ممکن ہے کہ کسی مقام پر اس کو بھی کچھ نہ کچھ دینا پڑے۔ اس کی ایک قیمت عالمی حکمرانی سے محرومی بھی ہو سکتی ہے۔ بات کو آگے بڑھائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی کشمکش میں مغرب کو بڑا دھچکا لگ چکا ہے۔ عالمی میڈیا پر بات کرتے ہوئے ایک فلسطینی لیڈر نے بہت بامعنی بات کی کہ اس جنگ میں عالمی برادری کی خاموشی کا ان کو پہلے سے اندازہ تھا۔ ان کے تبصرے کے مطابق دنیا میں عالمی برادری نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ دنیا صرف دو حصوں میں تقسیم ہے؛ ایک مغرب کا بلاک ہے اور باقی ساری دنیا ایک علیحدہ قسم کی مخلوق ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی دنیا کی حیثیت ''West vs Rest‘‘ کی ہے یعنی مغرب بمقابلہ باقی دنیا۔ مغربی ممالک‘ جنہوں نے فلسطین پر سات دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی بربریت اور ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی‘ اب وہ کس طرح اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں گے؟
رپورٹرز کی جرأت کو سلام!
ایک عرب نشریاتی ادارے کی خاتون رپورٹر اس جنگ کی براہِ راست کوریج کر رہی تھی تو اس کے سامنے والی بلڈنگ پر میزائلوں سے حملہ ہوا، اس کی آواز یکدم دب اور سہم گئی مگر مختصر سی بریک کے بعد جب ہوائی حملے کا دھواں قدرے کم ہوا تویمنیٰ السید نامی وہ رپورٹر دوبارہ لائن پر آئی اور اس جنگ کی براہِ راست رپورٹنگ کرنے لگی۔ ان براہِ راست مناظر نے یہ بھی ثابت کیا کہ میڈیا کی شکل میں سافٹ پاور کس طرح سے جنگ کی تباہی کو عیاں کر سکتی ہے۔ وار فیلڈ میں موجود بہادر رپورٹرز کی جرأت کو بھی سلام ہے۔