''من النھر الی البحر‘‘ ایک عربی نعرہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ دریائے اُردن سے لے کر بحیرہ روم تک فلسطین کو آزاد کرو۔ یہ نعرہ کئی دہائیوں سے فلسطین کی تحریک آزادی میں ایک مطالبے کے طور پر بلند کیا جاتا ہے۔ یہاں النھر سے مراد دریائے اُردن ہے جو فلسطین کی پرانی ریاست کو ہمسایہ ممالک اُردن اور شام سے جدا کرتا جبکہ البحر سے مراد مغرب کی طرف بحیرۂ روم (Mediterranean Sea) ہے‘ جہاں فلسطین کی زمینی سرحد ختم ہوتی۔ فلسطینی تحریک کی حمایت میں مسلم ممالک ہی شامل نہیں بلکہ ان سے بھی بڑے اور زیادہ مظاہرے اب یورپی ممالک میں ہو رہے ہیں اور وہاں بھی یہ نعرہ بھرپور قوت سے لگایا جا رہا ہے اور ان ملکوں میں اسے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس نعرے کے الفاظ یورپ سمیت دنیا کے تمام ملکوں میں اب ایک جنگی ترانے کی طرح گونج رہے ہیں۔ اس نعرے کا انگلش ترجمہ اس کو مزید زوردار بنا دیتا ہے۔ یہ ورژن اس کو زیادہ واضح اور آسان بھی بناتا ہے۔ یہ کچھ اس طرح ہے: From the river to the sea; let Palestine freeََ۔ یہ نعرہ اب برطانیہ اور امریکہ سمیت ان تمام ممالک میں بھی مقبول ہو رہا ہے جہاں انگلش بخوبی سمجھی جاتی ہے۔ اس بات کو زیادہ اہمیت اس لیے بھی دینا پڑتی ہے کہ فلسطین کے حق میں عالمی رائے عامہ نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یورپی ملکوں میں اب اسرائیل مخالف ملین مارچ ہو رہے ہیں، یعنی دسیوں لاکھ لوگ ان مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر ہونیوالے تبصرے فلسطین کی حمایت کی کمپین کو مزید بڑھا دیتے ہیں‘ یہ مظاہرے بھلے حکومتوں کی پالیسیاں نہ بدل سکیں مگر کم از کم ان کے بیانات کو محتاط اور اسرائیل کے حق میں جانے سے ضرور روک رہے ہیں۔ عالمی پالیسیاں تبدیل ہوں یا نہ ہوں‘ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین بھرپور انداز سے اب ایک عالمی مسئلے کے طور پر ایک مضبوط کیس بن چکا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے ایک اور پہلو بھی بہت قابلِ غور ہے، وہ یہ کہ یوکرین میں جاری جنگ سے اب دنیا کی نظریں ہٹ گئی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان حالات میں روس کی عالمی ساکھ اور پوزیشن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
River to Sea let Palestine Free
اس نعرے کے الفاظ کی طرف آئیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ الفاظ اب سات سمندروں میں گونج رہے ہیں، مطلب اس جنگ کا دھواں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دنیا کو لپیٹ میں لینے سے مراد یہ ہے کہ پوری دنیا کی بڑی طاقتیں اس جنگ میں کسی نہ کسی طور شامل ہو چکی ہیں۔ اگر امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں تو دوسری طرف روس اور چین واضح طور پر فلسطین کا غیر عسکری ساتھ دے رہے ہیں۔ اب تک کی صورتحال نے سب سے پہلے ''گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب پر کاری ضرب لگائی ہے اور اس خواب کو یکسر توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح ممکنہ طور پر مزید مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل بھی ریورس ہو گیا ہے۔ ان تمام حالات میں جس ملک کی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے وہ روس ہے، جبکہ اس کے بالکل الٹ جس ملک کی مشکلات اور خدشات میں اضافہ اور توقعات کم ہو رہی ہیں‘ وہ امریکہ ہے۔ مذکورہ نعرے کے الفاظ کی گہرائی میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ صرف فلسطین نہیں بلکہ ایشیا کی آزادی کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ایشیا کی بات اس لیے آ گئی کہ اس براعظم کے اکثریتی علاقوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں امریکی استعمار اور سامراج کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، اور امریکہ دور رہ کر یہیں سے اس پورے خطے کو کنٹرول کرتا ہے۔
امریکہ کیلئے اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں کئی طرح کے بحران پیدا ہو چکے ہیں۔ اگر بات کریں عراق کی‘ جو اس جنگ زدہ خطے میں واقع ہے تو وہاں پر موجود امریکی افواج کی حفاظت کیلئے اب خصوصی انتظام کیا جا رہا ہے۔ جب سے حماس‘ اسرائیل جنگ شروع ہوئی ہے‘ امریکی دستوں پر عراق اور شام میں متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ اب ان دستوں کو محتاط رہنے کی خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اسرائیل اور اس کے لوگوں کے خلاف ابھرتے عالمی جذبات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز روس کے علاقے داغستان کے ایک ایئر پورٹ پر اسرائیلیوں کے ایک جہاز کے لینڈ کرنے کی اطلاع ملنے پر مقامی لوگوں نے ایئر پورٹ کا گھیرائو کر لیا اور اس کی حفاظتی باڑ کو بھی توڑ دیا۔ اس صورتحال میں جہاز میں موجود اسرائیلی جہاز سے باہر نہیں نکلے تاکہ محفوظ رہ سکیں۔ عوام کا غصہ اس قدر زیادہ تھا کہ انہوں نے ایئرپورٹ کے قریب سے گزرنے والی کاروں کو بھی روک روک کر چیک کیا کہ کہیں ان میں اسرائیلی تو نہیں جا رہے۔ اس موقع پر اسرائیل کی حکومت نے روس سے خصوصی درخواست کی کہ وہ اس کے شہریوں کی حفاظت کیلئے اقدامات کرے۔ یہ سب کچھ یقینا غیر معمولی ہے۔ اس وقت اسرائیل کے ساتھ جس ملک کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ امریکہ ہے۔ جنگوں سے متعلق اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی ایک کی موت ہی دوسرے کی زندگی بنتی ہے۔
پیدائش سے پہلے موت کا اعلان
فلسطین میں ایک ایسے بچے کی بھی اسرائیلی بمباری کی وجہ سے موت ہو گئی جو صرف ایک دن پہلے پیدا ہواتھا۔ اس کا تو ابھی پیدائشی سرٹیفکیٹ بھی نہیں بنا تھا۔ اب چونکہ اس کی موت ہو گئی تو اس کا سیدھا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہی جاری ہوا۔ اس لیے میڈیا میں یہ خبر بنی کہ پیدائش سے پہلے موت کا اعلان ہو گیا۔ تھوڑا غور کریں تو علم ہوتا ہے کہ دنیا کے بہت سارے معاملات اور حالات اب ایسے ہو چکے ہیں کہ آنے والی نسلوں کیلئے کچھ بھی نہیں بچا۔ آپ جنوبی ایشیا پر چھا جانے والی زہریلی دھند یعنی سموگ ہی کی مثال لے لیں۔ یہ زہریلی دھند دو ارب کی آبادی والے خطے کے مکینوں کو سانس لینے کیلئے صاف ہوا بھی مہیا نہیں کر سکتی۔ اسی تناظر میں غزہ کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ وہاں لوگ ایک طرف تو بمباری کی وجہ سے یکلخت جان سے جا رہے ہیں تو دوسری طرف خوراک اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے موت کی طرف رینگ رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے لوگ بھی گندی ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے بدستور موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا کہ اس علاقے کے لوگوں کی اوسط عمر پانچ سے سات سال کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جو بات اس صورتحال کو مزید کشیدہ کرتی ہے وہ یہ کہ اب بھی اس علاقے میں سموگ کے خاتمے کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی یا کسی پلان پر مربوط اور جنگی بنیادوں پر عملدر آمد شروع نہیں ہوا۔
متاثرہ علاقوں میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں اب بھی سڑکوں پر رواں ہیں۔ سڑکوں اور راستوں پر مٹی اور گندگی اسی طرح موجود ہے جو ہوا چلنے یا پھر ٹریفک کے گزرنے کیساتھ فضا میں شامل ہو کر سموگ کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ عوامی سطح پر بھی کوئی ایسی مہم شروع نہیں کی گئی کہ کس طرح عوام اس سموگ کو ختم کرنے کی مہم میں شریک ہو سکتے ہیں اور کس طرح اس قدرتی آفت سے اُسی طرح مل کر جنگ لڑ سکتے ہیں جیسے عوام جنگوں میں حکومتوں کے شانہ بشانہ لڑتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس علاقے کے عوام سموگ کے سامنے اسی طرح بے بس ہیں جس طرح بارود کے سامنے بے بس شہری۔ زیادہ سے زیادہ اب تک جو حکمتِ عملی سامنے آئی ہے وہ یہ کہ ایک دن کی مزید ہفتہ وار چھٹی کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح سموگ پر قابو کا تو پتا نہیں‘ لیکن عوام کی معاشی سکت پر بوجھ ضرور بڑھ جائے گا۔ حکومتیں اس حوالے سے بھی زبانی جمع خرچ میں مشغول ہیں کہ فلاں فلاں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک مضحکہ خیز مثال یہ ہے کہ روز مرہ بنیادوں پر سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے والوں کے لباس اور ان کی ٹرالیوں پر اب یہ لکھ دیا گیا ہے کہ یہ ''اینٹی سموگ مہم‘‘ کے کارکن ہیں۔
اب ہر کوئی جنگ لڑ رہا ہے
اب ممالک کو صرف سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی جنگوں کا سامنا ہے۔ لوگوں کے اندر اضطراب‘ بے چینی‘ غصہ اور ذہنی ہیجان بڑھ رہا ہے۔ یہ سب کچھ صرف غریب ممالک ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور امیر ملکوں میں بھی ہو رہا ہے۔ لوگ ایک جنگ کی سی تیز زندگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب ذہنی سکون کو ایک عیاشی یا تعیش کا نام دیا جارہا ہے۔ اب یہ بات کھلم کھلا تسلیم کی جا رہی ہے کہ جو شخص بھی ذہنی طور پر پُر سکون ہے وہ بجا طور پر ایک لگژری کا مزہ لے رہا ہے۔ امریکہ ہی کی مثال لے لیں جہاں سے یہ خبریں آئے روز سننے کو ملتی رہتی ہیں کہ وہاں پر لوگ اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک شخص نے تین مختلف مقامات پر فائرنگ کرکے 22 لوگوں کی جان لے لی اور پچاس سے زیادہ لوگوں کو زخمی کر دیا۔ امریکہ کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ خود کو اسلحہ سے ہلاک کرنے اور دوسروں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد امریکہ میں سالانہ چالیس ہزار سے بھی بڑھ چکی ہے۔ گزشتہ چار سال کی ہلاکتوں کا شمار کریں تو یہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہیں اور یقینا یہ کسی اندرونی جنگ سے کم صورتحال نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری و معاشی طاقت‘ امریکہ کی بات ہو رہی ہے۔