مصنوعی بارش کا اصل احسان

کسی بھی ملک کی ترقی میں صحافت کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتی ہے‘ اس کا ایک نمونہ آج کل آپ مصنوعی بارش کروانے کے لیے پنجاب حکومت کے اعلان کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ تین سال قبل 'روزنامہ دنیا‘ کے انہی صفحات پر حکومت سمیت عام لوگوں کو وہ اطلاعات اور معلومات دی گئی تھیں جس میں پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور طلبہ کی ایک ٹیم نے مصنوعی بارش کے لیے ایک تجربہ کیا تھا جس کا بنیادی مقصد حکومتی ایوانوں تک یہ بات پہنچانا تھی کہ سموگ سے نجات کے لیے مصنوعی بارش سب سے تیز اور مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ تین سال کے بعد اب نگران پنجاب حکومت نے ایک پریس کانفرنس میں مصنوعی بارش کروانے کا اعلان کرکے لوگوں کو ایک بڑی امید بھری خبر دے دی ہے۔ اس سلسلے میں نوجوان وزیرِ ماحولیات بلال افضل نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں پنجاب یونورسٹی‘ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر صاحبان نے مصنوعی بارش کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ وزیر صاحب آلودگی کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش کروانے سمیت ہر ممکن اقدام کے لیے کافی پُرعزم دکھائی دیے۔ اس سلسلے میں اگلی بریفنگ بروز سوموار چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی دی جائے گی۔
چین کی صلاح اور تعاون
اس میٹنگ میں مصنوعی بارش کا سب سے زیادہ تجربہ رکھنے والے ملک چین سے صلاح اور تعاون کو اپنے ہاں مصنوعی بارش کے لیے ایک تیز ترین طریقہ قرار دیا گیا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ وزیر صاحب نے اس مقصد کے لیے بلاتاخیر چینی قونصلیٹ سے رابطہ قائم کیا جس پر چینی قونصلیٹ کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی۔ اب چین کس طرح پنجاب حکومت کی مدد کرتا ہے‘ اس کا انحصار نومبر کے آخری دنوں میں جو مصنوعی بارشوں کے لیے موزوں حالات پیدا ہو رہے ہیں‘ اس پر ہو گا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مصنوعی بارش کے لیے نومبر کے آخری دنوں کا ہی کیوں انتخاب کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان دنوں میں بادل تو ہر صورت بنیں گے لیکن ان کے برسنے کا امکان 25سے 30فیصد ہی ہے۔ اس انسانی ایجاد کا یہی کمال ہے کہ جو بادل بن جائیں ان کو نمک‘ خشک برف کے چھڑکاؤ یا پھر بجلی کے منفی کرنٹ کے جھٹکوں سے برسنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس مقصد کے لیے ایک طریقہ بادلوں کو زمین سے نمک اٹھائے ہوئے راکٹوں سے نشانہ بنانا بھی ہے لیکن زیادہ رقبے پر بارش کے لیے یہ طریقہ کارآمد نہیں جبکہ ہمیں تو پورے لاہور شہر پر بارش برسانا مقصود ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارت بھی دہلی شہر میں مصنوعی بارش کروانے کا سوچ رہا ہے۔ یہ بات اس لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ بھارت کو دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس دنیا کے سو آلودہ ترین شہروں میں بھارت کے تریسٹھ شہر شامل تھے۔ رواں برس بھی بھارت کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ دہلی کو مسلسل پانچ سال سے دنیا کا آلودہ ترین دارالحکومت قرار دیا جا رہا ہے۔وہاں سے چلنے والی ہوا کا رُخ جب لاہور کی طرف ہوتا ہے تو لاہور میں آلودگی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
واپس چین کی بات کریں تو یہ ملک مصنوعی بارش کے لیے دنیا میں سب سے بڑے سسٹم کا حامل ملک ہے جسے یہ اپنے دریاؤں میں پانی کی روانی برقرار رکھنے اور زیر زمین پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چین کے لیے یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ وہ گوادرجیسے علاقوں میں جہاں پانی کی قلت ہے اور جہاں چین اپنی معاشی سرگرمیاں بڑھا رہاہے‘وہاں بھی اس ٹیکنالوجی یا طریقہ کار پر عمل کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایک اس امر کا ذکر بھی اس طرح ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے ہی مصنوعی بارشیں کرواتے ہیں‘ جبکہ پاکستان فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے بارش برسانے والا پہلا ملک بننے جا رہا ہے۔ اب اس کے بعد دیگر ممالک بھی اپنے ہاں فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے مصنوعی بارشوں کا استعمال کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی کے شکار شہر زیادہ تر ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں ہی ہیں۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سب سے زیادہ بھارتی شہر شامل ہیں یعنی بھارت دنیا کا آلودہ ترین ملک ہے۔ بھارت نے ویسے تو مصنوعی بارش کے لیے 80ء کی دہائی سے ایک سٹیشن یا مرکز بھی قائم کر رکھا ہے جہاں یہ تجربہ کیا بھی گیا تھا۔ یہ مرکز بھارتی ریاست تامل ناڈو میں قائم ہے جوکہ بھارت کے جنوب میں واقع ہے جس کا سب سے بڑا شہر مدراس ہے۔ ابھی تک بھارت اس مرکز کا استعمال پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے لیکن اس کی زیادہ ضرورت اب سموگ جیسی مہلک آلودگی ختم کرنے کے لیے ہے۔ دیکھیں بھارت سرکار سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش کروانے کا کب سوچتی ہے اور پتہ نہیں سوچتی بھی ہے کہ نہیں۔ فی الحال تو بھارت کیلئے ورلڈ کپ کا فائنل ہی سب کچھ ہے۔ امید ہے کہ کرکٹ کپ کے فائنل کے بعد بھارت آلودگی میں بھی اپنی رینکنگ بہتر کرنے کا سوچے گا۔
ہم خود کیا کر سکتے ہیں
پاکستان بھی ان ملکوں کی فہرست میں پہلے سے شامل ہے جو مصنوعی بارش کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ محکمۂ موسمیات کی زیر نگرانی یہ تجربہ بیس سال پہلے کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جو جہاز استعمال ہوا تھا‘ وہ اب بھی موجود ہے اور اس کیساتھ وہ ٹینکی‘ جسے کِٹ کہا جاتا ہے‘ بھی ویسے ہی نصب ہے۔ اس جہاز کو آخری دفعہ دو یا تین سال پہلے ٹڈی دَل کے خاتمے کی سپرے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ہاں ایک یہ دقت موجود ہے کہ یہ جہاز لاہور کے والٹن ایئر پورٹ پر کھڑا ہے جو کہ اب فعال نہیں رہا‘ لیکن چونکہ یہ ایک چھوٹے سائز کا جہاز ہے تو اس کو یہاں سے لاہور کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ یا پھر پرانے ایئر پورٹ پر لے جا کر اڑایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مقصد کے لیے ایئر فورس سے بھی مدد لی جا سکتی ہے جن کے غیر جنگی جہاز‘ جو ٹریننگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ اس مقصد کے لیے کام میں لائے جا سکتے ہیں۔ یہ جہاز پریڈ کے دوران اپنے ماہرانہ کرتبوں کا بھی مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
مصنوعی بارش کروانے کے ضمن میں جو بات سب سے زیادہ اہم تھی وہ حکومتی ترجیح اور فیصلہ تھا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب اب لاہور میں مصنوعی بارش کروانے کا فیصلہ کر چکے ہیں‘ ان کی ٹیم کے وزرا اور چیف سیکرٹری پنجاب بھی اس مقصد کے لیے متحرک ہیں۔ اس لیے اب ایک اچھی خبر کی امید بندھ چکی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں ضرورت کے مطابق بارشیں برسانے کے لیے بھی ایک سسٹم لگانے کا سوچا جا رہا ہے۔ یہ سسٹم‘ جو لاہور جیسے پورے شہر پر بارش برسا سکتا ہے تقریباً پندرہ لاکھ ڈالر میں لگ سکتا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے تاروں کا ایک جال اور اونچے پول نما کھمبے لگائے جاتے ہیں۔ان تاروں میں صرف منفی چارج چھوڑا جاتا ہے۔ اس عمل سے بادل بنتے ہیں اور بارش برستی ہے۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت بھی کرتے چلیں کہ اگر اس سسٹم کے ذریعے صرف مثبت کرنٹ کو فضا میں چھوڑا جائے تو یہ بادلوں کو بننے سے روک بھی سکتا ہے۔ مطلب بارشوں سے بچنا ہو تو بھی اس ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے۔
رہا یہ سوال کہ کیا صرف ایک جہاز سے پورے لاہور شہر پر بارش برسائی جا سکتی ہے تو اس کا جواب ہے نہیں‘ صرف ایک جہاز یہ کام پورا نہیں کر سکتا‘ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ ایک عملی تجربہ ضرور ہو جائے گا۔ بارش برسانے کے لیے ایک اور اہم چیز موسم کی پیش گوئی ہوتی ہے جس کا ایک فعال محکمہ بہرحال کام کر رہا ہے۔ بادلوں پر صرف نمک کے چھڑکاؤ سے بارش برسانے کے لیے ضروری ہے کہ ہوا میں نمی کا تناسب ستر فیصد کے قریب ہو‘ ہوا کی رفتار مناسب ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بادل بھی زیادہ ہوں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بارش ہونے کا امکان قدرتی طور پر 50فیصد سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اگر بادل کم ہوں یعنی ان میں پانی کی مقدار کم ہو تو اس صورت میں خشک برف کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خشک برف کا درجہ حرارت منفی 80ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے۔ اس برف کو پاؤڈر میں تبدیل کرکے اس کا سپرے بادلوں پر کیا جاتا ہے۔ موسمیات کی زبان میں بات کریں تو بارش کے لیے بادلوں اور اس کے قریب ہوا کا درجہ حرارت منفی سات ڈگری سے کم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ اس بارش کا پانی کتنا صاف ہوتا ہے تو پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی بارش کا پانی اتنا صاف نہیں ہوتا کہ پینے کے کام آ سکے۔ ہاں اگر بجلی کے استعمال سے مصنوعی بارش کروائی جاتی ہے تو یہ پانی صاف ترین ہوگا۔ فی الحال مصنوعی بارش کا واحد مقصد فضائی آلودگی کو زمین پر بٹھانا ہے تاکہ عوام صاف ہوا میں سانس لے سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں