بھوکی روحیں بھٹکتی ضرور ہیں

کبھی زندگی کا نظام ایسا تھا کہ اس میں نہ تو کوئی نظام تھا اور نہ ہی زندگی۔ پوشاک اور خوراک نہ ہو تو انسان کو اپنی بقا کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اسے عرفِ عام میں بھوک کے مسائل کہتے ہیں۔ زندگی ایک سفر کی طرح ہوتی ہے جو سانسوں کی محتاج ہوتی ہے۔ سفر اچھا اور آسانی سے گزرے‘ اس کیلئے سامان کا بوجھ کم سے کم ہونا ناگزیر ہے۔ انسان نے زندگی کا آغاز جنگل سے کیا تو اس کو مکان اور پوشاک سے پہلے خوراک کی ضرورت تھی۔ یوں بھی کہہ لیں کہ مکان اور پوشاک بنانا ابھی ممکن نہیں تھا لہٰذا ضرورت صرف خوراک اور ایندھن تک محدود تھی۔ اس دور کے انسان کو بہت سے خطرات کا سامنا تھا۔ قدرتی آفات‘ جنگلی جانور یا پھرکوئی وبا یا ایسے فطری حالات‘ جن پر اس کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اس زمانے میں Fear of Food یعنی خوراک کا خوف دور کرنا ہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ اس کے بعد انسان نے زراعت اور کھیتی باڑی کا طریقہ دریافت کیا‘ لہٰذا اب اسے خوراک کے خوف سے کسی قدر نجات مل گئی۔ مزید یہ کہ اس نے خانہ بدوشوں کی طرح جگہ جگہ بھٹکنے کے بجائے ایک جگہ پر اپنا مسکن بھی بنا لیا اور جانوروں کی کھالوں سے اپنی پوشاک کا بندوبست بھی کر لیا تھا۔ یہ دور ایک لحاظ سے بہترین دور اور تاریخِ انسانی کا ایک اہم سنگِ میل تصور ہوتا ہے کیونکہ کچھ مزید ترقی کے نتیجے میں چھوٹے شہر بھی بننا شروع ہو گئے‘ جہاں مختلف شعبوں کا ظہور ہوا۔ اسی دوران ادویات بنانے والے بھی سامنے آگئے اور وباؤں کا خدشہ کسی قدر ٹل گیا۔ نفسیات دان ثابت کرتے ہیں کہ انسان بھوکے پیٹ تو خطرناک ہوتا ہی ہے لیکن اگر وہ ضرورت سے زیادہ کھا لے یعنی بسیار خوری کرنے لگے تو بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
کثرت ہو یا قلت‘ ذلت لازماً جنم لیتی ہے
خوف و فکر، حوصلہ و تسلی، اطمینان و خوشی اور عیاشی‘ یہ وہ مراحل ہیں جن سے انسان گزرتا آیا ہے۔ زندگی کا حسن ان تمام حالتوں یا مراحل میں ایک میزان پیدا کرنے میں مضمر ہے، لیکن انسان کو شروع ہی سے زیادہ سے زیادہ پانے کی لگن رہی ہے۔ اس چکر میں وہ ایسا گھسا کہ خود بھی ایک گھن چکر بن کر رہ گیا۔ اس گھن چکر میں انسان چلتا بھی ہے اور بھاگتا بھی ہے مگر فاصلہ ہے کہ طے نہیں ہوتا؛ البتہ تھکن ضرور ہو جاتی ہے۔ اگر سفر طے کرنے کی بات کریں تو آپ نے یہ بات مشاہدہ کی ہو گی کہ اگر آپ آہستہ سے مگر مسلسل چلتے رہیں تو اوّل تو سانس نہیں پھولے گا‘ دوسرا اگر رُکنا پڑے تو آسانی سے رکا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر‘ اگر کوئی ٹھوکر لگے تو چوٹ لگنے سے پہلے سنبھلا جا سکتا ہے۔ مگر جیسے جیسے آپ اپنی رفتار بڑھائیں گے تو مشکلات و پیچیدگیاں پیدا ہوتی جائیں گی۔ یہاں انسانی علوم کو یکسر بدل کر رکھ دینے والے سماجی، معاشی اور سیاسی سائنسدان کارل مارکس کا ایک نکتہ بیان کرنا پڑتا ہے کہ ''دنیا میں غربت کی وجہ وسائل کی عدم دستیابی نہیں بلکہ انتہائی قلیل آبادی کا انتہائی کثیر وسائل پر قابض ہونا ہے‘‘۔ دنیا میں آج جہاں بھی دیکھیں‘ کثرت اور قلت کا جھگڑا نظر آتا ہے‘ اسی طرح پسند اور ناپسند کا فرق‘ جو اَب محض فرق نہیں رہا بلکہ ایک تضاد بن چکا ہے۔ کارل مارکس کے ساتھ ایک اور مغربی مفکر کا قول بیان کر دیتے ہیں جس کا کہنا ہے کہ ''دنیا میں اتنی دولت (وسائل) موجود ہے کہ ہر شخص کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں لیکن دنیا میں اتنی دولت نہیں ہے کہ محض ایک لالچی انسان کی خواہشات پوری ہو سکیں‘‘۔ بات چل رہی ہے ضروریات کی‘ تو اس ضمن میں آرام دہ مکان‘ اچھی پوشاک اور اچھی صحت بخش خوراک کو ہی بنیادی انسانی ضرورت گردانا گیا ہے۔ ان تینوں چیزوں کا وافر اور اعلیٰ ترین معیار کا ہونا بھی اگر شمار کریں تو بات چل سکتی تھی لیکن یہاں معاملہ انسانی بقا سمیت تفریح و تعیش سے بھی آگے بڑھ چکا ہے بلکہ اب ایک اور طرف جا نکلا ہے جس کو ''اختیار‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا سادہ مطلب سیاست و حکومت ہے‘ جس کو امریکی زبان میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ سیاست کا مطلب ''Who gets what, when, and how‘‘ہے۔ یعنی اب سوال یہ ہے کہ کس کو کیا ملے گا، کیسے اور کب ملے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کتنا ملے گا۔ اس ''ملنے‘‘ میں وسائل کے ساتھ ساتھ اختیارات بھی شامل ہیں۔ اس میں ایک تیسری چیز بھی شامل کی جا سکتی ہے جسے معاشرے میں ملنے والا مقام (Prestige) کہا جاتا ہے۔ ان تینوں کو ملا کر ایک نیا تصور جو بیان کیا جاتا ہے اسے Purchase, power and prestigeکہا جاتا ہے۔ یہاں پرچیز سے مراد وہ قوتِ خرید یعنی وہ کرنسی ہے جس کی مدد سے انسان اپنی اشیائے ضروریات خرید سکے۔ پاور سے مراد وہ اختیار ہے جسے وہ بہتری یا برتری کیلئے استعمال کر سکے جبکہ 'پریسٹیج‘ سے مراد وہ عزت و تکریم ہے جس سے اس کی اَنا کی تسکین ہو سکے۔ آپ اس تیسرے پہلو کو تحفظ کا احساس بھی کہہ سکتے ہیں۔ جدید دنیا میں اس کو کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ہر شخص کے ساتھ رنگ‘ نسل‘ مذہب اور جنس کی تفریق کے بغیر برابری کا سلوک کیا جائے لیکن چٹان جتنی سخت حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں ہمیشہ کثرت اور قلت کی شکل ہی میں پائی جاتی ہیں۔
متضاد نہیں مختلف‘ کچھ نیا نہیں بہتر
آج کی دنیا میں تنوع کی وجہ سے ایک تناؤ آچکا ہے۔ بظاہر جو بھی کہا جائے لیکن اصل میں خیالات‘ افکار‘ سماج اور نفسیاتی طور پر لوگ ایک دوسرے سے مختلف نہیں بلکہ متضاد انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔ یہاں پھر لوگوں کی ایک قلیل تعداد باقی دنیا پر اپنے طرزِ زندگی کو نرم و سرد‘ دونوں طریقوں سے مسلط کیے ہوئے ہے۔ جنس تبدیل کرنے کا فلسفہ‘ جو عملی طور پر پیش ہو چکا ہے‘ آزادی کے نام پر خاندان کے بغیر بڑے ہوتے بچے‘ وہ لوگ جو شادی کے بندھن میں بندھے بغیر نسل بڑھا رہے ہیں‘ بوڑھے ماں باپ اولاد کی ایک جھلک کو ترس رہے ہیں‘ الغرض کچھ نیا کرنے کے چکر میں کچھ بہتر کرنا نظر انداز ہو چکا ہے۔ آپ کے سامنے صرف امریکہ کی ایک مثال رکھتے ہیں جہاں گزشتہ سال تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے خود کشی کی۔ یہ اس ملک کی بات ہو رہی ہے جو دنیا کا سب سے جدید‘ امیر اور مستحکم ملک تصور ہوتا ہے۔ یہ ملک دنیا میں جدید نظریات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ گزشتہ تین دہائیوں سے ایک معاشی ہی نہیں بلکہ سماجی طاقت کے طور پر بھی اسے صحیح اور غلط‘ اچھے یا برے کا فرق واضح کرنے والی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق‘ شخصی آزادی‘ ترقی‘ جمہوریت‘ حقوقِ نسواں کے نعروں کے ساتھ اپنے آپ کو ''Normative Power‘‘ کے طور پر منوانے کے چکر میں یہ ملک ایک اندرونی جنگ میں مبتلا ہو چکا ہے۔ آپ صرف سالانہ خود کشی کرنے والے لوگوں کی کل تعداد‘ جو تقریباً پچاس ہزار ہے‘ کو ہی لے لیں تو اس ملک کی طاقت کے تمام پیمانے اور زاویے فیل نظر آتے ہیں۔ یہ وہی ملک ہے جو پوری دنیا کے نظام کو ایک ورلڈ آرڈر کے طور پر چلا رہا ہے۔ اس کی ورلڈ آرڈر پر اتنی زیادہ توجہ اور طاقت مرکوز رہی ہے کہ اس کا اپنا اندرونی آرڈر‘ یعنی ترتیب مکمل طور پر ڈِس آرڈر ہو چکا ہے۔ اندرونی طور پر اس طرح کی صورتحال کو‘ جو بدستور خراب ہوتی اور بگڑتی جاتی ہے اور جس میں کوئی دھماکا یعنی شور سنائی نہیں دیتا لیکن نقصان جاری رہتا ہے‘ اس بغیر دھماکے والی صورتحال کو Implosion کہا جاتا ہے۔ اگر امریکہ کے سالانہ جنگی بجٹ کا تذکرہ کریں جو آٹھ سو ارب ڈالر ہے‘ تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کو بیرونی محاذوں پر خرچ ہونے والے اس کثیر سرمایے کو اپنے لوگوں کے تحفظ پر لگانے کی ضرورت ہے لیکن امریکہ اپنی دولت اور توجہ کا مصرف بدلنے کی طرف آمادہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب اگر دنیا کی کل دولت کا ایک چوتھائی رکھنے والا ملک بھی اپنے لوگوں کو اطمینان نہیں دے پا رہا تو اس کا مطلب ہے کہ جدید دنیا کے نظامِ حیات میں جنگل کے دور بلکہ اس سے بھی خراب حالت میں‘ نظام بچا ہے اور نہ ہی زندگی۔ اس کے لیے کچھ نیا کرنے کے بجائے کچھ بہتر کرنا ہو گا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں