"DRA" (space) message & send to 7575

انتخابات اور سیاسی جوڑ توڑ

اگلے پارلیمانی انتخابات کے حوالے سے پاکستان کے سیاسی اُفق پر تشویش اور غیر یقینی کے جو بادل چھائے ہوئے تھے،وہ آرمی چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کے اس بیان سے یقینا چھَٹ گئے ہوں گے کہ بروقت اور شفاف انتخابات اُن کا ایک خواب ہے اور یہ خواب اب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے۔غالباََیہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوںمیں بھی اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہلچل نظر آرہی ہے۔مئی2013ء کے انتخابی معرکہ میں حصہ لینے کیلئے صف بندی ہو رہی ہے۔بعض صورتوں میں پرانے اتحاد کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور کچھ صورتوں میں نئے اتحاد کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔یہ سرگرمیاں ویسے تو ملک کے تمام حصوں میں جا ری ہیں لیکن ان دنوں صوبہ سندھ سیاسی تجزیہ نگاروں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سربراہ میاں محمد نواز شریف پارٹی کی مرکزی قیادت‘ جن میں قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف چودھری نثار علی خاں،پارٹی کے سیکرٹری جنرل ظفر اقبال جھگڑا،وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف شامل ہیں‘ کے ہمراہ کراچی میں موجود ہیں۔ویسے تو میاں نواز شریف گذشتہ چند برسوں کے دوران میں ایک درجن سے زیادہ مرتبہ سندھ کا دورہ کر چکے ہیں‘مگر اس دفعہ اُن کا دورہ یقینا بارآور اور نتیجہ خیز ثابت ہوا‘ کیونکہ پیر صاحب پگاڑا کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل)اور نیشنل پیپلز پارٹی جن کی باگ ڈور غلام مرتضیٰ جتوئی کے ہاتھ میں ہے اور مسلم لیگ (ن)نے آئندہ انتخابات میں سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جماعت اسلامی سندھ نے بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے تعاون کا وعدہ کیا ہے۔نواز شریف اور پیر صاحب پگاڑا کے درمیان جس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا اُس میں ان دونوں رہنمائوں کی پارٹیوں کے سرکردہ عہدے داروں کے علاوہ سندھ یونائیٹڈفرنٹ کے چیئرمین جناب ممتاز بھٹو بھی شریک تھے۔صوبہ سندھ کے دیگر حصّوں سے سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی سطح پر ایک وسیع تر اینٹی پیپلز پارٹی سیاسی اتحاد تشکیل پا رہا ہے جس کی سربراہی پیر صاحب پگاڑا کے پاس ہو گی اور اس میں مسلم لیگ (ن) اور سندھی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ مذہبی سیاسی جماعتیں مثلاً جماعت اِسلامی، سُنی تحریک، اہل سنت والجماعت اور جمعیت العلمائے پاکستان بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ کیا یہ وسیع تر سیاسی اتحاد سندھ میں پیپلز پارٹی کو آئندہ انتخابات میں شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا؟کیا سندھ میں مسلم لیگ (ن)پیپلز پارٹی کی جگہ لے سکتی ہے؟اور اگر سندھ میں تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کا قومی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جو بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اُبھر رہے ہیں۔یہاں ان کا جواب دینے سے پہلے مناسب ہو گا کہ ہم ملکی سطح پر جاری دیگر سیاسی جوڑ توڑ کا جائزہ لیں۔ پیپلز پارٹی کی دو اتحادی جماعتوں یعنی عوامی نیشنل پارٹی (اے۔این۔پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم۔کیو۔ایم) آئندہ انتخابات میں آزاد حیثیت میں حصّہ لینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ایم ۔کیو۔ایم جو چند روز قبل مرکز اور صوبائی دونوں سطح پر حکومت کا حصہ تھی،اب کھلم کھلا اپنی سابقہ حلیف جماعت یعنی پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہی ہے۔صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام پر ایم۔کیو۔ایم کی طرف سے جس حیران کُن اور شدید ردِعمل کا اظہار کیا گیا تھا،وہ ایم۔کیو۔ایم کے موجودہ سیاسی رویّے کی ایک کھلی مثال ہے۔صرف پاکستان مسلم لیگ(ق)کی طرف سے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر انتخابات میں حصّہ لینے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک باقاعدہ معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔تاہم ان کے درمیان بعض حلقوں میں امیدواروں کے انتخاب پر اختلافات موجود ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں حکمران پارٹی یعنی اے۔این۔پی کو بھی سخت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف تحریک طالبان نے پارٹی قیاد ت اور کارکنوں کو خود کُش حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے،تو دوسری طرف صوبائی پیپلز پارٹی اپنے نئے صدر کی قیادت میں اے۔این۔پی کے ممبران اسمبلی کو توڑنے میں مصروف ہے۔ تیسری طرف اُسے شیر پائو کی قومی پختون پارٹی اور جماعت اسلامی کے جارحانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اے۔این۔پی نے جہاں ایک طرف پختون قوم پرستی کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے‘ وہاں اُس نے 1970ء کی دہائی کے دوران اپنی ایک حلیف جماعت یعنی جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمن) کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کر دی ہیں۔ 2008ء کے انتخابات میں بلوچ اور پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں نے حصہ نہیں لیا تھا۔اس کی وجہ سے مسلم لیگ (ق)، پیپلزپارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام(ف)کو بلوچستان اسمبلی کی کل 65نشستوں میں سے علی الترتیب 14,15اور 09نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔سابقہ حکومت کی انتہائی مایوس کُن کارکردگی اور قوم پرست جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں ممکنہ شرکت کے پیش نظر بلوچستان میں آئندہ سال ایک نئی قیادت سامنے آنے کی توقع ہے۔غالب امکان یہ ہے کہ بلوچستان کی نئی منتخب قیادت مرکز میں پیپلز پارٹی کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھائے گی۔ جماعت اسلامی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود دینی جماعتوں کا ایک وسیع تر اتحاد تشکیل نہیں پا سکا۔اب جماعت دو کشتیوں میں سوار ہے۔ایک طرف تو وہ عمران خاں کی تحریک انصاف سے اتحاد یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کی خواہاں ہے اور دوسری طرف وہ مسلم لیگ (ن) کو بھی گنوانا نہیں چاہتی۔تاہم تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان انتخابی اتحاد تودوُر کی بات ہے‘ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا بھی امکان معدوم ہوتا جا رہا ہے‘ کیونکہ اس سلسلے میں اب تک دونوں جماعتوں میں جو مذاکرات ہوئے ہیں، اُن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔دوسری طرف مسلم لیگ(ن)اور جماعت اسلامی ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں اور وہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے مشترکہ امیدواروں کا مقابلہ کرنے کے لیے باہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے انتخابات میں شرکت کا عندیہ دینے کے بعد اب اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہیے کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک حلیف ہوںگی۔عمران خان کی طرف سے فرقہ وارانہ انتہا پسندوں کے خلاف حالیہ بیانات نے اس امکان کو اور بھی قوی کر دیا ہے او ر پنجاب میں دونوں کا پرنسپل ٹارگٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) ہو گی۔ قومی سیاست کے اس تناظر میں اگر سندھ کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ پیپلز پارٹی کو اگرچہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت مقابلے کا سامنا ہوگا‘ تاہم دیہی سندھ میں اب بھی پیپلز پارٹی ہی ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ مسلم لیگ(ن)،قوم پرست جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں پیر صاحب پگاڑا کی پُر جوش قیادت کے باوجود پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کر سکیں۔اس طرح ایم۔کیو۔ایم کی بھی کم و بیش وہی پوزیشن ہو گی جو 2008ء کے انتخابات کے بعد تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کا ابھی تک کوئی معقول متبادل Credible Alternative)) سامنے نہیں آیا‘ سندھ میں ایک متبادل قیادت اُبھر رہی ہے‘ تاہم اس عمل کو اپنے منطقی انجام یعنی صوبے کے دیہی اور شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی اور ایم۔کیو۔ایم کی جگہ لینے کا مرحلہ طے کرنے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں