گزشتہ تقریباً دو ماہ سے ملک دہشت گردی کی ایک خوفناک لہر کی لپیٹ میں ہے۔ جنوری کے وسط میں کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دہشت گردی کی واردات ہوئی۔ ٹھیک ایک ماہ بعد اس سے ملتی جُلتی دوسری بہیمانہ واردات کوئٹہ ہی میں کرانی روڈ پر کی گئی۔ دونوں وارداتیں ایسے علاقوں میں کی گئیں جہاں شیعہ مسلک سے وابستہ ہزارہ برادری کے لوگوں کی اکثریت آباد ہے چنانچہ شہید ہونے والوں کی بھاری اکثریت کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ دونوںکارروائیوں کی ذمہ داری ایک تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی۔ کوئٹہ کے بعد اب دہشت گردوں نے کراچی کو اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ کراچی مُلک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں بھی دہشت گردوں نے اپنی کارروائی کیلئے ایسے علاقے کا انتخاب کیا جہاں شیعہ لوگوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے۔ کراچی کے عباس ٹائون میں بم دھماکے سے 50 افراد شہید‘ 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں کی بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ کوئٹہ میں دو کارروائیوں کے برعکس عباس ٹائون میں دہشت گردی کی اس کارروائی کی کسی تنظیم نے ذمہ داردی قبول نہیں کی لیکن حُکام کا خیال ہے کہ یہ کارروائی بھی فرقہ وارانہ نوعیت کی ہے اور اس کے پیچھے بھی لشکر جھنگوی کا ہاتھ محسوس ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے‘ اس کے باوجود اس تنظیم کے ارکان اپنی کارروائیاںجاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء میں 400 کے لگ بھگ افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ سالِ رواں کے پہلے دو ماہ میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے 250 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کی ان وارداتوں میں تیزی کی آخر وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک سابق آئی جی پولیس نوید ملک نے دیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر اظہار خیال کرنے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ حُکام بالا کو بہت پہلے معلوم تھا کہ جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جائے گا کیونکہ دہشت گرد نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہو۔ وہ اس کی جگہ اپنا نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے وہ پورے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دو چار کر کے حکومت کو بے بس کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انتہاپسند تنظیمیں دہشت گردی کے ذریعے ملک کو غیرمستحکم اور انتخابات کو سبوتاژ کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ پُورے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر کے حکومت کو بے بس کرنا چاہتی ہیں۔ ایک طرف یہ دہشت گرد ہیں اور دوسری طرف پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں، فوج، عدلیہ، میڈیا اور عوام ہیں جو جمہوریت کے استحکام کے خواہاں ہیں۔ بروقت، صاف اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور پُرامن طور پر نئی منتخب حکومت کو اقتدار منتقل ہو۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد اس بات کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کی یہ اُمید بر نہ آئے۔ ساری دُنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہیں۔ ہم تاریخ کے ایک ایسے مرحلے پر ہیں جس میں کامیابی ہمارے بہتر مستقبل کی ہی نہیں قومی بقا کی بھی ضامن ہے‘ اس لئے دہشت گردوں کے آگے ہتھیار ڈال کر انتخابات ملتوی کرنا کسی صورت بھی سود مند نہیں ہو گا‘ بلکہ جیسا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اگر حکومت‘ سیاسی جماعتیں‘ الیکشن کمیشن اور عدلیہ اپنے موقف پر سختی سے قائم رہتی ہیں کہ انتخابات کسی صورت بھی موخر نہیں ہوں گے تو دہشت گردوں کی یہ پہلی شکست ہو گی۔ ان کو مکمل طور پر شکست سے دوچار کرنے کے لیے اگلا ضروری اقدام تمام سٹیک ہولڈرز میں دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مکمل ہم آہنگی، تعاون اور ربط پیدا کرنا ہے۔ اب تک دہشت گردوں نے حکومت‘ اپوزیشن اور اداروں کے درمیان رابطے کے فقدان سے فائدہ اْٹھایا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ قوم متحد ہر کر دہشت گردی کا مقابلہ کرے لیکن جب تک مختلف پارٹیوں اور مقتدر اداروں میں بٹی ہوئی سیاسی قیادت متحد ہو کر یکساں موقف اختیار نہیں کرتی‘ قوم کا اتحاد کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ صورت حال یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کو دہشت گرد کہنے سے خوف زدہ ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں محض کوئٹہ اور کراچی میں ہی دہشت گردی کی کارروائیاں نہیں ہوئیں‘ ایک مسلح حملہ 26 فروری کو مردان میں بھی کیا گیا جس میں پولیو ٹیم میں شامل خواتین کی حفاظت پر مامور پولیس کے ایک سپاہی کو شہید کر دیا گیا۔ جمرود میں ایک بم دھماکے میں پولیو ٹیم کے تین ارکان شدید زخمی ہوئے۔ اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ان کے علاوہ ہیں۔ دہشت گردوں کی کارروائیاں ملک کے تمام حصوں میں بلاامتیاز رنگ، نسل، مذہب، فرقہ اور جنس جاری ہیں۔ اس سے قبل دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کو سیاسی پارٹیوں کی باہمی مسابقت اور چپقلش کا شاخسانہ قرار دیا جاتا تھا لیکن اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں بعض کالعدم تنظیموں اور القاعدہ کے لوگ ملوث ہیں۔ اُن کا اپنا ایجنڈا ہے جس کے تحت وہ موجودہ آئین اور جمہوری نظام کی جگہ اپنی مرضی کا ’’اسلامی نظام‘‘مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ کارروائیاں حال ہی میں منعقد کی گئی دو کل جماعتی کانفرنسوں کے پلیٹ فارم سے دہشت گردوں کو غیرمشروط امن مذاکرات کی پیش کش کے بعد کی گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد نہ تو مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی امن سے اُنہیں کوئی غرض ہے اُن کی طرف سے بات چیت کی پیش کش کا مقصد محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ وہ امن مذاکرات کی پیش کش کو اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک سموک سکرین کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں حکومت کو کیا کرنا چاہیے کیونکہ امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری بنیادی طور پر حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم‘ حکومت کی جانب سے ایک دو ٹوک اور حتمی بیان کی ضرورت ہے کہ انتخابات کسی صورت بھی ملتوی نہیں کیے جائیں گے۔ اس کے بعد حکومت کو الزام تراشی اور صوبائی حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے خود دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے ایک واضح، مربوط اور موثر حکمت عملی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اگر حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر کچھ عناصر اس حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے رخنہ اندازی یا عدم تعاون پر مبنی روش اختیار کریں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کے خوف اور خطرے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے براہ راست عوام کے پاس جائے اور پورے حقائق بیان کرے تاکہ صرف دہشت گرد ہی نہیں بلکہ اُن کی پُشت پناہی کرنے والے عناصر کے چہروں سے بھی نقاب اتارا جا سکے۔