"DRA" (space) message & send to 7575

مشرف کی واپسی

سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے ایک دفعہ پھر اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان واپس پلٹ رہے ہیں اُنہوں نے یہ اعلان دو مارچ کو دوبئی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا جسے وڈیو لنک کے ذریعے براہ راست کراچی میں دکھایا گیا۔ اس سے قبل وہ متعدد بار اپنے اسی ارادے کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ گزشتہ سال جنوری میں تو انہوں نے اپنی روانگی کی حتمی تاریخ کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ بعد میں بقول ان کے اپنی پارٹی اور ساتھیوں کے مشورے پر انہوں نے اپنی واپسی موخر کر دی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے واپسی کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ساتھیوں کے مشورے پر واپسی کا پروگرام تشکیل دیا ہے۔ سابق صدر کے بیان کے مطابق ان کی پارٹی کا خیال ہے کہ پاکستان واپسی کے لیے یہ مناسب ترین موقع ہے کیونکہ ملک میں ایک غیرجانبدار عبوری حکومت ہو گی جس کے ہوتے ہوئے اُنہیں اپنے خلاف درج مختلف مقدمات میں گرفتاری سے دو چار نہیں ہونا پڑے گا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عوام ان دونوں پارٹیوں کو آزما چُکے ہیں اور چونکہ دونوں پارٹیاں ملک کو درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک تیسری سیاسی قوت ان کی جگہ لے۔ سابق صدر کے مطابق وہ اور اُْن کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ یہ تیسری اور متبادل قیادت فراہم کر سکتے ہیں۔ دوبئی میں پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے سابق صدر نے Now or Never (یعنی اب یا کبھی نہیں)کا نعرہ لگاتے ہوئے اگرچہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ اس دفعہ ضرور پاکستان آئیں گے؛ تاہم اب بھی بہت کم لوگوں کو یقین ہے کیونکہ پاکستان میں اُن کے خلاف سنگین نوعیت کے متعدد مقدمات ہیں جیسے 2006ء میں نواب اکبر بگٹی کا قتل، بے نظیر کی شہادت، اعلیٰ ججوں کو حبسِ بے جا میں رکھنا اور 2007ء میں اسلام آباد کی لال مسجد پر حملہ۔ اسلام آباد سیکرٹریٹ پولیس نے گزشتہ جنوری میں ایک مقامی عدالت میں درخواست پیش کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ججوں کو غیرقانونی حراست میں رکھنے کے الزام میں مشرف کو اشتہاری مجرم قرار دیا جائے اور اُس کے خلاف ایک مستقل وارنٹ گرفتاری جاری کیا جائے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال اگست میں سِبی کی ایک خصوصی عدالت برائے انسدادِ دہشت گردی کی طرف سے نواب اکبر بْگٹی کے قتل کے الزام میں مشرف کے خلاف دوبارہ وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ اس مقدمہ میں مشرف کے ساتھ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق گورنر بلوچستان اویس غنی اور سابق صوبائی وزیر اعلیٰ جام محمد یوسف کو بھی نامزد کیا گیا۔ اسلام آباد کی لال مسجد کے واقعہ کی تفتیش کرنے والے کمیشن نے بھی جنرل مشرف کو طلب کر رکھا ہے۔ گزشتہ برس جب مشرف نے اپنی واپسی کا اعلان کیا تو وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا تھا کہ مختلف مقدمات میں مطلوب ہونے کی وجہ سے مشرف کو پاکستان پہنچتے ہی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ایک اہم اور سرکردہ رہنما جناب رضا ربانی تو مشرف پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ ملک کے دیگر سیاسی حلقوں میں بھی مشرف کیلئے کسی نرم گوشے کے کوئی آثار نہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو میں مشرف نے فوج کی جانب سے حمایت کی توقع کا اظہار کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر اُنہیں پاکستان پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا تو کیا فوج اُن کی مدد کو آئے گی؟ مشرف نے کہا کہ وہ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہ سکتے؛ تاہم اُنہیں توقع ہے کہ فوج اُن کی گرفتاری پر اپنی تشویش کا اظہار کرے گی۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار اُنہوںنے گزشتہ برس بھی کیا تھا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ فوج میں ایک ہردلعزیز کمانڈر رہے اور اب بھی اُن کے حامی فوج میں موجود ہیں۔ اگرچہ مشرف نے اس بات سے انکار کیا کہ فوج کی تائید سے واپس آرہے ہیں؛ تاہم اُن کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سابق چیف آف دی سٹاف ہونے کی وجہ سے فوج اُن کی گرفتاری یا اُن پر مقدمہ کی حمایت نہیں کرنے گی لیکن ایک آزاد عدلیہ، طاقت ور میڈیا اور تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کے قیام اور استحکام پر اُبھرتے ہوئے قومی اتفاقِ رائے کی روشنی میں اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ فوج مشرف کے حق میں کوئی اقدام کرے گی۔ البتہ ایک مشکل اور پیچیدہ صورت حال سے بچنے کے لیے فوج مشرف کو مشورہ دے سکتی ہے کہ وہ فی الحال پاکستان آنے کا ارادہ ترک کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مصمم ارادے‘‘ کے باوجود مشرف کیمپ میں نااُمیدی کے آثار ابھی سے پیدا ہوتا شروع ہو گئے ہیں۔ جنرل صاحب کی پارٹی میں سینئر نائب صدر کے عہدے پر فائز اور ’’بھٹو قتل کیس‘‘ کے کلیدی کردار احمد رضا قصوری نے تو ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ سابق صدر پروگرام کے مطابق پاکستان آ بھی سکتے ہیں اور اپنی روانگی ملتوی بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن عوامی سطح پر تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری کی ناکامی کے بعد غیرسیاسی قوتوں کی طرف سے نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے مشرف آخری حربہ ہیں اور عین اُس موقع پر جبکہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے والا ہے، ملک میں ایک عبوری اور غیرسیاسی حکومت قائم ہونے والی ہے، مشرف کی طرف سے واپسی کا اعلان معنی خیز ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے پاکستان واپس آنے کے اعلان کے بعد ملک کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر اُنہوں نے واپسی کے لیے اس موقع کا کیوں انتخاب کیا؟ اور وہ واپس آ کر کیا کردار ادا کریں گے؟ ان سوالات کا جواب خود اُن کے اپنے بیانات میں موجود ہے جو اُنہوں نے گزشتہ پانچ برسوںکی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران مختلف مواقع پر دیئے۔ ایک بیان میں اُنہوں نے کہا کہ وہ مضبوط قیادت فراہم کر کے قوم کو موجودہ بحران سے نکالنا چاہتے ہیں‘ لیکن اُن کی رائے کے برعکس قوم اُنہیں بحران کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ جنرل مشرف نے ایک موقع پر کہا تھا کہ عمران خاں کی پارٹی سے اتحاد کریں گے لیکن عمران خاں کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ اسی طرح ایم کیو ایم اور ان کی سابقہ پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بھی اس مسئلے پر چپ سادھ لی اگرچہ احمد رضا قصوری نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خاں کی پارٹی پی ٹی آئی اور طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے بات چیت ہو رہی ہے؛ تاہم اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ یہ دونوں جماعتیں‘ ایم کیو ایم یا مسلم لیگ(ق) مشرف کے ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لیں گی۔ مشرف کے سابقہ ساتھی بھی اُن کا ساتھ چھوڑ چْکے ہیں۔ پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی یا گروہ اُن کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ صرف سابقہ فوجی افسران پر مشتمل تنظیم Ex-Servicemen Association ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے مشرف کے حق میں آواز بلند ہو سکتی ہے لیکن انتخابات میں کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرف پہلے بھی غیر ہردلعزیز تھے اور اب بھی سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں