پاکستان میں اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں سے 1970ء کے الیکشن غالباًَ واحد الیکشن تھے جن میں ملک کی خارجہ پالیسی خصوصاًَ پاک امریکہ تعلقات بطور ایک اہم ایشو موضوعِ بحث تھا۔ ’’امریکی سامراج مردہ باد‘‘ کا نعرہ لاہور، راولپنڈی، پشاور اور کراچی کی سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ ڈھاکہ، چٹاگانگ اور سلہٹ کی گلیوں میں بھی اُتنے ہی زور سے فضائوں میں بلند ہو کر لاکھوں لوگوں کی صدائے احتجاج کی شکل اختیارکر چکا تھا۔ اس کی وجہ بھی موجود تھی۔ پاکستان کی غیرمنتخب اور غیرنمائندہ حکومتوں نے سیٹو‘ سینٹو اور دوطرفہ دفاعی معاہدوں کی ذریعے ملک کو امریکہ کی غلامی میں جکڑ دیا تھا۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کُھلے عام تھی۔ اس سلسلے میں جنرل یحییٰ خان کے دور میں ایک امریکی سفیر مسٹر فارلینڈکافی بدنام ہوئے۔ اُن پر الزام تھا کہ وہ جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کے ساتھ مل کر دائیں بازو کی جماعتوں کو 1970ء کے انتخابات میں کامیاب کروانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر سیاسی جماعتوں اور اخبارت کا متفقہ مطالبہ تھا کہ فارلینڈ کو پاکستان سے نکالا جائے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنا دفاعی اتحاد ختم کر کے سیٹو اور سینٹو سے نکل جائے۔ ایوب خاں کے خلاف عوامی تحریک کے دوران بھی یہ ایک اہم مطالبہ تھا اور اس مطالبے کے حق میں سب سے بلند آواز ذوالفقار علی بھٹو کی تھی۔ موجودہ انتخابات میں کچھ حلقوں کی طرف سے کوشش کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک انتخابی مسئلہ نہیں بن سکی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی برسرِاقتدار آئی تو سب سے پہلے وہ پاکستان کو امریکہ کی ’’غلامی‘‘ سے نجات دلائیں گے۔ یہ غلامی کی شکل میں موجود ہے؟ اس کی اُنہوں نے وضاحت نہیں کی۔ اس وعدے کو ناصرف عمران خان نے کئی دفعہ دہرایا بلکہ اُن کی پارٹی کے دیگر رہنما بھی اب ٹی وی ٹاک شوز میں اسی بات پر اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی ’’غلامی‘‘ میں جکڑا ہوا ہے اور ملک کو اس ’’غلامی‘‘ سے نجات دلانا اُن کی پارٹی کا سب سے اہم اور اوّلین مشن ہے۔ کسی اور سیاسی پارٹی نے اْن کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی۔ صرف جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن ایک ایسے سیاسی رہنما ہیں جو تواتر کے ساتھ امریکہ کی ’’غلامی‘‘ سے نجات دلانے کی نوید قوم کو سُنا رہے ہیں بلکہ جماعتِ اسلامی تو گزشتہ کئی برس سے امریکہ مخالف نعروں کی بنیاد پر لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی ناکام کوشش بھی کر رہی ہے۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ تعلقات بھی انتخابی ایشو نہیں بن سکے حالانکہ چند ماہ پیشتر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار تھے۔ دفاعِ پاکستان کونسل‘ جس کی لیڈنگ لائٹس میں جنرل حمید گُل، شیخ رشید احمد، اعجازالحق، جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن اور جماعتِ الدعوۃ کے حافظ سعید شامل تھے، نے چند ماہ پیشتر ملک گیر جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کر کے عوام کو امریکہ اور بھارت کے خلاف متحرک کرنے کی پوری پوری کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اسی طرح گزشتہ جولائی میں جب پاکستان نے طورخم اور چمن کے راستے نیٹو افواج کی سپلائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کو بلاک کرنے کی غرض سے دفاعِ پاکستان کونسل نے چاروں صوبوں کے اہم شہروں میں جلسے منعقد کر کے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔’’کیا پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کھول دینی چاہیے؟‘‘ اس پر منفی رویہ اختیار کرتے ہوئے دفاعِ پاکستان کونسل نے پورے ملک میں مہم چلائی لیکن انتخابات کے دوران میں نہ تو کسی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور میں‘ نہ ہی اپنی انتخابی مہم کے دوران میں اس اہم مسئلے کو انتخابی بحث کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ اسی طرح پاکستان کے ارد گرد مختلف لیکن بہت اہم واقعات رُونما ہو رہے ہیں جن کا براہ راست تعلق پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی سے ہے۔ افغانستان سے امریکی اور بین الااقوامی افواج کی واپسی کا عمل جاری ہے اور اس کے ساتھ افغانستان کو ممکنہ خلفشار اور خانہ جنگی سے بچانے کے لیے کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس ضمن میں برسلز میں حال ہی میں ایک طرف تو نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہوئی اور دوسری طرف پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے رہنمائوں کا سہ فریقی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی میزبانی کے فرائض امریکی وزیر خارجہ جان کیری کر رہے تھے اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے ہمراہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی بھی اس میں شریک تھے۔ آرمی چیف پاکستانی وفد‘ جس میں سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی شامل تھے، کی قیادت کر رہے تھے۔ دونوں اجلاسوں کا مقصد پاک افغان تعلقات کو بہتر بنانا اور افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کے مثبت کردار کو یقینی بنانا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس سمت میں خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس کا ثبوت پاکستان اور افغانستان میں بدستور سرحدی کشیدگی کا پایا جانا ہے جس کا اظہار طورخم کی سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کی آمدورفت کی بار بار بندش سے ہوتا رہتا ہے۔ اس نازک صورتِ حال کے باوجود اگر انتخابی جلسوں میں اپنی تقاریر کے دوران سیاسی رہنما خارجہ امور کا ذکر نہیں کرتے تو اس کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ خارجہ تعلقات کے محاذ پرجو صورتِ حال ہے یعنی بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور امن مذاکرات، چین کے ساتھ قریبی تعلقات، ایران سے گیس خریدنے کا معاملہ، امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بتدریج بہتری اور افغانستان میں امن کے بارے میں پاکستان کا موقف، ایسے ایشوز ہیں جن پر پورے ملک میں کم و بیش قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور نہ تو عوام اور نہ ہی سیاسی پارٹیاں ان مسائل پر کھلے عام بحث کو ضروری سمجھتی ہیں۔ ثانیاًَ یہ بھی ممکن ہے، اور یہ دلیل زیادہ وزنی معلوم ہوتی ہے، کہ پاکستانی عوام کو اندرونی محاذ پر دہشت گردی، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال، توانائی کے بحران،16 سے20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، پڑھے لکھے نوجوانوں میں روزافزوں بیروزگاری اور صحت جیسے اتنے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے اور سیاسی پارٹیاں انہی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا محور بنائے ہوئے ہیں۔ عوام کو بھی انہی مسائل میں دلچسپی ہے اور وہ سیاسی رہنمائوں سے ان مسائل کے بارے میں ہی سُننا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خارجہ تعلقات کا ملک کے اندرونی حالات سے کوئی تعلقات نہیں۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں غیرمعمولی اضافہ اور خصوصاً تین بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی پر دہشت گردوں کے حملوں کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی فوجی انخلا سے پیدا ہونے والی غیریقینی لیکن اہم صورتِ حال میں پاکستان کے کردار کو دہشت گرد اپنی مرضی کی حکومت کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ اُن سیاسی پارٹیوں کو نشانہ بنا کر انتخابات سے دور رکھنا چاہتے ہیں جو افغانستان کے بارے میں دہشت گردوں کے موقف سے متفق نہیں۔