11مئی کو ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی فائنل پکچر تو ایک دوروز بعد ہی سامنے آئے گی جب الیکشن کمیشن نتائج کا سرکاری طورپر اعلان کرے گا، لیکن ایک بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف پاکستان کے آئندہ وزیراعظم ہوں گے ۔ غیرسرکاری نتائج کے مطابق ان کی پارٹی نے قومی اسمبلی کی 268جنرل نشستوں پر حریف جماعتوں سے مقابلہ کرکے اب تک تقریباً 125نشستیں جیتی ہیں۔ وہ آزاد ممبران اور دیگر حلیف جماعتوں کو ساتھ ملاکر بڑی آسانی سے مرکز میں حکومت بناسکتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق جناب میاں نوازشریف نے اس مقصد کے لیے کچھ آزاد ممبران سے رابطہ قائم کیا ہے اور ان کو ساتھ ملانے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ کچھ آزاد ارکان نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کر بھی دیا ہے۔ان کے علاوہ جن سیاسی جماعتوں کو مرکز کی مخلوط حکومت میں شامل کیا جاسکتا ہے ان میں مسلم لیگ (فنکشنل ) ،بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) شامل ہیں۔ سندھ اور کراچی کی بعض نشستوں پر انتخاب میں باہمی تعاون کے لیے مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ف) کے درمیان الیکشن سے پہلے ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوئے تھے۔ اس معاہدے پر شہباز شریف اور پیر صاحب آف پگارا شریف نے اپریل میں کراچی میں دستخط کیے تھے۔ الیکشن سے ایک ماہ قبل شہباز شریف نے کوئٹہ کا بھی دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ جناب اختر مینگل سے بھی ملاقات کی تھی۔ بلوچستان قوم پرست حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جناب نواز شریف نے سرعام اعتراف کیا تھا کہ 1998ء میں جناب اختر مینگل کی وزارت اعلیٰ کی برطرفی ایک غلطی تھی ۔اسی طرح لاہور میں جناب میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات کے دورا ن میں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان صوبہ پختون خوا میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق بھی ہوا تھاتاہم اب میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ اس صوبے میں زیادہ نشستیں تحریک انصاف نے حاصل کی ہیں اس لیے وہاں عمران خان کو حکومت بنانی چاہیے۔ایک بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی اگلی حکومت کی سربراہی نہ صرف پاکستان مسلم لیگ کے پاس ہوگی بلکہ یہ ایک مخلوط حکومت ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میں مخلوط حکومت کا قیام ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے جاری سیاسی رجحانات کے عین مطابق ہے ۔ اب وہ دور گیا جب مرکز اور صوبوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ جنوبی ایشیا اب مخلوط حکومتوں کے دور سے گزررہا ہے اور جہاں کہیں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے یعنی بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال وہاں مخلوط حکومتیں قائم ہیں۔ مسلم لیگ (ن ) کی حکومت اگرچہ ایک مخلوط حکومت ہوگی لیکن یہ سابق حکومت کی طرح ایک کمزور مخلوط حکومت نہیں ہوگی اور اس وجہ سے اس حکومت کو اپنی بقا کی خاطر اصولوں پر سودابازی نہیں کرنا پڑے گی بلکہ پالیسی ایشوز پر جرأت مندانہ اور مشکل فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ اسی طرح جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے عمران خان کی پارٹی کی حیران کن کامیابی کے باوجود متحدہ اپوزیشن کی قیادت پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم کیوایم کے اراکین قومی اسمبلی کو ملاکر پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن پاکستان تحریک انصاف سے کہیں زیادہ مضبوط حیثیت اختیار کرجائے گی ۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ اسمبلی کے اندر بھی عمران خان ان دو بڑے سیاسی اتحادوں یعنی مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت اور پیپلزپارٹی کی سربراہی میں متحدہ اپوزیشن سے الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیں گے۔ تاکہ وہ تھرڈ آپشن کے طورپر اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھ سکیں۔ تاہم عمران خان جو بھی موقف اختیار کریں، پاکستان میں دوجماعتی نظام (Two Party System)جڑیں پکڑ رہا ہے اور آئندہ دوتین انتخابات اگر اسی طرح باقاعدگی اور پرامن طریقے سے ہوتے رہے تو یہ نظام مزید مستحکم ہوگا۔ پاکستان میں دو جماعتی نظام کا قیام اور استحکام نہ صرف جمہوریت کے لیے سود مند ہے بلکہ اس سے گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی بھی یقینی ہوجائے گی۔ اس سے ملک میں سیاسی استحکام کو تقویت ملے گی اور جمہوری قدروں کو فروغ حاصل ہوگا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کی طرف سے مصدقہ اعدادوشمار ابھی شائع نہیں ہوئے، تاہم میڈیا رپورٹس اور خود چیف الیکشن کمشنر کے ایک غیررسمی بیان کے مطابق ووٹر ٹرن آئوٹ 60فیصد تک ہونے کی توقع ہے ۔اگریہ صحیح تخمینہ ہے تو 1970ء کے الیکشن کے بعد یہ ایک ریکارڈ ٹرن آئوٹ ہوگا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ٹرن آئوٹ دہشت گردوں کی طرف سے ملک بھر میں پولنگ سٹیشنز پر مسلح حملوں کی دھمکی کے باوجودوقوع پذیر ہوا ہے۔ اس ٹرن آئوٹ کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خواتین کا ٹرن آئوٹ پہلے کے مقابلے میں زیادہ رہا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اگرچہ ملک کے کچھ حصوں میں خواتین کوووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے تاہم کچھ حصے ایسے بھی ہیں ،مثلاً بلوچستان کے پختون علاقے ،جہاں پردے کی قدیم اور سخت روایات کے باوجود خواتین کی ایک بڑی تعداد پہلی دفعہ باہر نکلی ،ووٹ ڈالا ،اور اپنی مرضی سے ووٹ ڈالا۔ جمہوری سیاسی عمل میں پاکستانی خواتین کی شرکت میں بتدریج اضافہ کی یہ ایک واضح مثال ہے اور یہ رجحان بھی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں ابھرتے ہوئے رجحانات کے مطابق ہے۔ افغانستان، نیپال ، بھارت اور بنگلہ دیش میں اب تک جو پارلیمانی انتخابات ہوئے ہیں ان میں نہ صرف خواتین امیدواروں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں زیادہ رہی ہے بلکہ خواتین ووٹرز کا ٹرن آئوٹ بھی حیران کن حدتک زیادہ رہا ہے۔ ان رجحانات سے زندگی کے ہرشعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کے کام کرنے اور آگے بڑھنے کی خواہش کی عکاسی ہوئی ہے۔ 11مئی کے انتخابات میں بھاری تعداد میں شرکت کرکے پاکستانی عوام نے دنیا بھر کو بتادیا ہے کہ وہ جمہوری نظام میں یقین رکھتے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ لوگ دعوئوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرفارمنس کی وجہ سے حمایت کرتے ہیں۔ مثلاً پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی گزشتہ پانچ برسوں میں صوبائی حکومت کی بہتر کارکردگی کی رہین منت ہے ۔ 2008ء میں صوبہ خیبر پختونخوا میں اے این پی کو عوامی حمایت اس توقع پر حاصل ہوئی تھی کہ پارٹی صوبے میں دہشت گردی اور امن وامان کے مسئلے کو حل کرے گی لیکن اس کی حکومت اس میں ناکام رہی۔ چنانچہ عوام نے اسے مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ووٹ دیئے کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ تحریک انصاف ڈرون حملے رکوا سکتی ہے اور دہشت گردی کی روک تھام کرسکتی ہے۔