ترکی کے وزیر اعظم طیب اردوان 2002ء سے برسراقتدار ہیں۔ ان کی پارٹی ’’جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ ہمیشہ بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ 2011ء کے انتخابات میں طیب اردوان کو50 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس بھاری مینڈیٹ کے ساتھ جناب اردوان یہ سمجھ بیٹھے کہ بحیثیت وزیر اعظم ان کے اقتدار کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا اس لیے انہوں نے ملک میں ایسے اقدامات کا آغاز کر دیا جن کا ترک عوام نے انہیں مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ ان اقدامات کا تعلق ترکی کے مڈل کلاس، پڑھے لکھے اور باشعور طبقات خصوصاً خواتین کے حقوق اور آزادیوں سے تھا جو انہیں اتاترک کی لبرل اور سیکولر آئیڈیالوجی سے ورثہ میں حاصل ہوئی تھیں۔ جناب طیب اردوان کی پارٹی ایک قدامت پسند پارٹی ہے جسے کسی حد تک پاکستان کی جماعت اسلامی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے یعنی ان کی پارٹی نے ترکی کے مروجہ دستور اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوری انتخابات میںکامیابی حاصل کر کے حکومت تشکیل دی۔لیکن حکومتی وسائل اور اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اپنی پارٹی کے مخصوص ایجنڈے کو نافذ کرنا شروع کر دیا۔ترکی کے لبرل اور قوم پرست حلقوں میں طیب اردوان کی ان پالیسیوں کے بارے میں تشویش پائی جاتی تھی۔ اردوان ایک پاپولر لیڈر ہیں۔اُنہوں نے ترکی کو سیاسی انتشار اور معاشی بدحالی سے نجات دلا کر نہ صرف ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا بلکہ اُن کے دور میں ترکی کو ایک اہم علاقائی طاقت کے طور پر بھی تسلیم کیا جانے لگاتھا۔ لیکن گذشتہ تقریباََ دو ہفتے سے ترکی کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ سڑکوں اور کھلی جگہوں پر جمع ہو کر وزیراعظم طیب اردوان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔حکومت کی جانب سے بار بار اپیل اور پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال کے باوجود مظاہرین نے منتشر ہونے سے انکار کر دیا ہے اور جو احتجاج 28مئی کو صرف 100افراد پر مشتمل ایک گروپ نے شروع کیا تھا‘ وہ اب ترکی کے40سے زائد شہروں تک پھیل گیا ہے اور مظاہرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ پولیس کے ساتھ تصادم میںا ب تک 3افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور 5000کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک جمہوری طریقے سے اور بھاری مینڈیٹ کے ساتھ منتخب ہونے والی حکومت کے خلاف اس احتجاجی لہر کی آخروجہ کیا ہے؟ احتجاج میں کون لوگ شریک ہیں؟اور اُنہیں حکومت سے کیا شکائتیں ہیں؟اور اس احتجاجی تحریک کے ترکی اور علاقے کیلئے کیا مضمرات پوشیدہ ہیں؟ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈیڑھ سال قبل عرب دنیا میں عوامی احتجاج کی جو لہر پیدا ہوئی تھی،ترکی کی صورت حال اُسی کا ایک حصہ ہے۔لیکن مصر،تیونس اور لیبیا میں تو عوام نے عرصہ سے اقتدار سے چمٹے رہنے والے آمروں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا‘ جبکہ ترکی میں ایک منتخب اور جمہوری حکومت برسراقتدار ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک ترکی میں مظاہروں اور دھرنوں کی یہ لہر وزیراعظم طیب اردوان اور صدر عبداللہ گُل کے درمیان رقابت کا شاخسانہ ہے‘ کیوں کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔لیکن نظریاتی طور پر وزیراعظم طیب اردوان اور صدر عبداللہ گُل میں کوئی فرق نہیں۔دونوں قدامت پسند سوچ کے مالک ہیں اور دونوں نے ملک میں لبرل اور سیکولر اقتدار کی حوصلہ شکنی کرنے ہوئے قدامت پسند اور مذہبی اقدار کو پروان چڑھایا ہے۔اس لیے دونوں کے درمیان چپقلش اتنے بڑے سماجی ہیجان کا باعث نہیں بن سکتی۔خرابی کی جڑ کہیں اور ہے اور مسئلے کا سبب کچھ اور ہے۔ دراصل وزیراعظم طیب اردوان اپنی پارٹی کے قدامت پسند ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ اقتصادی ترقی کے نتیجے میںپیدا ہونے والی سماجی تبدیلیوں سے معاشرے کے بعض طبقے بنیادی حقوق اور فکری آزادی کو زیادہ عزیز سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف کسی اقدام کو برداشت نہیں کر سکتے ۔ یہ احتجاج ایک ایسے جبر کے خلاف ہے جو جمہوریت کے ذریعے مذہب کے نام پر عوام پر مسلّط کیا جا رہا ہے۔قدرتی طور پر پڑھے لکھے اور باشعور لوگ اسے اپنے بنیادی حقوق اور آزادیوں پر ڈاکہ سمجھتے ہیں اور ان اقدامات کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ استنبول کے تقسیم چوک اور ارد گرد کی گلیوں اور سڑکوں پر دھرنا دینے والے لوگوں کی کثیر تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے نصف تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ان خواتین میں ڈاکٹر بھی ہیں،وکیل اور ٹیچر بھی۔ان کے علاوہ دفتروں میں کام کرنے والی خواتین بھی شامل ہیںان سب کو حکومت اور خصوصاََ وزیراعظم طیب اردوان سے ایک ہی شکایت ہے کہ وہ اپنی جماعت کے قدامت پسند ایجنڈے کو اُن پر زبردستی مسلّط کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وزیراعظم کسی کی نہیں سُنتے اور نہ کسی کے مشورے کو مانتے ہیں۔ ’’وزیراعظم طیب اردوان جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے ہیں لیکن اُن کا طرزعمل آمرانہ ہے‘ وہ اپنے آپ کو سلطان سمجھتے ہیں‘‘ یہ ہیں وہ الفاظ جن کی صورت میں چند مظاہرین نے اپنے جذبات و احساسات کا غیر ملکی نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے اظہار کیا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ صدر عبداللہ گُل اور وزیر اعظم کے کچھ اور ساتھیوں کے نرم رویے کے برعکس طیب اردوان کا لہجہ مظاہرین کے بارے میں سخت ہے۔جب 30مئی کو پولیس کے سخت اور ناروا رویے کے خلاف استنبول میں مظاہرین نے احتجاج کیا تو وزیر اعظم نے ان مظاہرین کی بات سُننے کی بجائے اُنہیں ’’لٹیرے‘‘کہا اور دعویٰ کیا کہ چند شرپسند لوگوں کی طرف سے شروع کی جانے والی گڑبڑ خود بخود م توڑ جائے گی‘ لیکن مظاہرین پر اس کا الٹا اثر ہوا۔انہوں نے پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں اکٹھے ہو کر زیادہ شدت کے ساتھ استنبول میں ہی نہیں بلکہ دارالحکومت انقرہ اور ملک کے متعدد دیگر شہروں میں احتجاج کا جھنڈا بلند کر دیا اور اب وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر دھرنوں اور مظاہروں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس کا منفی اثر نہ صرف ترکی کے اندرونی سیاسی استحکام اور معیشت پرپڑے گا،بلکہ ترکی کے اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاََ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں کچھ یورپی ممالک نے تو ابھی سے ترکی کے بگڑتے ہوئے اندرونی حالات خصوصاََ مظاہرین کے خلاف پولیس تشدد پر اپنی تشویش کا اظہار شروع کر دیا ہے۔اس کے علاوہ گذشتہ ایک دہائی میں ترکی نے سفارتی سطح پر سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ،وسطی ایشیا اور کیسپیئن کے علاقے میں جو قابل قدر مقام حاصل کیا ہے،اُس کے کھوئے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم طیب اردوان کے دور میں ملک میں جمہوریت مستحکم ہوئی ہے۔خصوصاََ فوج پر سولین بالادستی قائم کرنے میں جناب اردوان کا کردار بہت اہم ہے لیکن تاریخی عمل کے جدلیاتی قانون کے مطابق کوئی شخص،کوئی نظریہ ایک مخصوص دور میں ایک مخصوص کارنامہ سرانجام دے کر اُس کا ہمیشہ کیلئے پھل نہیں کھا سکتا۔وقت گذرنے کے ساتھ معاشرے کی ضروریات اور ترجیحات بدل جاتی ہیں اور ہر شخص اور نظریئے کو ان تبدیلیوں کے مطابق اپنے لائحہ عمل کومتعین کرنا پڑتا ہے۔