پاکستان کی طرف سے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ملک کا دورہ کرنے کی سٹینڈنگ آفرموجود ہے۔ سابق حکومت کے دور میں تو ایک موقعہ پر بھارتی رہنما کے دورہ پاکستان کا امکان اس قدر قوی ہو گیا تھا کہ چکوال میں اُن کے آبائی گائوںمیں اُن کے استقبال کی بھی تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔لیکن یہ تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں کیونکہ سرحد کے دونوں پار ہارڈ لائن بیوروکریسی اور انتہا پسندسیاسی عناصر کے گٹھ جوڑنے‘ دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی کا جو ماحول پیدا ہوا تھا‘ اُسے اپنی کارروائیوں کے ذریعے سرد مہری بلکہ کشیدگی میں تبدیل کر دیا اور بھارتی وزیراعظم یہ کہہ کر دورے کے پروگرام کو ملتوی کرتے رہے کہ جب تک پاکستان کی طرف سے مُمبئی(Mumbai)دہشت گردی کی واردات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور اعتماد کی فضا بحال نہیں ہوتی اُن کا پاکستان آنا مشکل ہے۔ممبئی حملوں کے دوران پکڑے جانے والے واحد پاکستانی اجمل قصاب اور افضل گرو کی پھانسی سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو یقینا دھچکا لگا۔پاکستانی جیل میں بند بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی پُر تشدد موت کے علاوہ اس سال جنوری میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں جانی نقصان نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اس حد تک کشیدہ کر دیا کہ ڈائیلاگ پراسیس جسے ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سابق پاکستانی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سارک سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر بھُوٹان کے دارالحکومت ’’تھمپو‘‘ میںملاقات میں بحال کیا تھا،ابھی تک معطل ہے۔ لیکن جناب محمد نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے قیام کے بعد اس تعطل کے خاتمے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔اطلاعات کے مطابق پاکستان کی نئی حکومت بھارت کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے نہ صرف خواہاں ہے بلکہ کوشاں بھی ہے ۔11مئی کے انتخابی نتائج آنے کے بعد ڈاکٹر منموہن سنگھ اور محمد نواز شریف کے درمیان امن،تعاون اور خیر سگالی کے جذبات سے لبریز جن پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا،اُس سے صاف ظاہر تھا کہ دونوں رہنما باہمی دوطرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وزیر خارجہ سلمان خورشید کے مصالحانہ بیانات کے جواب میں جناب نواز شریف نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو آگے بڑھانے اور خصوصاََ تجارت اور اقتصادی شعبے میںتعاون کو فروغ دینے کیلئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے،بھارت نے اُن کا خیر مقدم کرتے ہوئے دو طرفہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔اور اُمید ہے کہ جہاں سے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹا تھا، وہیں سے ُان کا آغازہو گا۔یعنی سب سے پہلے تجارت اور اقتصادی روابط بڑھانے کے سلسلے میں تجاویز پر بحث ہو گی۔ اگر مذاکرات کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے،کشیدگی کی جگہ اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے تو ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورہ پاکستان کے راستے میں حائل روکاوٹیں بھی دور ہوتی جائیں گی۔ ویسے بھی ڈاکٹر من موہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت ختم ہونے میں اب ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ اگرچہ کانگرس اور یونائیٹڈ پروگریسوالائنس میں شامل اس کی حلیف جماعتیں آئندہ مئی کے انتخابات میں اپنی کامیابی کے بارے میں بہت پُر اُمید ہیں،تاہم جنگ کی طرح الیکشن کی بھی سو فیصد درست پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔اس لیے ڈاکٹر من موہن سنگھ چاہیں گے کہ وہ موجودہ لوک سبھا کی تحلیل سے پہلے پاکستان کا دورہ کر کے دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے،اس دورے کا پوری طرح خیر مقدم کیا جائے گا۔وزیراعظم نوازشریف اپنے بھارتی ہم منصب کو پہلے ہی مدعو کر چُکے ہیں اور بھارتی وزیراعظم اس دعوت کو قبول کر چُکے ہیں۔البتہ اس دورے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔اگرچند دنوں تک دونوں ملک اپنے معطل شدہ دو طرفہ مذاکرات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سال کے آخر تک بھارتی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کو ممکنات میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ان ممکنات کے حق میں اور بھی دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں۔مثلاََ پاکستان میں اس وقت ایک مضبوط اور مستحکم حکومت قائم ہے جو نہ صرف آزاد اور دلیرانہ فیصلے کرنے کے قابل ہے بلکہ اُن مذہبی،جنونی اور انتہا پسند عناصر کو بھی لگام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جنہوں نے ’’نفرت اور انتقام‘‘ پر مبنی بھارت کے بارے میں پالیسی کا ملک بھر میں پر چار کیا تھا۔اسی پراپیگنڈے سے ڈر اور دیگر حلقوں کی طرف سے دبائو کی وجہ سے پچھلی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات کوبہتر بنانے کیلئے جو کر سکتی تھی وہ نہ کر سکی۔امید ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت امن اور آتشی کی اِن دشمن لابیز سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ دوسرے ،پاکستان کو اس وقت جن چیلینجز کا سامنا ہے،خصوصاََ معاشی بدحالی اور توانائی کے بحران کی صورت میں‘ اُن سے نمٹنے کیلئے ملک کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور تعاون کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ان ممالک میں صرف چین،افغانستان اور ایران ہی شامل نہیں بلکہ بھارت بھی ان میں شمار ہوتا ہے۔اس بات کی حمایت وزیراعظم نوازشریف قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کر چُکے ہیںاور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے جہاں ایک طرف پاک چین مذاکرات جاری ہیں،وہاں وزیراعظم کی صدر حامد کرزئی سے ٹیلی فون پر بھی بات ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ہی انرجی پالیسی کی حکمتِ عملی میں ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ بھارت سے بھی بجلی درآمد کرنے کے عندیے کا اعلان کیا گیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ نئی حکومت پاکستان کی علاقائی پالیسی میں ایک بڑی اور دُور رس مضمرات کی حامل تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علاقائی امن اور استحکام کے بغیر پاکستان میں معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکتے اور علاقائی امن اور استحکام کیلئے پہلی اور لازمی شرط پاکستان اور اُس کے ہمسایہ ممالک میں دوستانہ تعلقات اور قریبی تعاون ہے۔ بین الاقوامی برادری جس میں بڑی طاقتیں مثلاََ چین،جاپان،یورپی یونین، روس اور امریکہ شامل ہیں، ایک عرصہ سے پاکستان اور بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے تعلقات کو کشیدگی سے پاک کریں۔ اختلافات اور مسائل کو طاقت کی بجائے بات چیت کے ذریعے پُر امن طور پر حل کریں۔ خوشی کی بات ہے کہ اب نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کو سختی سے احساس ہو گیا ہے کہ مسائل کے حل کیلئے بات چیت کا کوئی نعم البدل نہیں اور زندگی کے ہر شعبے مثلاً تجارت، ثقافت، صنعت،زراعت،صحت اور تعلیم میں تعاون سے دونوں ملکوں کو بے انتہا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات کی بحالی اور اس کے ساتھ پاک بھارت تنازعات کے حل کیلئے سنجیدہ اور مخلص کوششوں کے نتیجے میں اعتماد کی فضا بہتر ہو گی اور یہ صورتِ حال وہ ہے جس میں ڈاکٹر من موہن سنگھ پاکستان کا دورہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور اُمید ہے کہ اس بریک تھرو کو چھ،سات ماہ سے زائد عرصہ نہیں لگے گا۔ہو سکتا ہے دونوں ملک اٹل بہاری واجپائی کی دہلی سے لاہور بس یاترا کی پندرھویںسالگرہ کے موقعہ پر یعنی 21فروری2014ء کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورہ پاکستان کی تاریخ پر متفق ہو جائیں۔