گذشتہ برس15اپریل کو پک اَپس پر سوار اور بھاری ہتھیاروں سے لیس 100سے زائد دہشت گرد رات کے اندھیرے میں صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر بنوں میں داخل ہوئے۔شہر کی مرکزی جیل پر دھاوا بولا۔دوگھنٹے میں اپنی کارروائی مکمل کر کے 384قیدیوں کو چھڑا کر ساتھ لے گئے۔چھڑائے جانے والے قیدیوں میں پاکستان ائیر فورس کا سابق آفیسر عدنان رشید بھی شامل تھا‘ جسے سابق صدر پرویز مشرف پر حملہ کی سازش میں ملوث ہونے کی وجہ سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔عدنان رشید کے علاوہ 21 دوسرے خطر ناک دہشت گرد جیل میں بند تھے جنہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔حملہ آور انہیں بھی چھڑا کر ساتھ لے گئے۔اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیاکہ انہوں نے اس حملے میں تمام اہداف کو حاصل کرتے ہوئے اپنے تمام ساتھیوں کو چھڑا لیا ہے۔ بنوں جیل بریک کے اس واقعہ کو پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت صوبہ خیبر پختون خوا میں اے این پی کی حکومت تھی‘ جسے میڈیانے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی نااہلی اورغفلت کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔اس واقعہ کے حوالے سے بہت سے سوالات بھی اٹھائے گئے مثلاً اتنی بڑی تعداد میں پک اَپس میں سوار اور جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح دہشت گرد پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آنکھوں سے اوجھل کس طرح شہر میں داخل ہوئے۔ وہ دو گھنٹے تک جیل پر قابض رہے اور اطمینان سے اپنا کام مکمل کر کے جیل میں بند اپنے قیدیوں سمیت فرار ہو گئے۔یہ واقعہ اے این پی کی حکومت کیلئے سخت ندامت کا باعث ثابت ہوا۔ردِعمل کے طور پر صوبائی حکومت نے بنوںکے ڈی آئی جی،کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کو غفلت برتنے پر معطل کر دیا۔معطل ہونے والوں میں جیل کے سپرنٹنڈنٹ بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ایک انکوائری کمیٹی بھی بٹھا دی گئی جس کی رپورٹ تاحال منظر عام پر نہیں آئی؛ تاہم بنوں جیل بریک سے جو باتیں کھل کر سامنے آئیں وہ یہ تھیں کہ جیل میں انتہائی خطرناک اور ہائی پروفائل دہشت گرد بندہونے کے باوجود اس کی سکیورٹی کا مناسب اہتمام نہیں کیا گیاتھا۔یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ حملہ انتہائی منظم تھا اور اس کی منصوبہ بندی پر مہینوں صرف کیے گئے ہوں گے۔ لیکن اس دوران ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کان میں اس پلاننگ کی بھنک کیوں نہیں پڑی؟ حملہ آور جدید ترین اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے جن کے مقابلے میں جیل کی حفاظت پر مامور چند سپاہیوں کے ہاتھوں میں ہلکے اور پرانے ہتھیار کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ توقع تھی کہ بنوں جیل توڑے جانے کے اس واقعہ سے صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتیں ضرور ی سبق سیکھیں گی اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے تمام اہم تنصیبات خصوصاً جیلوں کی سکیورٹی کا فول پروف سسٹم قائم کیا جائے گا۔ لیکن 30جولائی کی شب ڈی آئی خان کی جیل پر دہشت گردوں کے حملے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کہ ہمارے حکمران اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرنے سے قاصر ہیں۔بنوں جیل بریک سے ملتے جلتے انداز میں اس دفعہ200کے قریب دہشت گرد پک اَپس اور موٹر سائیکلوں پر سوار ڈی آئی خان شہر کے عین وسط میں واقع صوبے کی سب سے بڑی جیل پر حملہ آور ہوئے اور اطلاعات کے مطابق ڈھائی سو سے زائد قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے۔حملے میں 12افراد کو ہلاک کر دیا گیا جن میں پولیس کے چھ سپاہی بھی شامل ہیں۔اس دفعہ بھی حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔اس کالعدم تنظیم کے ترجمان کے بیان کے مطابق اس حملہ کی چھ ماہ تک منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ یہا ں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے لمبے عرصہ کے دوران ہماری ایجنسیوں کو اس حوالے سے جاری سرگرمیوں کی کیوں خبر نہ ہو سکی؟ غالباََ اسی بنا پر خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو یہ کہنا پڑا کہ یہ واقعہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نااہلی کی وجہ سے پیش آیا۔البتہ انہوں نے یہ کہا کہ واقعہ کی مکمل اور اعلیٰ سطح پر تحقیقات کروائی جائے گی اور ذمہ دار یا غفلت کے مرتکب افسران کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔اس سلسلے میں انہوں نے ڈی آئی خان کے چند پولیس افسران کو معطل بھی کر دیا ہے لیکن کیا ان اقدامات سے بنوں اور ڈی آئی خان جیسے واقعات کی روک تھام ہو سکتی ہے یا دہشت گردی کے عفریت کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ماضی میں ایسے کئی اقدامات کیے گئے لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ گذشتہ ایک برس سے دہشت گردوں کے حملوں میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ ان کے حملے پہلے کے مقابلے میں زیادہ منظم ہیں اور تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی دو ماہ سے بھی کم عرصہ گزرا ہے،لیکن اس دوران دہشت گردی کے 50سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں270سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ڈی آئی خان جیل پر حملہ بنوں جیل توڑنے کے مقابلے میں محض اس لیے زیادہ باعثِ تشویش نہیں کہ اس میں حملہ آور دہشت گردوںکی تعدادزیادہ تھی یا وہ زیادہ دیر تک جیل پر قابض رہے اور اس دوران پولیس تاخیر سے پہنچی بلکہ جس مقدار میں بھاری اور مہلک اسلحہ حملے میں استعمال کیا گیا اور حملہ آوروں کے فرار کے بعد برآمد ہوا اس سے دہشت گردوں کی عسکری صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں کے چلے جانے اور قیدیوں کے فرار کے بعد جیل کی تلاشی کے نتیجے میں جوہتھیار برآمد ہوئے،ان میں28ٹائم بم،4ریمورٹ کنٹرول دیسی ساخت کے بم،ایک خودکش جیکٹ،پانچ راکٹ لانچراور 8گرنیڈ شامل ہیں۔ دہشت گردوں نے جیل کی دیواروں، دروازوں اور دیگر رکاوٹوںکو اڑانے کیلئے اور پولیس پراندھا دھند فائرنگ میں ساڑھے چار گھنٹے تک جو اسلحہ استعمال کیا‘ وہ اس کے علاوہ ہے۔ دہشت گردوں نے اگرچہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ چھ ماہ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے؛ تاہم اس کیلئے جو وقت چنا گیا ہے،وہ بھی ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہے۔ حکومت‘ جو 11مئی کے پارلیمانی انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی‘ اس وقت گو مگو اور غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔بڑے طمطراق اور دھوم دھام سے اعلان کیا گیا کہ آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ایک کائونٹر ٹیررازم اور نیشنل سکیورٹی پالیسی تشکیل دی جائے گی‘ لیکن حکومت کی کوشش کامیاب ہوتے نظر نہیں آتی۔دہشت گردوںنے ایک کنفیوزڈ حکومت کو مزید کنفیوز کرنے کیلئے ڈی آئی خان جیل پر حملہ کیا ہے اور وہ بظاہر اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں کیوں کہ اتنے بڑے دہشت گردی کا واقعہ کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس ردِعمل نہیں آیا۔ خصوصاََ خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کی حالت تو انتہائی قابل رحم ہے‘ جن کے وزیر اعلیٰ نے کچھ عرصہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ طالبان سے ان کی کوئی لڑائی نہیں اور یہ کہ صوبے بلکہ پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات صرف امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ معلوم نہیں ہم اسے سادہ لوحی کہیں یا ابن الوقتی کیوں کہ طالبان کی سب سے بڑی پارٹی، ٹی ٹی پی نے پے در پے حملے کر کے پاکستان تحریک انصاف کے ارباب اختیار کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک جامع، مربوط اور قومی اتفاق رائے پر مبنی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ ڈی آئی خان جیل پر حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایک دن بعد امریکی وزیرخارجہ جان کیری پاکستان تشریف لانے والے تھے۔ دہشت گردوں کی طرف سے حملہ موجودہ حکومت کیلئے وارننگ کے مترادف ہے‘ کیوںکہ حکومتی ارکان کے بیانات کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان نہ صرف موجودہ تعلقات کو مستحکم کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان کی طرف سے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون کو مزید بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔