کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک دفعہ پھر حکومت ِپاکستان کو بات چیت کی پیشکش کی ہے۔گذشتہ تقریباً 8ماہ میںپاکستانی طالبان کی طرف سے یہ تیسری پیشکش ہے۔اس سے قبل گذشتہ برس دسمبر میں طالبان نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو مطلع کیا تھا کہ وہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں‘بشرطیکہ ان کے چار اہم مطالبات تسلیم کر لئے جائیںیعنی:امریکہ سے رشتہ ختم کر دیا جائے، پاکستان کے موجودہ قانون اور آئین کی جگہ طالبان کی شریعت پر مبنی سیاسی اور قانونی نظام نافذ کیا جائے،افغانستان میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ میں پاکستان طالبان کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالے اور بھارت سے انتقام پر مبنی پالیسی اپنائی جائے۔ اس پیشکش کے منظر عام پر آنے سے پہلے اسی ماہ یعنی دسمبر2012ء میں تحریک طالبان نے دہشت گردی کی تین بڑی وارداتوں کا ارتکاب کیا تھا۔اس میں پشاور کے ہوائی اڈے پر خودکش حملے،اے این پی کے رہنما بشیر احمد بلور اور ان کے ساتھ8 مزید افراد کی خود کش حملے میںشہادت اور ایک چیک پوسٹ پر حملہ کے دوران 22نیم فوجی اہلکاروں کا اغوا شامل تھا۔ سابق حکومت نے طالبان کی اس پیشکش کو غیر سنجیدہ قرار دے کر رد کر دیا تھا اور اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا تھا کہ حکومت مذاکرات کیلئے طالبان کی طرف سے کسی پیشکش پر صرف اس وقت غور کرے گی جب تحریکِ طالبان پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسودخود اسے پیش کریں۔بعد میں ایک وڈیو کے ذریعے حکیم اللہ محسودکا یہ بیان سامنے آیا کہ طالبان بات چیت کیلئے تیار ہیں لیکن ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ طالبان نے مذاکرات کی دوسری پیشکش فروری2013ء میں کی اور حسبِ سابق اس پیشکش کے ساتھ بھی انہوں نے سرائے نورنگ چیک پوسٹ پر حملے کی صورت میں قوم کو خون آلود تحفہ دیا۔اس حملے میں13فوجی جوان شہید ہوئے تھے۔ دوسری پیشکش میں طالبان نے جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ(ن)کے قائد محمد نواز شریف کو ضامن بنانے کا مطالبہ کیا اور کہا تھاکہ بات چیت سے قبل حکومتِ پاکستان کو ان کے پانچ اسیر کمانڈروں کو رہا کرنا ہو گا۔ان میں مالاکنڈ میں طالبان کے ترجمان مسلم خان،سوات میں طالبان کمانڈر محمود خان اور تحریک طالبان کے سابق ترجمان مولوی عمر شامل تھے۔اس پیشکش کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا تھا کہ حکومت مذاکرات پر تیار ہے لیکن طالبان بتائیںکہ ان کی طرف سے مذاکراتی ٹیم میں کون کون شامل ہو گا؟لیکن ان مذاکرات کا بھی آغاز نہ ہو سکا۔کیوںکہ طالبان نے اپنے ایک سینئر لیڈر ولی الرحمن کی ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کا بہانہ بنا کر یہ پیشکش بھی واپس لے لی تھی۔ ایک موقع پر یعنی نومبر2012ء میں جب سابق حکومت کے وزیرداخلہ رحمن ملک نے تحریک طالبان کو عام معافی اور بات چیت کی پیشکش کی تو طالبان نے اپنے ترجمان کے ذریعے نہ صرف اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیا بلکہ رحمن ملک کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دے کر کہا کہ یہ کون ہوتا ہے طالبان کیلئے عام معافی کا اعلان کرنے والا۔ یہ تو بقول ان کے،خود ناقابلِ معافی جرم کا مرتکب ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ وہ دہشت گردی کی اپنی کارروائیاں اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ پاکستان میں ’’امریکہ کی مسلط کردہ سیکولر حکومت‘‘ کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔اس کے ایک ماہ بعد طالبان بات چیت پر آمادگی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک آدھ دہشت گردی کی واردات بھی کر دیتے ہیں جن کا واضح طور پر مقصد اپنی طاقت کا مظاہرہ ہے۔پیشکش کے ہمراہ جن شرائط کا اعلان کیا جاتا ہے وہ اتنی لغو، بے معنی اور ناقابلِ عمل ہوتی ہیں کہ خود طالبان کو یقین نہیں ہوتا کہ کوئی بھی حکومت انہیں تسلیم نہیں کر سکتی۔ اس لیے اگر اب تک حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز نہیں ہو سکا تو کچھ لوگوں کی رائے کے برعکس اس کی وجہ حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ خود طالبان کا موقف غیر سنجیدگی بلکہ منافقت پر مبنی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا بات چیت کی پیشکش کے ساتھ ناقابل قبول شرائط کا عائد کرنا اور دہشت گردی کی وارداتوں کا بدستور جاری رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے طالبان کی طرف سے مذاکرات کیلئے تازہ ترین پیشکش ان کی سابقہ پیش کشوں سے مختلف نہیں البتہ پہلے تین رہنمائوں کی ضمانت طلب کی تھی‘ اب انہوں نے جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن کو بطور ضامن تجویز کیا ہے۔جماعت اسلامی کے امیر نے تو یہ کہہ کی اپنا دامن چھڑا لیا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی طرف سے کسی ممکنہ معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت نہیں دے سکتے۔البتہ مولانا فضل الرحمن ثالث بننے پر تیار ہیں اگر بقول ان کے حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ مذاکرات کی اس پیشکش سے پہلے ڈی آئی خان جیل بریک کا واقعہ پیش آیا تھا اور ایک ہفتہ کے وقفے کے بعد کوئٹہ میں ایک خودکش حملے میں40کے قریب افراد شہید ہو گئے تھے‘ جن میں پولیس کے ڈی آئی جی اور متعدد سینئر آفیسرشامل تھے۔طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا یہ مخصوص طریقہ ہے اور وہ اسے بار بار دہراتے ہیں اور تازہ ترین پیشکش کے موقع پر انہوں نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی کہ وہ اسے آئندہ نہیں دہرائیں گے۔ اس کے باوجود وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ طالبان کی موجودہ پیشکش میں چند مثبت نکات ہیں۔ان نکات کا انہوں نے انکشاف نہیں کیا۔البتہ یہ بات ضرور کی ہے کہ وہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے بات چیت اور پْر امن طریقے کو ترجیح دیں گے۔ اصولی طور پر تو اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن موجودہ حکومت‘ جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے‘ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے اس بات کا تعین کر لینا چاہیے کہ مذاکرات کے ذریعے طالبان کا مقصد دہشت گردی ختم کرنا ہے یا خطے میں وسیع پیمانے پر اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے کھلی چھٹی حاصل کرنا ہے۔کیونکہ بیرونی میڈیا میںاس نوع کی خبریں تواتر کے ساتھ چھپ رہی ہیں کہ افغان طالبان کے لیڈرملا عمر اس کوشش میں ہیں کہ القاعدہ پاکستانی طالبان کے تمام دھڑوں اور ان کی ہم رکاب فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے تاکہ2014ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی صورت میں کابل انتظامیہ پر ایک فیصلہ کن دھاوا بولا جا سکے۔حقانی نیٹ ورک تو پہلے ہی اس فریم ورک میں سر گرم عمل ہے۔ مبینہ طور پر پاکستان کی بعض جہادی تنظیموں کا بھی شروع سے افغان طالبان اور القاعدہ کے ساتھ رابطہ رہا ہے۔افغان طالبان،پاکستانی طالبان اور پاکستان کی جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے اس متحدہ محاذ کا ٹارگٹ صرف افغانستان میں کرزئی حکومت کا خاتمہ نہیں بلکہ وہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو پلیٹ فارم بنا کر دوسرے علاقوں میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک طالبان نے حکومت پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے جو شرائط عائد کی تھیں ان میں اس نوع کے اشارے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی حلقوں میں یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستانی طالبان اپنی شرائط پر حکومت پاکستان سے جنگ بندی کا معاہدہ کر کے افغان طالبان کے ساتھ مل کر اپنے تمام تر وسائل اور توانائیاں افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف جنگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔بھارت کو اندیشہ ہے کہ افغانستان پر قبضہ ہونے کی صورت میں افغان اور پاکستانی طالبان،کشمیر میں سرگرم جہادی تنظیموں کی حمایت کریں گے۔اس طرح جنگ اور دہشت گردی کا ایک نیا اور موجودہ مسئلے سے کہیں بڑا مسئلہ معرضِ وجود میں آسکتا ہے۔امید ہے چودھری نثار طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ان امکانات اور خدشات کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں گے۔