پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اوائل جون میں بطور وزیراعظم منتخب ہونے اور حلف اٹھانے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ بہت جلد قوم سے خطاب کریں گے۔تاہم قوم کو اس خطاب کیلئے ڈھائی ماہ انتظار کرنا پڑا۔ مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ کی ماری اور سب سے بڑھ کر خود کش حملوں اور بم بلاسٹ کے پیہم خوف میں مبتلا اس قوم نے انتظار کی یہ کٹھن گھڑیاں اس توقع کے ساتھ گزاری تھیں کہ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم جب ان سے بالآخر خطاب کریں گے تو انہیں درپیش مسائل کے کسی ٹھوس حل کی نوید سنائی جائے گی۔ لیکن 19اگست کو وزیراعظم کے قومی خطاب اور5جون کی تقریر کا موازنہ کیا جائے،تو ترجیحات،وعدوں اور ارادوں کے حوالے سے کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ مثلاََ قومی اسمبلی کے244ارکان کے ووٹ حاصل کرنے کے بعد جناب نواز شریف نے جو مختصر تقریر کی اس میں انہوں نے بجلی کی کمی دور کرنے،امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے،غربت اور کرپشن کو ختم کرنے،زرعی اور صنعتی ترقی کی رفتار تیزکرنے‘ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کو اپنی اولین ترجیحات قرار دیا تھا۔اس تقریر میں انہوں نے اوائل مئی میں پاکستان کے دورے پر آنے والے چینی وزیراعظم لی چی کیانگ سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے قوم کو یہ مژدہ بھی سنایا تھا،کہ پاکستان اور چین کے درمیان کاشغر سے گوادر تک ایک شاہراہ تعمیر کی جائے گی اور ریلوے لائن بچھائی جائے گی۔ جس سے نہ صرف چین اور پاکستان کے درمیان تجارت اور توانائی کی ترسیل میں اضافہ ہو گا،بلکہ وسطی ایشیا کے ساتھ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے روابط بھی قائم ہوجائیں گے۔اس تقریر میں انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ڈرون حملوں کی روک تھام کی جائے گی۔ ڈھائی ماہ کے بعد اپنے قومی خطاب میں جناب وزیراعظم نوازشریف نے تقریباََ وہی باتیں دہرائی ہیں دہشت گردی کے خاتمے،معاشی حالت بہتر بنانے اور لوڈشیڈنگ سے نجات کو انہوں نے ایک دفعہ پھر اپنی ترجیحات قرار دیا ہے۔لیکن ان مقاصد کے حصول کیلئے انہوں نے کسی ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان کیا اور نہ ہی کسی ایسے اقدام کا انکشاف کیا ہے جس سے عوام میں یہ امید پیدا ہو کہ کمر توڑ مہنگائی،بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور مسلسل لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ان کی جلد جان چھوٹ جائے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ملک کو درپیش مسائل کا صحیح،دوٹوک اور دیانت دارانہ تجزیہ کیا ہے۔مثلاََ معاشی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ قرضوں کے بوجھ تلے پہلے سے دبی قوم کو قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لینے پڑے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو ملک کو دیوالیہ قرار دیا جا سکتا ہے،جس کے نتائج ہر لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم نے عوام سے تعاون کی جو اپیل کی ہے،اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں عوام پر معاشی بوجھ میں اضافہ ہو گا کیونکہ بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی قیمتوںمیں بھی اضافہ متوقع ہے۔ان دونوں کی قیمتوں میں اضافے سے روزمرہ استعمال کی ہر شے مہنگی ہو جائے گی جس سے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بری طرح متاثر ہوں گے۔روپے کی قدر جس تیزی سے گر رہی ہے، تنخواہ دار اورپنشنروں پر مشتمل طبقہ اس سے الگ پریشان ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ان کیلئے کسی ریلیف کا اعلان نہیں کیا۔ وزیراعظم کا خطاب دراصل اُن کے پہلے اعلان کردہ وعدوں اور ارادوں کا اعادہ ہے خواہ ان کا تعلق ملک کی اندرونی صورتِ حال سے ہو یا بیرونی سطح پر درپیش چیلنجوں سے اورایسا کرتے وقت وزیراعظم نے اپنی سوچ اور سمت میں تسلسل (Consistency) اور ثابت قدمی(Stability)کا ثبوت دیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے اوراس سے وزیراعظم نوازشریف پر عوام کے اعتماد کو تقویت ملی ہے۔گذشتہ ڈھائی ماہ میں نئی حکومت کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر جن اچانک بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا،ان کے سامنے حکومت کے قدم نہیں لڑکھڑائے۔وزیراعظم کا خطاب یہ واضح کرتا ہے کہ بگاڑنے والے حالات کو جتنا مرضی بگاڑ لیں،پاکستان کی نئی منتخب جمہوری حکومت عوام کے وسیع تر مفاد میں قائداعظم کے قول (Peace within and Peace without)کے مطابق دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے امن اورجنگ دونوں طریقے آزمائے گی۔کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باوجود، وزیراعظم کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان،وزیراعظم کی طرف سے ایک جرأت مندانہ اور قابل ستائش اقدام ہے۔اس سے ان عناصر کی یقیناحوصلہ شکنی ہو گی جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا کر تصادم کی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم کے اس اعلان پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی مثبت ردِعمل کی توقع ہے کیوں کہ پوری دنیا بشمول ہمارا دوست ملک چین جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کا خواہاں ہے کیوں کہ امن ہو گا تو باہر سے سرمایہ کار پاکستان اور بھارت میں سرمایہ کاری کریں گے۔ باہر کی سرمایہ کاری کے بغیر یہ دونوں ملک معاشی ترقی اور قومی دولت میں اضافے کے اہداف پورے نہیں کر سکتے۔اس طرح پاکستان کی افغان پالیسی کے بارے میں وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ایک جرأت مندانہ سوچ کا مظہر ہے۔اب تک افغانستان ہر سویلین حکومت کیلئے ایک شجرِممنوعہ رہا ہے اور اس مسئلے کو ہینڈل کرنے کے تمام اختیارات منتخب حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے پہلے مشرق یعنی بھار ت کی طرف سے پاکستان کیلئے سب سے بڑے خطرے کی بات کی جاتی تھی اب مغربی سرحدیں محفوظ نہیں ۔افغانستان میں طالبان اور اتحادی فوجوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔ 2014ء میں امریکہ کے متوقع انخلا سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتِ حال،پاکستان کیلئے ایک اہم وجہ تشویش ہے۔اس صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے گا،ابھی تک پاکستان کی طرف سے کسی پالیسی فریم ورک کے آثار نظر نہیں آئے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے لیکن صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں اور اس سے پہلے بھی مختلف مواقع پر اپنے بیانات میں بار بار1999ء یعنی مشرف کی فوجی بغاوت سے پہلے کے حالات کا حوالہ دیا ہے جن کے مطابق،بقول وزیراعظم،پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کے قریب تھا، خطے میں پاکستان سب سے زیادہ ترقی کی رفتار والا ملک تھا اور پاکستان کی معیشت مضبوط بنیادوں پر قائم تھی۔یہ باتیں درست ہوں گی لیکن وزیراعظم کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ گذشتہ14سال میں دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے۔معاشی ترقی کے جو ماڈل 2008ء سے قبل رائج تھے وہ2008ء کے بین الاقوامی مالی بحران کے بعد موزوں نہیں رہے۔کیوں کہ ان کی بنیاد مادرپدر آزاد فری مارکیٹ اکانومی کے فریم ورک اور حریص سرمایہ دارانہ نظام پر تھی اور ان ماڈلوں کے ذریعے جس ترقی کا دعویٰ کیا جاتا ہے،اس کا فائدہ صرف بڑے بڑے بینکوں،ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو پہنچا جہاں تک متوسط اور غریب طبقے کا تعلق ہے،ان کے حصے میں بیروزگاری اور غربت کے علاوہ کچھ نہیں آیا۔یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے بحران اور خلفشار کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔جنوبی ایشیا میں بھی کم و بیش اس قسم کے حالات پائے جاتے ہیں۔ان کے پیشِ نظر وزیراعظم نواز شریف کو پاکستان میں معاشی ترقی کے نظریے میں ایکParadigm Shiftکا اعلان کرنا چاہیے تھا۔