2004ء کے اوائل میں پاکستان اور بھارت نے باہمی تعلقات کی بہتری کی خاطر بات چیت کیلئے جن آٹھ شعبوں کی نشان دہی کی تھی اْن میں دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی وفود کے تبادلے اور عوامی سطح پر رابطوں کو فروغ دینا بھی شامل تھا۔ بلکہ کمپوزٹ ڈائیلاگ اور امن کے عمل کے باقاعدہ اور رسمی آغاز سے بہت پہلے جب اپریل2003ء میں بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے سری نگر میں کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کی پیش کش کی تھی تو اْس کے جواب میں پاکستان کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے جن تین شعبوں میں ابتدائی بات چیت کا آغاز کرنے کی تجویز پیش کی تھی، اْن میں ثقافتی تعلقات اور عوامی سطح پر رابطے بڑھانا بھی شامل تھا۔پاک بھارت مذاکرات کا باقاعدہ آغاز مارچ2004ء میں ہوا اور اس میں 2008ء تک ماہرین سے لیکر سیکرٹری اور پھر وزرائے خارجہ کی سطح پر چار رائونڈہوئے۔ان مذاکرات میں دونوں ملکوں نے کشمیر، سیاچین، سرکریک، وولربیراج،تجارت،انسداد دہشت گردی،منشیات کی سمگلنگ کے علاوہ آپس میں ثقافتی رابطوں کو بڑھانے پر مذاکرات کیے۔ان مذاکرات پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جہاں تک دونوں ملکوںکے درمیان دوطرفہ تنازعات یعنی کشمیر،سیاچین،سرکریک اور دریائوں کے پانی کا تعلق ہے ،ان کے حل کی طرف کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔لیکن اس کے باوجودپاکستان اور بھارت نے نہ صرف مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا بلکہ دونوں جانب سے یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ اس مذاکراتی عمل کے نتیجے میںپاک بھارت کشیدگی کم ہوئی ہے اور خطے میں سکیورٹی کا ماحول بہتر ہواہے۔یہی وجہ ہے کہ نومبر2008ء میں ممبئی کے دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں یہ عمل تین برس تک معطل رہنے کے باوجود2011ء میں دوبارہ بحال کر دیا گیا۔پاکستان اور بھارت کی مذاکراتی ٹیموں میں مذاکرات شروع ہوگئے۔اس عرصہ کے دوران بھارت کے وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا پاکستان آئے اور پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارت کا دورہ کیا۔ان اقدامات سے دونوں ملکوں میں بعض اہم اْمور پر مفاہمت بھی ہو گئی۔جن میں دوطرفہ تجارت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ دوطرفہ تجارت میں اضافے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی طرف سے بھارت کو MFNکا درجہ نہ دینے کی پالیسی تھی۔پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے فیصلہ کر لیا تھا کہ تجارت کے عالمی ادارے(WTO)کے قواعد و ضوابط کے مطابق بھارت کو دسمبر2012ء تکMFNکا درجہ دے دیا جائے گا۔لیکن اسی اثنا میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی اور یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔مئی2011ء کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت نے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی حمایت کی تو6اگست کا واقعہ رْونما ہو گیا جس میں ایک دفعہ پھر لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی سپاہیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔اس جھڑپ میں پانچ بھارتی جوان مارے گئے۔اس پر بھارت کی جانب سے جو ردِعمل سامنے آیا اْس کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے احتجاج کے باوجودبھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے پار بھارتی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں طرف جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے لیکن کشیدگی بدستور قائم ہے جو کسی وقت بھی ایک بڑے سرحدی تصادم کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ امن مذاکرات کے سلسلے میں پاکستانی اور بھارتی حکام کے درمیان جو ملاقاتیں طے تھیں،وہ موخر کر دی گئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجودبھارت کی طرف سے امن مذاکرات کے عمل کو مستقل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کیاگیا۔ حالانکہ اپوزیشن اور انتہا پسند ہندو جماعتوں کی طرف سے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت پر سخت دبائو ڈالا جا رہا ہے۔اس امن مذاکرات کے عمل کی اہمیت اور تقویت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ممبئی حملوں اور لائن آف کنٹرول پر سنگین واقعات کے باوجود نہ پاکستان اور نہ بھارت نے اس کو ترک کرنے کے بارے میں سوچاہے۔ ایسا کیوںہے؟اس کی متعدد وجوہات ہیںجن کا یہاں ذکرکرنا ضروری نہیں لیکن سب سے زیادہ جو عنصر اس عمل کی تقویت کا باعث بنا ہے،وہ دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی رشتوں اور عوامی رابطوں کو فروغ دینے میں دانشوروں،صحافیوں ،ادیبوں اور آرٹسٹوں کی خدمات ہیں۔یہ سچ ہے کہ امن مذاکرات کا عمل پاکستان کی توقعات کے برعکس سْست روی کا شکار رہا ہے اور بھارت کے ساتھ دوطرفہ تنازعات یعنی کشمیر،سیاچین اور وولر بیراج کے حل میں کوئی قابلِ ذکر پیش قدمی نہیں ہوئی۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوںسے زیادہ عرصہ کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے جتنے بھی دورہوئے،اْن میں موجودہ عمل ہے جو ایک آدھ مرتبہ معطل ہونے کے باوجودجاری ہے اور دونوں ملک اس کو جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر رابطوں میں اضافے نے اس عمل کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے جسے ممبئی جیسے واقعات اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والے افسوسناک واقعات ہلا نہیں سکے۔ لیکن سرحد کے دونوںپار چند اور محدود عناصر پیہم اس کوشش میں ہیں کہ اس بنیاد کو مسمار کردیاجائے تاکہ امن،تعاون اور خیر سگالی پر مبنی پاک بھارت تعلقات کی عمارت کھڑی نہ ہو سکے۔یہ عناصر کون ہیں؟امن کے دْشمن،فن کے دْشمن اور محبت و پیارکے دْشمن جنہیں عوام کے درمیان دوستی اور قریبی رشتے ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔کیونکہ اس طرح وہ مکمل طور پر الگ تھلگ ہو جائیں گے۔اْن کے مذموم ایجنڈے سے ہر کوئی واقف ہو جائے گا۔بھارت کے شہر احمد آباد میںپاکستانی اور بھارتی مصوروں کے فن پاروں کی نمائش کو جن لوگوں نے تہس نہس کیا اور انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں کو اْجاگرکرنے والی اور سال ہا سال کی محنت سے تیار ہونیو الی بیش قیمت تصویروں کو جس طرح روندا گیا،اْس سے ان لوگوں کے مکروہ چہرے پوری طرح بے نقاب ہو گئے ہیں۔ پسِ منظر اس واقعہ کا یوں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے چند نامور مصوروں کی تیار کردہ تصویروں کی نمائش باری باری دونوں ملکوں کے اہم شہروں میں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا ۔ پاکستان کی طرف سے اسلام آباد کے مشہور مصور ڈاکٹر ارجمند فیصل کا ادارہ گیلری6اور بھارت کی طرف سےICACحصہ لے رہے تھے۔بھارت کے جن شہروں کو ان فن پاروں کی نمائش کیلئے منتخب کیا گیا،اْن میں ممبئی،احمدآباد،دہلی اور چنائی (سابقہ مدراس)شامل ہیں۔پروگرام کا آغاز گزشتہ فروری میں ممبئی سے ہوا۔لیکن جنوری میں لائن آف کنٹرول پر مبینہ طور پر پاکستانی سرحدی فوج کے ہاتھوں دوبھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور ہلاک شدہ بھارتی فوجیوں میں سے ایک کے سرکاٹنے کے واقعہ کی وجہ سے ماحول میں سخت کشیدگی تھی۔ نمائش کے منتظمین کے مطابق بہت کم لوگ نمائش دیکھنے آئے۔ نتیجتاًفروخت ہونے والی تصویروں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگلے مرحلے میں نمائش کا اہتمام احمد آباد میں کیا گیا اور یہ نمائش13اگست سے18اگست تک پبلک کیلئے کْھلی رکھنے کا پروگرام تھا۔لیکن16اگست کو ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے نمائش پر حملہ کر دیا۔اْنہوں نے نہ صرف نمائش کے تمام انتظامات اور تنصیبات کو تہس نہس کر دیا بلکہ نمائش میں رکھی جانے والی تصویروں کوبھی پھاڑ کر پائوں تلے روندا۔ان میں17پاکستانی اور 7بھارتی مصوروں کی تصویریں شامل تھیں۔ہندو انتہا پسندوں کے گروپ کی اس حرکت کا سبب لائن آف کنٹرول پر پائے جانے والی پاک بھارت کشیدگی بتائی جاتی ہے۔وجہ کچھ بھی ہو فن کاروں کے نادر شاہکاروں کواس طرح تباہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ۔تاریخ میں اس قسم کی وارداتیں صرف خونریز حملہ آوروں کے ہاتھوں ہی وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں۔ لیکن جدید مہذب دنیا میں اس قسم کی مذموم حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندوانتہا پسندوں کی اس مذموم حرکت کی نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت میں بھی شدید مذمت کی جارہی ہے۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امن اور خیر سگالی کے دْشمن کس حد تک جا سکتے ہیں۔دراصل پاکستان اور بھارت میں امن کی اہمیت اور ضرورت کے بڑھتے ہوئے احساس نے دونوں ملکوںمیں انتہا پسندوں پر مشتمل لابی کوبوکھلا دیا ہے اور وہ اس عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ حرکتیں کرتی رہتی ہے۔احمد آباد میں مصوری کے شاہپاروں کی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تباہی اسی شکست خوردہ ذہنیت کی آئینہ دار ہے۔