اسلام آباد میں پیر کو کُل جماعتی کانفرنس میں متفقہ قرار داد منظور کی گئی جس میں بغیر کسی شرط کے‘ لیکن آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے‘ پاکستانی طالبان کے سب سے بڑے گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بات چیت کی پیش کش کی گئی ہے۔ٹی ٹی پی نے پاکستان کے شمال میں واقع قبائلی علاقوں کو اپنا اڈہ بنا رکھا ہے لیکن ان کی کارروائیاں ملک کے تمام حصوں میں جاری ہیں۔حالیہ چند ماہ کے دوران میں پاکستان کے مختلف شہروں اور مقامات پر خود کش حملوں،ریموٹ کنڑول بم دھماکوں اور پولیس،رینجرز حتیٰ کہ فوجی دستوں اور چوکیوں پردستی بموں اور بھاری ہتھیاروں سے جس طرح حملے کیے گئے ہیں،ان سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد جب اور جہاں چاہیں کارروائی کر سکتے ہیں۔ پولیس،فوج اور نیم فوجی دستے ان کارروائیوں کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ان کارروائیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور عام شہری خوف اور عدم تحفظ کے جس احساس کا شکار ہے،اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ایک اطلاع کے مطابق گزشتہ سو دنوں میں تقریباََ چار سو دہشت گردی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کے سامنے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو،دہشت گردی سے ملک کو پاک کیا جائے۔ گزشتہ ماہ وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے جو خطاب کیا تھا،اس میں بھی سب سے اہم پیغام یہی تھا کہ ہر ممکنہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔جیسا کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں قوم کو بتایا تھا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے حکومت کے پاس کئی آپشن ہیں۔لیکن بات چیت کا آپشن سب سے بہتر ہے اور سب سے پہلے اسی آپشن کو آزمایا جانا چاہیے‘ اگر یہ ناکام ہو جائے تو ریاست کی پوری طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کرنی چاہیے۔9ستمبر کو کل جماعتی کانفرنس میں6نکاتی اعلان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف بات چیت پر مبنی جس حکمت عملی پر اتفاق ہواہے اس میں یہی لائن اختیار کی گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اقدام سے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ کیاٹی ٹی پی دہشت گردی سے تائب ہو جائے گی؟ اور اگر وہ اندرونِ ملک اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کو روک دیتے ہیں تو مغربی سرحد سے پار افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر عسکری کارروائیوں کا کیا بنے گا؟ کیوں کہ ماضی میں حکومت (دراصل فوج) اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کیلئے جب بھی بات چیت ہوئی تو طالبان کی طرف سے پیش کئے جانے والے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی شامل تھا کہ انہیں اور ان کے غیر ملکی جنگجو ساتھیوں کو افغانستان میں کارروائیوں کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔ ٹی ٹی پی اب بھی اپنے آپ کو ملا عمر کی قیادت میں لڑنے والے افغان طالبان کا حصہ سمجھتی ہے۔ افغان طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجو اب بھی ٹی ٹی پی کی صفوں میںموجود ہیں۔کیا کل جماعتی کانفرنس کی منظور کردہ قرارداد کے تحت ہونے والے مذاکرات میں ان عناصر کی سرگرمیوں پر بھی بات چیت ہو گی؟ میڈیا میں مختلف ذرائع کے حوالے سے چھپنے والی اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اکیلی نہیں۔ جیسا کہ گزشتہ برس پشاور ایئر بیس پر ہونے والے خود کش حملوں اور حال ہی میں ڈیرہ اسمٰعیل خاں میں جیل پر دھاوا بولنے کے واقعات کی تفصیلی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ اب غیر ملکی دہشت گردبھی دہشت گردی کی وارداتوں میں شریک ہوتے ہیں؛ بلکہ صوبہ خیبر پختون خوا کی سابق حکومت کے ایک سینئر لیڈر اور وزیراطلاعات میاں افتخار حسین کے مطابق ٹی ٹی پی کی صفوں میں اب غیر ملکی دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں جن میں زیادہ تر معصوم شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں‘ ٹی ٹی پی کے خلاف عوامی رائے عامہ کی سطح بلند ہو رہی ہے اور انہیں نئے پاکستانی ریکروٹ نہیں مل رہے، اس لیے ٹی ٹی پی کا غیر ملکی دہشت گردوں پر انحصار بڑھ رہاہے۔کل جماعتی کانفرنس کی قرارداد کی روشنی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیلئے جو حکومتی ٹیم تشکیل دی جائے گی،اس کے سامنے یہ بھی ایک اہم سوال ہو گا کہ معاہدے کی صورت میں ہمارے قبائلی علاقوں میں برس ہا برس سے مقیم غیر ملکی دہشت گردوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ اسی طرح سکیورٹی حکام کے بیانات کے مطابق،پاکستان میں سرگرم جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموںاور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اور قریبی رشتے موجود ہیں اور ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور تشدد کے جو واقعات رونما ہوتے ہیں،ان میں یہ سب دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میںہوتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کرتی ہیں۔یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان ٹی ٹی پی کو ہی دہشت گردی کا منبع سمجھ کر بات چیت کے ذریعے اس سے معاملات طے کرنا چاہتی ہے‘ یا دہشت گردی کو ایک ملک گیر مسئلہ سمجھ کر اس کے سدِ باب کیلئے دیگردہشت گرد تنظیموں کو بھی بات چیت میں شامل کرے گی؟یہ سوال اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا سنٹر آف گریویٹی(Centre of Gravity)صرف پاکستان کے قبائلی علاقے ہیں اور ان ہی علاقوں کو ملک میں دہشت گردی کیلئے بطور پلیٹ فارم استعمال کیا جاتا ہے۔تصویر کا یہ صرف ایک رخ ہے اور اس سے پوری حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ پنجاب کے آئی جی پولیس کے ایک بیان کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں سرگرم دہشت گرد تنظیموںکا اصل سپورٹ بیس(Support Base)پنجاب ہے جہاں پاکستان کے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی سوچی سمجھی پالیسیوں کے تحت انتہا پسند رجحانات کی حامل مذہبی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی کی جاتی رہی ہے اور اب بھی پنجاب کے قدامت پسند سوچ کے حامل طبقے ان تنظیموں کی مالی امداد کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔جب تک دہشت گردی کے مسئلے کو اس کے تاریخی اور سماجی سیاق و سباق میں رکھ کرجائزہ نہیں لیا جاتا،دہشت گردی کے خلاف کوئی حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح دہشت گردی کے مسئلے کا ایک بیرونی پہلو بھی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں سے جانی ومالی نقصان اگرچہ پاکستانیوں کا ہو رہا ہے۔لیکن دہشت گردی اب صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں رہا بلکہ سرحدوں کے پار اس کے ممکنہ اثرات کے پیش نظر یہ ایک علاقائی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کا مسئلہ بن چکا ہے۔پاکستان کی حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے مسئلے سے کس طرح نمٹتی ہے؟بین الاقوامی برادری خصوصاََپاکستان اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک بشمول چین،روس اور امریکہ اس کا بنظرِ غور جائزہ لیں گے‘ اس لیے طالبان سے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے مسئلے کا حل تلاش کرتے وقت ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس پر عالمی برادری کا کیا ردِعمل ہوگا؛ کیونکہ فاٹا سے سرگرم دہشت گردوں کے تانے بانے سرحدوں کے پار دہشت گرد تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کی متفقہ قرارداد ایک ابتدائی اقدام ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے،کہ اس سے ایک مخصوص حکمت عملی پر قومی اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔لیکن قومی اتفاق رائے پر مبنی قراردادیں پہلے بھی منظور کی جا چکی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان بات چیت کی میز پر کیا مطالبات رکھتے ہیں اور حکومت کو اس کل جماعتی کانفرنس سے جو مینڈیٹ ملا ہے،اس کے اندر رہتے ہوئے طالبان کے مطالبات کہاں تک تسلیم کیے جا سکتے ہیں۔