بھارت میں پارلیمانی انتخابات اگلے سال مئی میں منعقد ہونے والے ہیں لیکن ملک کی دو سیاسی پارٹیوں یعنی کانگرس اور بی جے پی لنگوٹ کس کر میدان میں ابھی سے اتر پڑی ہیں۔بی جے پی نے وزارتِ عظمی کیلئے گجرات کے وزیرا علیٰ نریندرامودی کی نامزدگی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔اس کے مقابلے میں اگرچہ کانگرس نے اپنے امیدوار کا باضابطہ اعلان تو نہیں کیا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندرا مودی کا مقابلہ کانگرس کی صدر سونیا گاندھی کا بیٹا راہول گاندھی کرے گا۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے موجودہ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے چند روزپیشتر ایک بیان میں کہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں وزارتِ عظمی کے کانگرسی امیدوار کی حیثیت سے راہول گاندھی موزوں ترین شخصیت ہیں اور یہ کہ وہ یعنی ڈاکٹر من موہن سنگھ راہول گاندھی کے ماتحت کام کر کے بہت خوش ہوں گے۔آج سے تین ماہ قبل بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اسی قسم کا بیان دیا تھا۔جس میں انہوں نے کہا تھا کہ راہول گاندھی ایک نیچرل (Natural)لیڈر ہیں۔ویسے بھی اپنے حریف یعنی نریندرا مودی کے برعکس راہول گاندھی کو اپنی پارٹی یعنی کانگرس میں کسی قسم کی مزاحمت یا کسی طرف سے تحفظات کا سامنا نہیں۔بلکہ کانگرس میں عام کارکنوں سے لیکر چوٹی کے لیڈروں تک راہول گاندھی کوآئندہ انتخابات میں وزارتِ عظمی کیلئے پارٹی امیدوار بنانے کے حق میں رائے پائی جاتی ہے۔اس کی ایک وجہ کانگرس میں نہرو خاندان‘ جس نے ملک کو تین وزرائے اعظم دیئے ہیں،کیلئے کارکنوں کی جذباتی وابستگی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کا آئندہ وزیراعظم نہ صرف کانگرس سے ہو بلکہ نہرو خاندان سے ہو1989ء کے انتخابات میں راجیو گاندھی کی شکست کے بعد اگرچہ کانگرس کی یونین حکومتیں رہی ہیں۔ لیکن گزشتہ 24برس سے نہرو خاندان کا براہ راست وارث وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نہیں بیٹھا یہی وجہ ہے کہ جب اس سال جنوری میں جے پور میں منعقدہ کانگرس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں راہول گاندھی کو پارٹی کے نائب صدر کے عہدے کیلئے چنا گیا تو کارکنوں میںکافی جوش وخروش تھا۔اس وقت یہ واضح ہو گیا تھا کہ2014ء کے انتخابات میں کانگرس مہم کا انچارج راہول گاندھی ہو گا۔اس موقعہ پر راہول نے جو تقریر کی تھی اس میں اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اقتدار اور پاور کیلئے میدان ِسیاست میں قدم نہیںرکھ رہا بلکہ اس کا مقصد بھارت کے غریب عوام اور خصوصاََ نوجوان طبقے کو درپیش مسائل اور مشکلات کو منظرِعام پر لانا ہے،تاکہ اس کے نزدیک بھارت کے ان اصلی وارثوں کو انصاف مل سکے۔ایک اور موقع پربھارت کے صنعتکاروں اور کاروباری لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے ایک دفعہ پھر اپنے ویژن کی وضاحت کی تھی جس کے تحت وہ بھارت میںنئی اور پرانی نسل کے لوگوں،حکمرانوں اور محکوموں اور امیر اور غریب عوام کے درمیان فاصلے کم کرنا چاہتا ہے۔لیکن اب تک راہول گاندھی نے اپنی تقاریر اور بیانات میں جو کچھ کہا ہے،ناقدین کے نزدیک ان میں ویژن زیادہ ہے لیکن کنکریٹ باتیں نہیں۔ حالانکہ بھارت ان دنوں جن حالات سے گزر رہا ہے ان کے پیشِ نظر عوام اپنی سیاسی قیادت سے آئیڈیل باتوں کی بجائے،ٹھوس اور کنکریٹ باتیں سننا چاہتے ہیں۔ان مسائل میں سب سے بڑااور اہم معیشت کامسئلہ ہے۔گزشتہ چند برسوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میںجس تیزی سے کمی آئی ہے اس نے مہنگائی اور افراطِ زرمیں اضافہ کر کے نہ صرف عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، بلکہ بھارت کے صنعتکاروں اور تاجروں سے بھی بہت نقصان پہنچایاہے نتیجتاً ملک کے صنعتکاروں اور تاجروں کی بھاری اکثریت نریندرا مودی کے حق میں ہے۔اس کی ایک اور وجہ بھی ہے۔گجرات میں نریندرا مودی نے معاشی ترقی کی رفتار کو جس طرح بلند سطح پر رکھا ہے اس کی وجہ سے نریندرامودی بھارتی ہی نہیں بلکہ مغربی سرمایہ کاروں کے بھی ہیرو بن چکے ہیں۔ اور بطور ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر اور مستعد چیف منسٹر کے اس کی ملک کے باہر اور ملک کے اندر جو تشہیر کی جارہی ہے،اس میں بھی اندرونی اور بیرونی سرمایہ دار لابی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔گجرات کو ایک ڈویلپمنٹ ماڈل اور نریندرا مودی کو ایک آئیڈیل لیڈر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔لیکن نریندرا مودی نے بھی بھارت کو درپیش شدید معاشی مسائل اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کا کوئی کنکریٹ حل پیش نہیں کیا۔ گزشتہ جون میں جب بی جے پی نے نریندرامودی کو 2014ء کے انتخابات کیلئے قومی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا،تو یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ نریندرا مودی وزارتِ عظمیٰ کیلئے بی جے پی کے امیدوار ہوں گے۔ پارٹی کی طرف سے نئی ذمہ داری پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے،نریندرا مودی نے یقین دلایا تھا کہ ان کا مشن آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جوشخص ایک ریاست میں کامیاب ہو سکتا ہے،وہ ضروری نہیں کہ قومی سطح پر بھی اتنا ہی کامیاب ہو۔لیکن مودی کے مخالفین کے پاس اس کی مخالفت کی یہ واحد دلیل نہیں۔ان کے نزدیک مودی ایک قومی رہنما بننے کے قابل نہیں اور اگر وہ بھارت کے آئندہ وزیراعظم بن گئے تو یہ بھارت کیلئے ایک بہت بڑی تباہی کا باعث ہو گا۔کیونکہ مودی ایک کٹر انتہا پسند ہندو ہے۔اور اس نے اپنے ان نظریات کو کبھی نہیں چھپایا۔ حال ہی میں اس نے ایک بیان میں برملا کہا تھا کہ وہ ایک ہندو قوم پرست ہے۔اس کے اس بیان پر جب پورے ملک میں تنقید کی گئی،تو اس کے دفاع میں صرف آر ایس ایس سامنے آئی۔نریندرا مودی دراصل آر ایس ایس کا ہی نمائندہ ہے بی جے پی کے نمائندے کی حیثیت سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کیلئے اس کی نامزدگی میں بھی آرایس ایس کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے کئی سینئر رہنما جن میں لوک سبھا میں لیڈر آف دی اپوزیشن،سشما سواراج اور بی جے پی کے سابق صدر مرلی منوہر جوشی، نریندرا مودی کی نامزدگی کے خلاف تھے۔ ایل کے ایڈوانی جو اٹل بہاری واجپائی کے بعد پارٹی میں سب سے زیادہ سینئر اور واجب الاحترام لیڈر ہیں ، نے نریندرا مودی کی نامزدگی کی مخالفت میں13ستمبر کو ہونے والے پارٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔اس سے پہلے جون میں جب نریندرا مودی کو بی جے پی کی 2014ء میں الیکشن مہم کا انچارج بنایا گیا تھا،تو انہوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بعد میں آر ایس ایس کی مداخلت اور درخواست پر انہوں نے اپنا استعفٰی واپس لے لیا۔وہ نریندرا مودی کو اس لیے وزارتِ عظمی کے اہل نہیں سمجھتے کیوں کہ اس کی نامزدگی کی صورت میں بی جے پی مسلمانوں اور سیکولر سوچ کے حامل لوگوں کی حمایت سے محروم ہوجائیگی۔ نریندرا مودی کے دامن پر سب سے نمایاں دھبہ 2002ء میں گجرات میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام پر نہ صرف مجرمانہ خاموشی بلکہ درپردہ اعانت کا الزام بھی ہے۔بھارت کی سپریم کورٹ اس پر نریندرا مودی کے خلاف ریمارکس دے چکی ہے۔اس کے علاوہ دہشت گردی کے نام پر بے شمار جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل کا الزام بھی مودی کے سر ہے۔اس کا انکشاف حال ہی میں گجرات کے ایک سابق ڈی آئی جی پولیس مسٹر ونزارانے اپنے ایک خط میں کیا ہے۔اس خط میں مودی کو ان جعلی پولیس مقابلوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔نریندرا مودی کے اس سابقہ ریکارڈ کی بنا پر بھی بی جے پی کے بعض حلقوں کے علاوہ بھارت کی کئی اہم سیاسی پارٹیاں،دانشور اور سول سوسائٹی کے لوگ اِسے بطور وزیراعظم قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ان میں بہار کے موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمار بھی شامل ہیں۔جنہوں نے گزشتہ جون نریندرا مودی کو پارٹی کی انتخابی مہم کا انچارج بنانے کے خلاف اپنی پارٹی یعنی جنتا دَل(یونائیٹڈ) کو بی جے پی کی سرکردگی میں قائم انتخابی اتحاد این ڈی اے سے علیحدہ کر دیا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 2014ء کے پارلیمانی انتخابات خاص اہمیت کے حامل ہیںکیوں کہ ان میں براہ راست مقابلہ دو شخصیتوں کے درمیان ہے۔یعنی ایک طرف بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے امیدوار اور گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی اور دوسری طرف کانگرس کے امیدوار راہول گاندھی ہیں۔ اس لیے ان انتخابات کو پارلیمانی انتخابات کی بجائے صدارتی انتخابات کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔لیکن ایسی بات نہیں۔بھارت ایک پارلیمانی جمہوریت ہے جس میں انتخابات کا عمل وقت گزرنے کے ساتھ وسیع اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔ 1952ء میں جب بھارت میں پہلے پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے،تو ان میں صرف55سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا تھا۔آج انتخابی معرکے میں کودنے والی سیاسی پارٹیوںکی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد ہو چکی ہے۔سیاسی پارٹیوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی میں صدارتی انتخابات جیسے براہ راست مقابلے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اس کے علاوہ بھارتی سیاسی نظام خصوصاََ اس کا وفاقی ڈھانچہ گزشتہ66برس میں ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزر کر ایک ڈھیلی ڈھالی(Decentralized)صورت اختیار کر چکا ہے۔ (جاری)