اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن مقصود ہے تو اس کیلئے سب سے پہلی اور سب سے اہم شرط دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کشمیر میں کنٹرول لائن پر مکمل فائر بندی ہے‘ اس لیے کہ اگر کنٹرول لائن پر متعین پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف باہمی کشیدگی بڑھے گی بلکہ یہ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ایک بڑے تصادم کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہیں۔گزشتہ ماہ کے آخر میں نیو یارک میں نوازشریف‘ من موہن سنگھ ملاقات میں کنٹرول لائن پر جاری فائرنگ کا مسئلہ خاص طور پر زیربحث آیا تھا۔دونوں رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ کشمیر میں کنٹرول لائن پر مکمل امن قائم کیا جائے گااور اس مقصد کیلئے پاکستانی اور بھارتی ڈی جی ایم اوز(DGMOs)پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایسے اقدامات تجویزکرے کہ کس طرح لائن آف کنٹرول پر آئے دن کی جھڑپوں کے سلسلے کو روکا جا سکتا ہے۔لیکن یہ امر باعث تشویش ہے کہ اس فیصلے کے بعد بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف شہری ان جھڑپوں کی زد میں آرہے ہیں۔چند دن پیشتر بھارتی فوجیوں کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک پاکستانی بچہ ہلاک ہوگیا۔مسلسل فائرنگ کے تبادلے کی وجہ سے لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ دیہات میں رہنے والے سینکڑوں دیہاتی خوف زدہ ہوکر پہلے ہی اپنا گھر بار اور زمینیں چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کھیتی باڑی کرنے والے لوگ اپنی زمینوں میں گندم کی بوائی نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا معاہدہ نومبر 2003ء، یعنی دونوں ملکوں کے درمیان امن مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے بھی پہلے ہواتھا۔اس معاہدے کا نہ صرف لائن آف کنڑول کے دونوں طرف رہنے والے عوام نے خیر مقدم کیا تھا،بلکہ بین الااقوامی سطح پر بھی اس کی بڑی پذیرائی ہوئی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ بندی معاہدے سے قبل لائن آف کنٹرول پر تعینات بھارتی اور پاکستانی فوجوں کے درمیان ایک عرصہ تک فائرنگ کا مسلسل تبادلہ ہوتا رہا‘ جس میں ہلکے ہتھیاروں کے علاوہ بھاری ہتھیار مثلاً مارٹر اور دور تک مار کرنے والی توپوںکااستعمال بھی شامل تھا۔اس غیر اعلانیہ لیکن انتہائی مہلک جنگ نے لائن آف کنڑول کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔اْنہیںنہ صرف جانی نقصان برداشت کرنا پڑا،بلکہ سرحد کی دونوں جانب پانچ میل تک کے علاقے میں کوئی مکان،کوئی سکول اور کوئی ہسپتال تباہ ہونے سے نہیں بچاتھا۔جن لوگوں کی زمینیںلائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع تھیں اْنہیں کئی برسوں تک وہاں فصلوں کی بوائی کا موقعہ نہ مل سکا۔یہی وجہ ہے کہ جب اٹل بہاری واجپائی اور میر ظفر اللہ جمالی کے زمانے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان امن اور تعاون کی باتیں ہونے لگیں،تو سب سے پہلے کشمیر میںتصادم اور محاذ آرائی کی صورت حال پر قابوپانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ دونوں ملک اس لاحاصل سرحدی جنگ سے تنگ آچکے تھے کیوں کہ نقصان دونوں طرف ہو رہا تھا۔اس لیے نومبر 2003ء میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیئے گئے۔جنگ بندی کے ساتھ ہی لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف لوگ واپس آگئے،اْنہوں نے اپنے تباہ شدہ مکانوں کی مرمت کی اور اپنی زمینوں پر پھر سے کاشت شروع کر دی۔ گزشتہ دس برس کے عرصہ میں لائن آف کنٹرول پر نسبتاً امن اور سکون کی وجہ سے اس کے دونوں طرف نئی سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ خصوصاََ آزاد کشمیرمیں لائن آف کنڑول کے ساتھ ساتھ واقع بعض علاقوں مثلاََوادی نیلم میں سیاحت کے فروغ کیلئے سڑکوں کے علاوہ متعدد ہوٹل بھی تعمیر ہو چکے ہیں۔چونکہ یہ علاقے اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے سیاحوں کیلئے بڑی کشش رکھتے ہیں،حکومت آزاد کشمیر نے سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے کئی منصوبے بھی بنا رکھے ہیں۔اگر لائن آف کنڑول پر جھڑپیں جاری رہیں تو یہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیںگے۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے مثبت نتائج میں سب سے زیادہ اہم اس کے آرپار بٹے ہوئے خاندانوں(Divided Families)کے افراد کو آنے جانے کی اجازت اور تجارت کا آغاز ہے۔اپریل2005ء میں مظفرآباد‘ سری نگر بس سروس کا افتتاح ہوا۔اگرچہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان سفر کی اجازت ابھی تک صرف بٹے ہوئے خاندانوں کے افراد تک محدود ہے اور اْنہیں بھی اجازت نامہ حاصل کرنے کیلئے پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،تاہم اس طریقہ کار کو سہل بنانے کیلئے پاکستان اور بھارت میں اعلیٰ سطح کے کئی مذاکرات ہو چکے ہیں۔لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی وجہ سے کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان اکتوبر 2008ء میں تجارت کا بھی آغاز ہوا۔ابتداء میں یہ تجارت صرف چند اشیاء تک محددودتھی،لیکن آہستہ آہستہ اس کے حجم میںاضافہ ہو گیا۔جس طرح لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں نے مظفر آباد‘ سری نگر بس سروس کے اجراء پر اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا،اسی طرح کشمیر کے دونوں حصوں کی تاجر برادری لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت کھلنے پر خوش تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نومبر2008ء ممبئی میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات دو سال تک معطل رہنے کے باوجودلائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت جاری رہی۔البتہ اس سال جنوری اور اگست میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے باعث جو کشیدگی پیدا ہوئی،اْس کی وجہ سے گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ تک کشمیر کے دونوں حصوں میں لائن آف کنٹرول کے ذریعے تجارت بند رہی۔ لیکن حال ہی میں بارامولہ کے ڈپٹی کمشنر اور آزاد جموں کشمیر کی ٹریول اور ٹریڈ اتھارٹی کے سربراہ کے درمیان فرینڈشپ برج(Friendship Bridge)پر ملاقات ہوئی ہے۔اس ملاقات میں فریقین کے درمیان لائن آف کنٹرول کے پار8اکتوبر سے تجارت بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کو دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs)میں سب سے زیادہ اہم اور مفید سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں صرف لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ دونوں طرف رہنے والے لوگوں کو سکون اور امن کا سانس لیناہی نصیب نہیں ہوا،بلکہ اس کی وجہ سے وادیٔ کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگوں میں قریبی روابط اور تعاون کے نئے مواقع پیدا ہو گئے تھے۔اس جنگ بندی کی بدولت بٹے ہوئے خاندانوں کے افراد کے علاوہ اب کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان طلباء،صحافیوں اور کاروباری لوگوں کی آمدورفت کی بھی راہ ہموار ہو رہی تھی۔اگر یہ جنگ بندی مستحکم ہو تو لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت میں ہی نہیں بلکہ لوگوں کی آمدورفت میں بھی نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ کشمیریوں کی خواہش بھی ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان امن،دوستی اور تعاون کا تقاضا بھی۔اس لیے دونوں ملکوں کی موجودہ حکومتوں کو لائن آف کنٹرول کی موجودہ تشویش ناک صورت حال پر توجہ دے کر امن قائم کرنا چاہیے۔