وزیراعظم محمد نوازشریف کے حلف اٹھانے کے چند دنوں بعد بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے نئی دہلی میں بیان دیا تھا کہ پاکستان میں نئی جمہوری حکومت کے قیام سے دونوں ملکوں میں دو طرفہ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور جونہی پاکستان میں اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوتا ہے‘ مذاکرات شروع کر دیے جائیں گے۔ یہ مذاکرات اس سال جنوری میں لائن آف کنٹرول پر چند ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے معطل کیے گئے تھے۔ پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو بلا جواز قرار دیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ نہ صرف یہ مذاکرات جاری رکھے جائیں بلکہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا سدباب کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی طرف سے مشترکہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان سے مذاکرات کے احیاء کی امید پیدا ہو گئی تھی۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں نیویارک میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات سے یہ امید اور بھی پکی ہو گئی لیکن حال ہی میں سلمان خورشید نے اس موضوع پر ایک اور بیان داغ کر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 12 اکتوبر کو نئی دہلی میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیویارک میں نوازشریف اور من موہن سنگھ ملاقات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا فی الحال کوئی امکان نہیں کیونکہ بقول ان کے ابھی فضا مذاکرات کے حق میں سازگار نہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ بھارت نے اس مذاکراتی عمل سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا تاہم بھارت پاکستان کے پیہم اصرار کے باوجود بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ نہیں۔ بھارتی حکومت کا یہ موقف نہ صرف ناقابلِ فہم ہے بلکہ تضادات سے بھرا ہوا ہے اس لیے کہ اختلافات کتنے ہی شدید اور گہرے کیوں نہ ہوں‘ بات چیت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اختلافات دور کرنے کے لیے بھی بات چیت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کو نہ صرف عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ خود بھارت میں بھی بعض سمجھدار اور دوراندیش طبقوں کا خیال ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی راہ ترک نہیں کرنی چاہیے۔ ان حلقوں میں سابق بھارتی سفارت کار اور میڈیا کے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے بھارت کی موجودہ بلکہ آئندہ آنے والی حکومتوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات سے منہ موڑ کر بھارت اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے کی غلطی کر رہا ہے‘ اس لیے کہ اگر دونوں ممالک کا آپس میں رابطہ نہ ہو اور وہ پرامن مذاکرات کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے معاملات طے کرنے کی کوشش میں رہیں تو اس کا فائدہ صرف ان لوگوں کو پہنچے گا جو پاک بھارت امن اور تعاون کے دشمن ہیں اور ایسے لوگ سرحد کے دونوں طرف رہتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں بھی دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے احیاء سے انکار دراصل امن دشمن قوتوں کی فتح ہے اور دونوں ملکوں کے انتہا پسندوں کو یہ موقع بھارت نے فراہم کیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اس موقف کے کھوکھلا پن کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی چند روز ہوئے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھارتی میڈیا کے سامنے نیویارک میں نوازشریف اور من موہن سنگھ کی ملاقات کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو برقرار رکھنا خود بھارت کے حق میں ہے۔ یاد رہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیموں اور بی جے پی کی طرف سے بھارتی حکومت پر سخت دبائو تھا کہ نیویارک میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی وزیراعظم نوازشریف کی ملاقات کو منسوخ کردیا جائے۔ بی جے پی کے نامزد امیدوار برائے وزارتِ عظمیٰ‘ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی نے تو اپنی انتخابی مہم میں اس ایشو کو سرفہرست رکھا ہے اور وہ ہر انتخابی جلسہ میں وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (UPA) کی حکومت کو چین اور پاکستان کے بارے میں کمزور خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر متضاد بیانات جاری کر رہی ہے۔ ایک طرف امن مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان مذاکرات کی ضرورت ہے لیکن دوسری طرف ان سے انکار بھی کیا جا رہا ہے۔ ان متضاد بیانات سے دراصل یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت ایک کمزور وکٹ پر کھڑی ہے‘ اسے اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملوں کا سامنا ہے‘ اگلے برس مئی میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس موقع پر بھارتی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ وہ اپوزیشن کی نظروں میں ایک کمز ور حکومت بن کر اُبھرے۔ اس لیے کبھی نرم اور کبھی سخت رویہ اختیار کر کے وہ اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ماضی میں جب بھی بھارت نے پاکستان سے ناتہ توڑا اور مختلف حربوں سے دبائو ڈالنے کی کوشش کی تو اسے بُری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مثلاً دسمبر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر مسلح افراد کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنے تمام زمینی اور ہوائی رابطے منقطع کرلیے۔ ان میں واہگہ کے راستے دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی ریل سروس ’’سمجھوتہ ایکسپریس‘‘ بھی شامل تھی بلکہ بھارتی افواج ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر پاکستان کی سرحدوں پر اکٹھی ہو گئی تھی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنی افواج کو بھارت سے ملنے والی سرحدوں پر لا کھڑا کیا۔ یہ ایک انتہائی نازک اور خطرناک صورت حال تھی اور فریقین کے درمیان جنگ کا حقیقی اور فوری خطرہ پیدا ہو گیا تھا لیکن جس مقصد کے لیے بھارت نے یہ انتہائی اقدام کیا تھا‘ اسے حاصل کرنے میں ناکام رہا کیونکہ پاکستان نے دبائو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ بالآخر ایک سال کی خطرناک محاذ آرائی کے بعد نرمی‘ مصالحت اور بات چیت کا راستہ اختیار کرنا پڑا جس کی ابتدا جنوری 2004ء میں سابق صدر مشرف اور بھارت کے سابق وزیراعظم کے ایک مشترکہ بیان سے ہوئی۔ اس بیان میں دونوں ملکوں نے کئی برسوں سے معرض التوا میں پڑے پاک بھارت دو طرفہ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اسی طرح 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات سے مشتعل ہو کر بھارت نے چار برسوں سے جاری مذاکرات کو معطل کردیا اور اس کے ذریعے پاکستان پر ایسے مطالبات منوانے کے لیے دبائو ڈالا جو کوئی بھی آزاد اور خود مختار ملک تسلیم نہیں کر سکتا۔ یہ امن مذاکرات دو سال سے زیادہ عرصہ تک معطل رہے بالآخر پاکستان کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کی 2010ء میں بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں سارک سربراہی کانفرنس کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں اگلے سال یعنی 2011ء میں مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ کافی حوصلہ افزا تھا کیونکہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے والے لوگوں کی سہولت کے لیے نہ صرف ویزے کی پابندیاں نرم کردی تھیں بلکہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تجارت کو تمام پابندیوں سے آزاد کرنے کا اعلان بھی کردیا تھا۔ ابھی سرحد کے اِس پار اور اُس پار رہنے والے لوگ ان اعلانات کو عملی شکل میں دیکھنے کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ جنوری 2013ء اور پھر اگست 2013ء میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے درمیان جھڑپوں سے پیدا ہونے والی صورت حال نے مذاکراتی عمل کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنا دونوں ملکوں کی ذمہ د اری ہے لیکن بھارت کا اس ذمہ داری میں زیادہ حصہ ہے کیونکہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کا برابر مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ بھارت حیلے بہانوں سے کام لے رہا ہے۔