وزیر اعظم محمد نواز شریف امریکہ کے چار روزہ سرکاری دورے کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ مئی میں قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جناب نواز شریف کا یہ پہلا سرکاری دورہ امریکہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان جن رشتوں میں منسلک ہے اور خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے پیش نظر یہ دورہ صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ امریکہ کیلئے بھی خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورے سے جہاں پاکستان کی نومنتخب قیادت کو امریکہ کے سامنے اپنے نقطہ نظر کو کھل کر اور بے لاگ طریقے سے پیش کرنے کا موقع ملا وہاں امریکی صدر بارک اوباما اور ان کی ٹیم کو بھی پاکستان کی نئی قیادت سے ملنے اور پاکستان اور خطے کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دورے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس سے کوئی اہم اور ڈرامائی نتیجہ برآمد نہیں ہوا‘ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اکتوبر 2001ء سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف سطح پر سرکاری رابطے چلے آ رہے ہیں۔ ان سب کا مقصد دونوں ملکوں میں جاری تعاون کا جائزہ لینا اور اس میں اضافہ کرنا ہے کیونکہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مسئلہ افغانستان کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ پاکستان کو جن دیگر مسائل کا سامنا ہے‘ مثلاً توانائی کا بحران، معیشت پر سخت دبائو، سماجی شعبوں یعنی صحت اور تعلیم میں درپیش مشکلات اور اندرون ملک سکیورٹی کا مسئلہ‘ ان کے پیش نظر بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر باہم صلاح مشورے کی ضرورت ہے۔ دورے کے اختتام پر پاکستان میں اب اس کے مختلف پہلوئوں پر بحث جاری ہے۔ یہ دورہ کامیا ب رہا ہے یا ناکام؟ اس سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان؟ پاکستان کو امریکہ سے جو شکایات تھیں کیا وہ دور ہو گئی ہیں؟ کیا وزیر اعظم اپنے ملک کا مقدمہ امریکہ کے سامنے بہتر طور پر پیش کر سکے ہیں یا نہیں؟ دورہ کے بعد پاک امریکہ تعلقات کی کیا سمت ہو گی؟ کیا اس دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں یا ان میں مزید رخنہ پڑے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت پاکستان میں وزیر اعظم کے دورے کے حوالے سے اْٹھائے جا رہے ہیں۔ اس دورے پر تبصرہ کرنے سے پہلے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات گزشتہ دو برس سے سرد مہری کا شکار چلے آ رہے تھے۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس کی ذمہ داری ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ پر امریکی حملے اور سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی بمباری کے نتیجے میں 24 پاکستانی فوجی افسروں اور نوجوانوں کی شہادت اور ڈرون حملوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں اس تاثر کو بھی فروغ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی اصل وجہ پاکستان کا امریکہ سے اتحاد ہے۔ وزیر اعظم کے دورے کے نتائج کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے یہاں ایک اور بات کا تذکرہ ضروری ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ پاکستان اور امریکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے بلکہ یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ افغانستان سے بحفاظت واپس جا ہی نہیں سکتا‘ لیکن پاکستان کے مقابلے میں امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ امریکہ افغانستان سے جان چھڑا کر واپس جانا چاہتا ہے اور اس کیلئے نسبتاًَ محفوظ اور آسان راستہ صرف پاکستان ہی مہیا کر سکتا ہے؛ چنانچہ بعض حلقوں کے نزدیک یہ امریکہ کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا ایک تاریخی موقع ہے‘ اس لیے پاکستان کو امریکہ کے سامنے اپنا موقف واضح طور پر اور دوٹوک الفاظ میں پیش کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دورے سے پاک امریکہ تعلقات میں کوئی بڑی یا ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی‘ لیکن یہ دورہ اس لحاظ سے یقیناً سودمند ثابت ہوا ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں یا خوش فہمیاں ایکسپوز ہوئی ہیں‘ مثلاً دورے سے قبل اور اس کے دوران بھی پاکستانی میڈیا نے ڈرون حملوں کے بارے سے اتنی ہائپ (Hype) پیدا کی کہ یوں نظر آتا تھا پاکستان اور امریکہ کے درمیان اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ صرف ڈرون حملوں کا ہے‘ اور یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف اور صدر بارک اوباما کے درمیان اگر کسی مسئلہ پر بات ہو گی تو وہ صرف ڈرون حملوں کا مسئلہ ہی ہے۔ وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے ڈرون حملوں کے بارے میں جو رپورٹیں سامنے آئیں، پاکستانی میڈیا نے ان کے بھی بعض حصوں کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اس طور پیش کیا کہ ڈرون حملوں کا اصل مجرم امریکہ ہے‘ حالانکہ ان رپورٹوں میں ان حملوں کی وجوہ میں پاکستان کے اندر بیرونی ممالک سے آ کر قیام کرنے والے دہشت گردوں اور ان کے خلاف پاکستانی حکومت کی جانب سے کوئی اقدام کرنے میں ناکامی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور صدر اوباما کے درمیان ہونے والی گفتگو کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کا مسئلہ یک طرفہ نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے نزدیک یہ حملے اس کی قومی خود مختاری اور علاقائی سا لمیت کے خلاف ہیں تو امریکہ نے بھی پاکستان پر یہ واضح کر کے اسے دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ڈرون حملوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے صرف پاکستان اور افغان طالبان نے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے دہشت گردوں نے اس علاقے کو اپنا مسکن بنا رکھا ہے‘ اور اسے وہ نہ صرف ایک تربیت گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں بلکہ یہاں سے وہ افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج پر حملے بھی کرتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے امریکہ کے پاس ڈرون حملوں کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے صدر اوباما کے ساتھ بات چیت کے دوران ڈرون حملوںکے مسئلے کو اٹھانے پر امریکہ کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سرحد کے پار افغانستان میں طالبان اور ان کے غیرملکی ساتھیوںکے حملوں کو روکا جائے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت امریکیوں کو یہ یقین دلا دے کہ پاکستان کی طرف سے سرحد پار افغانستان میں مسلح کارروائیوں کی روک تھام کی جائے گی اور اس کیلئے ٹھوس اقدام بھی کیے جائیں گے تو امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے مستقل طور پر بند تو نہیں ہوںگے؛ البتہ پاکستان کے اندر پائے جانے والی بے چینی کو کم کرنے کیلئے ان حملوں کو عارضی طور پر روکا جا سکتا ہے۔ اس دورے سے یہ بات بھی عیاں ہوئی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان گلے شکوے، شکایات اور خدشات کا مسئلہ یک طرفہ نہیں۔ یعنی اگر ہمیں امریکہ سے کچھ شکایتیں ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر امریکہ خطے میں اپنی پالیسی اور حکمتِ عملی میں تبدیلیاں لائے تو امریکہ کے پاس بھی پاکستان کے سامنے رکھنے کیلئے مطالبات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے مثلاً امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، پاک افغان سرحد کے پار مبینہ دراندازیوں کو روکے، ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلا کر انہیں سزا دے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو سازگار بنا کر خطے میں امن اور سلامتی کی فضا کو بہتر بنائے۔ اس دورے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ امریکہ وزیر اعظم نواز شریف کی جمہوری اور منتخب حکومت کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔ دورے سے قبل 1.6 بلین ڈالرکی بحالی اس طرف اشارہ ہے۔ امریکی ماہرین کے مطابق صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ پاکستان کے اپنے مستقبل اور ہمسایہ ممالک خصوصاًَ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کے ویژن اور بیانات سے متاثر ہیں۔ اسی سوچ کے تحت امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستانی حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ بات چیت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ نواز شریف کی حکومت کو مستحکم ہونے میں مدد دی جائے تاکہ وہ اپنی ویژن کے تحت پاکستان میں امن قائم کر سکیں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکیں۔