پاکستان کے راستے افغانستان میں طالبان کے خلاف برسرپیکار امریکی افواج کے لیے خوراک اور ایندھن کے علاوہ روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء لے جانے والے کنٹینرز (Containers)پر پابندی کا مسئلہ کتنا ٹیڑھا ہے اس کا اندازہ اس مسئلے پر تحریکِ انصاف کے بدلتے ہوئے موقف سے لگایا جا سکتا ہے۔امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پہلے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خاں نے اعلان کیا تھا کہ اگر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران ڈرون حملے ہوئے تو صوبہ خیبر پختون خوامیں ان کی حکومت نیٹو کنٹینرز کو طورخم کے راستے کابل نہیں جانے دے گی۔یکم نومبر کو ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر عمران خاں نے انتہائی شدید ردِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیاکہ صوبہ کے پی کے میں ان کی پارٹی کی حکومت جاتی ہے تو جائے،نیٹو سپلائی کو (اور یہ بات انہوں نے زور دے کر کہی)روک کر دکھائیں گے۔اس قسم کا اعلان ان کی پارٹی کے صوبائی وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بھی کیا تھا۔لیکن اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ دیگرسیاسی پارٹیوں سے مشورے کے بعد 4نومبر کو اس مسئلے پر کے پی کے کی اسمبلی نے جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے،اس میں وفاقی حکومت کو نیٹو سپلائی بند کرنے کے لیے 20نومبر کی ڈیڈ لائن دی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر اس تاریخ تک وفاقی حکومت نے کچھ نہ کیا تو کے پی کے کی حکومت اس بارے میں لائحہ عمل تیار کرے گی۔یعنی صوبائی اسمبلی کی قرار داد میں نیٹو سپلائی پر فوری پابندی کا فیصلہ نہیں کیا گیا بلکہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔قومی اسمبلی میں بھی‘ عمران خاں نے اپنی تقریر میں نیٹو سپلائی کو فوری طور پر روکنے کے فیصلے کا اعلان نہیں کیا۔حالانکہ اس سے قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر مذاکرات کے دوران ڈرون حملے جاری رہے اور وفاقی حکومت نے ان کو روکنے کے لیے کچھ نہ کیا تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اپنا فیصلہ خود کرے گی اور اس پر عمل درآمد بھی کرے گی۔قومی اسمبلی کی تقریر سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تشویش اس بات پر ہے کہ اگر مذاکرات دوبارہ شروع ہوتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ڈرون حملے نہیں ہوں گے۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ ہوں،وہ چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت یا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے اپنا کیس رکھے یانیٹو سپلائی بند کرے۔لیکن اگر20نومبرتک وفاقی حکومت نے کچھ نہ کیا تو کے پی کے کی حکومت 20نومبر کے بعد نیٹو سپلائی خود بند کرے گی۔ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کے مسئلے پر پی ٹی آئی کے اس Climb Downکی دووجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان کے اس فیصلے کی کسی نے تائید نہیں کی۔ وفاقی حکومت کے ترجمان اور وزیراطلاعات پرویز رشید نے یہ کہہ کر عمران خان کے موقف کی نفی کردی تھی کہ اس سے پہلے بھی نیٹو سپلائیز بند کی گئی تھیں، لیکن اس کے باوجود امریکی ڈرون حملے جاری رہے۔ پی ٹی آئی کے اس موقف کے حق میں کہ اگر وفاقی حکومت نے نیٹو سپلائیز نہ روکیں،تو کے پی کے کی حکومت خود انہیں روکنے کے لیے اقدام کرے گی،کسی سیاسی پارٹی نے بیان نہیں دیا۔بلکہ جماعت اسلامی نے بھی جو پاکستان میں امریکہ مخالف مہم میں سب سے آگے ہے اور ڈرون حملوں کی سخت مخالف ہے، نے بھی کے پی کے، کے وزیراعلیٰ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کسی یک طرفہ اقدام سے قبل دوسری سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ نیٹو سپلائی کو روکنے کے مسئلہ پر عمران خان پورے ملک میں تنہا کھڑے ہیں‘ نہ تو وفاقی حکومت ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار ہے اور نہ کوئی بڑی سیاسی پارٹی ان کے موقف کی حمایت میںسامنے آئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر بھی حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر کوئی شدید ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔یہ حقیقت اب دن بدن مزید واضح ہوتی جارہی ہے کہ ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے نیٹو سپلائی بند کرنے کے مسئلے پر قوم کی رائے ایک نہیں۔بلکہ اس اقدام کی مخالفت میں آواز بلند ہوتی جارہی ہے کیونکہ جو بات عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیڈر سمجھنے سے قاصر ہیں،اسے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ نیٹو سپلائی بند ہونے سے ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے۔عمران خان نے اپنی تقریر میں20نومبر کے بعد نیٹو سپلائی روکنے کے بارے میں جو الٹی میٹم دیا ہے،اس پر عمل درآمد کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ عوامی سطح پر اس اقدام کی حمایت صفر کے برابر ہے۔ کے پی کے سے باہر ملک کے دیگر حصوں میں تو اس کی حمایت بالکل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سندھ اسمبلی میںممبران نے ڈرون حملوں پر قرار داد پیش تک نہیں ہونے دی۔نیٹو سپلائیز بند کرنے کی حمایت کون کرے گا؟اگر ہم ماضی کی مثال کو سامنے رکھیں تو اس بات کا بھی امکان کم ہے کہ کے پی کے، کے عوام نیٹو سپلائی بلاک کرنے کے لیے سڑکوں پر آجائیں گے۔ لہٰذا ایک ایسا اقدام جو خارجہ پالیسی کے زمرے میں آتا ہے اور جس پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار آئین کے تحت صرف وفاقی حکومت کو حاصل ہے،کوئی صوبہ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا۔اگر کرے گا تو یہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہوگی اور اس سے نہ صرف ایک اہم ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہوں گے،بلکہ کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کو بھی خطر ناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کو اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے سے قبل یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے راستے سپلائی پر امریکی اور نیٹو افواج کا انحصار اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ایک زمانہ تھا جب افغانستان میں لڑنے والی امریکی اور نیٹو افواج کی 80فیصد رسد پاکستان کے راستے آتی تھی۔یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد 1,20,000سے زائد تھی۔اب یہ تعداد 57,000رہ گئی ہے۔ اور آئندہ سال کے وسط تک یہ تعداد گھٹ کر آدھی رہ جائے گی۔آنے والے برس کے اختتام سے پہلے امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔البتہ افغان حکومت کو سہارا اورافغان نیشنل آرمی کو تربیت دینے کے لیے امریکہ افغانستان میں تقریباََ10,000فوجی رکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان معاہدے کو آخری شکل دینے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ ان مذاکرات کا کوئی بھی نتیجہ نکلے یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کے راستے سپلائی پر امریکی افواج کا انحصار بہت کم رہ جائے گا۔اس وقت بھی افغانستان میں نیٹو افواج کو پاکستان کے علاوہ دیگر راستوں سے سپلائی مہیا ہورہی ہیں۔ اور امریکہ اپنی افواج کی واپسی کے لیے صرف روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے راستوں اور ہوائی اڈوں کو استعمال نہیں کررہا،بلکہ اس مقصد کے لیے انہوں نے رومانیہ میں بھی ایک ہوائی اڈے کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کے راستے سپلائی حاصل کرنے یا فوجی سازوسامان واپس بھیجنے میں امریکہ کو جو فائدہ نظر آتا تھا،وہ یہ تھا کہ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے اس پر لاگت بہت کم آتی ہے۔مثلاََ جو سامان امریکہ کراچی سے طور خم اور بلوچستان میں چمن کے راستے منگوایا جاتا ہے،اگر وہی سامان ہوائی جہازوں سے منگوایا جائے تو اس پر دس گنا زیادہ لاگت آئے گی۔اسی طرح یورپ سے روس اور وسطی ایشیائی راستوں کے ذریعے سامان لانے کے لیے تین گنا سے زائد فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔اس سے نہ صرف لاگت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اشیاء خورو نوش، ایندھن اور دیگر سامان افغانستان پہنچنے میں وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے۔لیکن اب جبکہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے۔پاکستان پر انحصار بہت کم ہوجائے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنما کو یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ ا س سے قبل بھی پاکستان کے راستے نیٹو سپلائی کو بند کیا گیا تھا۔نومبر2011ء میں جب پاک۔افغان سرحد پر سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی طیاروں کی بمباری سے دودرجن کے قریب ہمارے فوجی جوان اور افسر شہید ہوئے تھے،تو ردِعمل کے طور پر پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کر دی تھی اور یہ پابندی جولائی 2012ء تک برقرار رہی لیکن اس دوران نہ صرف امریکی ڈرون حملے جاری رہے،بلکہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی جنگی استعداد پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا تھا‘ کیونکہ امریکیوں نے سپلائی کے لیے متبادل راستوں کا انتظام کر لیا تھا۔جس کے نتیجے میں پاکستان پر انحصار 80فیصد سے کم ہوکر 35 فیصد رہ گیا تھا۔اس کے علاوہ کے پی کے کی حکومت عمران خان کے الٹی میٹم کے تحت اگر طور خم کا راستہ بند کردیتی ہے،توچمن کا راستہ تو کھلا رہے گااور امریکیوں کو ایندھن اور دیگر اشیاء ملتی رہیں گی۔اس لیے ڈرون حملے رکوانے کے لیے نیٹو سپلائی بند کرنے کا مطالبہ اور اس کے لیے الٹی میٹم دینا نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ ملک کی معیشت اور بیرونی ساکھ کے لیے بھی خطر ناک مضمرات کا حامل ہے۔