نیپال میں 19 نومبر کو ہونے والے نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے حتمی نتائج کا سرکاری طور پر اعلان کر دیا گیا ہے۔ ان نتائج کے مطابق 601 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں نیپال کی سب سے پرانی اور متعدد بار برسرِاقتدار رہنے والی پارٹی، نیپالی کانگرس (N.C) نے 196 نشستیں جیتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر ملک کی ایک اور اہم سیاسی جماعت یونیفائڈ مارکسسٹ لیننسٹ(UML) نے 175 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیفائڈ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (مارکسسٹ)‘ جسے مائوسٹ پارٹی بھی کہا جاتا ہے اور جس نے گزشتہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے حکومت بنائی تھی‘ کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔ صرف 80 سیٹیں جیت کر یہ پارٹی تیسرے نمبر پر آئی ہے۔ نیپال کے ان انتخابات کے مختلف پہلوئوں اور مضمرات پر بحث و تمحیص جاری ہے اور تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
نیپال کے سیاسی حلقوں کے مطابق ان انتخابات میں جن 122 سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا‘ ان میں سے عوام نے انتہاپسند سیاسی قوتوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک ایسی پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا ہے جو معتدل نظریات کی حامل ہے۔ مائو پرست کمیونسٹ پارٹی کی شکست کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پانچ سال کی مدت حاصل کرنے کے باوجود وہ ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں ناکام رہی اور ملک غیریقینی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پانچ دفعہ حکومت تبدیل ہوئی۔ اس کی وجہ سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ مہنگائی اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت کے علاوہ بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ مبصرین کے مطابق نیپال کے عوام نے بہتر معاشی صورتحال کی خاطر نیپالی کانگرس کو ووٹ دیے ہیں، لیکن انتخابی نتائج کی جو تصویر سامنے آئی ہے اسے دیکھ کر زیادہ ڈھارس نہیں بندھتی کیونکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اکثریت حاصل کر کے اکیلے حکومت تشکیل دینے کی اہل نہیں۔ اس لیے نیپال کی آئندہ حکومت ایک مخلوط حکومت ہو گی اور زیادہ امکان یہی ہے کہ نیپالی کانگرس اپنی دیرینہ حریف جماعت یو ایم ایل سے مل کر حکومت بنائے گی۔
لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں مخلوط حکومتوں کے تجربات کے پیش نظر اس بات کی امید کم ہے کہ ایک مستحکم حکومت قائم ہو گی جو نہ صرف ملک کو ایک نیا اور متفقہ آئین دے بلکہ تیزی سے بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال کو بھی سنبھالا دے سکے۔ نیپال میں سیاسی عدمِ استحکام اور قومی اتفاقِ رائے کے فقدان کی اصل وجہ یہ ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیاں نہ صرف نظریاتی بلکہ طبقاتی، علاقائی، سماجی اور گروہی مفادات پر مبنی سیاست کرتی ہیں۔
نیپال 1996ء سے 2005ء تک مائو پرست کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں جاری بغاوت سے دوچار رہا۔ اس سے نہ صرف معیشت بری طرح متاثر ہوئی بلکہ مختلف طبقوں، نسلوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں عدمِ تحفظ بھی پیدا ہوا۔ جغرافیائی طور پر نیپال تین حصوں میں منقسم ہے۔ اونچے پہاڑوں اور گھنے جنگلات پر مشتمل مغربی اور مشرقی علاقے، وادی کٹھمنڈو اور جنوب میں بھارت کے ساتھ ملنے والا ترائی کا علاقہ۔ ان تینوں حصوں کا نہ صرف جغرافیہ بلکہ معاشی حالات اور سماجی صورتحال بھی مختلف ہے۔ آبادی کی غالب اکثریت کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ معاشرہ بری طرح ذات پات میں بٹا ہوا ہے۔ مسلمان اور بدھ مت کے پیروکار بھی موجود ہیں۔ بھارت کے بعد نیپال واحد ہندو ریاست ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپال میں شاذونادر ہی ہندو مسلم فسادات ہوئے ہوں گے۔ 2006ء میں 12 نکات پر مشتمل نیپال کی سیاسی پارٹیوں نے مائو پرست
کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت نیپال میں بادشاہت ختم کر دی گئی اور 2008ء میں ملک کو ایک نیا آئین دینے کیلئے انتخابات کروائے گئے‘ لیکن ملک کی سیاسی پارٹیوں میں نئے آئین پر اتفاق نہ ہو سکا۔
نیپال کے سیاسی مسئلے کو مشکل بنانے میں جہاں ملک کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان ملک کے آئندہ سیاسی نظام پر شدید اختلافات کا ہاتھ ہے، وہاں نیپال کے مخصوص جغرافیائی محل وقوع نے بھی اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ نیپال ایشیا کی دو بڑی طاقتوں یعنی چین اور بھارت کے درمیان ایک سینڈوچ کی طرح واقع ہے۔ چین کے ساتھ ملنے والی اس کی سرحد اگرچہ ہمالیہ کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے؛ تاہم گزشتہ تین دہائیوں میں چین اور نیپال کے درمیان زمینی رابطے قائم ہو چکے ہیں۔ ان کے ذریعے دونوں ملکوں میں محدود پیمانے پر تجارت بھی جاری ہے لیکن درآمدی اور برآمدی تجارت کے شعبے میں نیپال تقریباً مکمل طور پر بھارت پر انحصار کرتا ہے۔ یہ تجارت بھارت کے ساتھ ملنے والی نیپالی سرحد کے ذریعے ہوتی ہے۔
چین کے ساتھ نیپال کی تجارت اس کی کل تجارت کے صرف دس فیصد حصے پر مشتمل ہے لیکن سیاسی اعتبار سے نیپال میں چین کو اہم مقام حاصل ہے۔ نیپال میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو بھارت نے ہمیشہ تشویش کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس سے نیپال کی اندرونی سیاست بھی متاثر ہوئی رہی ہے۔ اگرچہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ نیپال کی اندرونی سیاست میں مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں؛ تاہم نیپال کی بعض سیاسی پارٹیوں کی طرف سے، جن میں یو ایم ایل مائو پرست کمیونسٹ پارٹی اور شاہ پرست سیاسی جماعت راشٹریہ پراجا تنترا پارٹی شامل ہیں، بھارت پر ملک کی اندرونی سیاست اور اپنی من پسند سیاسی پارٹیوں کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
اس سلسلے میں نیپالی کانگرس (NC) کا خاص طور پر نام لیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیپالی کانگرس کی قیادت اور اس کے کارکنان کے ہر بھارتی حکومت کے ساتھ خصوصاًَ بھارتی کانگرس کے ادوار میں گہرے روابط رہے ہیں۔ 1950ء میں جب نیپالی کانگرس نے نیپال میں رانا خاندان کے موروثی راج کے خلاف عوامی تحریک چلائی تو بھارت نے اس کی ہر طرح سے اعانت کی تھی۔ اس کے علاوہ 1960ء میں جب سابق شاہ مہندرا نے نیپال میں پارلیمانی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر شخصی آمریت قائم کی اور تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کر دی تھی تو نیپالی کانگرس کے لیڈر اور کارکن گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں سے بچنے کیلئے بھارت میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیپالی کانگرس کی قیادت پر جب بھی کوئی افتاد نازل ہوتی تھی وہ بھاگ کر دہلی اور کلکتہ میں بھارتی حکومت کی مہمان نوازی کے مزے لوٹتی تھی۔ اسی لیے نیپالی کانگرس کو ملک میں ہمیشہ ایک بھارت نواز سیاسی جماعت کے طور پر پہچانا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس یو ایم ایل مائوسٹ اور شاہ پرست سیاسی پارٹیاں چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی حامی رہی ہیں۔
نیپال کی اندرونی سیاسی پر بیرونی دبائو ڈالنے والے چین اور بھارت اکیلے نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے خصوصاًََ جب سے چین نے اقتصادی ترقی کے ذریعے دنیا کی بڑی طاقتوں کی صف میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے، امریکہ اور جاپان نے بھی نیپال کی سیاست میں اپنی دلچسپی میں اضافہ کر دیا ہے۔ 2006ء میں طویل مذاکرات کے بعد نیپال کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں اور مائو پرست کمیونسٹ پارٹی میں جو سمجھوتہ ہوا تھا، اس کی شرائط طے کرنے میں نیپال میں امریکی سفیر نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ جاپان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ امریکہ کے برابر نیپال کی سیاست پر اپنا بوجھ ڈال سکے لیکن اس نے نیپال میں جاپان کیلئے عوامی سطح پر خیرسگالی حاصل کرنے کی خاطر متعدد سماجی اور ثقافتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ ان دونوں ملکوں کی طرف سے نیپال میں سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی بنیاد، جنوبی ایشیا اور بحرِ ہند کے علاقے میں چین کے پھیلتے ہوئے اثرورسوخ پر تشویش ہے کیونکہ اس خطے سے امریکہ اور جاپان دونوں کے اہم جیو اکنامک اور جیو پولیٹکل مفادات وابستہ ہیں۔
نیپال کی سیاسی جماعتوں میں نہ صرف ملک کے آئندہ آئین، طرزِحکومت اور ریاست کی ہیئت پر شدید اختلافات ہیں بلکہ سیاسی جماعتیں دھڑے بندیوں کا بھی شکار ہیں۔ بیرونی مداخلت اور مخصوص جغرافیائی صورتحال نے ملک کے سیاسی مسائل کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ مبصرین کی رائے میں نیپال کی سیاسی پارٹیوں کیلئے ملک میں جمہوری خطوط پر استوار سیاسی نظام قائم رکھنے کا یہ آخری موقع ہے کیونکہ عوام سیاسی پارٹیوں کی خراب کارکردگی اور آپس میں لڑائی سے مایوس ہو چکے ہیں اور خدشہ ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی اور نئی اسمبلی بھی ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں ناکام رہی تو سینکڑوں افراد کی جانی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والا جمہوری نظام دوبارہ کسی طالع آزما آمر کے شب خون کا نشانہ بن سکتا ہے۔