حال ہی میں بھارت کی ریاستوں، دہلی، چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے نتائج بعض اعتبار سے توقعات کے عین مطابق تھے اور کچھ اعتبار سے حیران کن اور پیشگی اندازوں کے بالکل برعکس۔ مثلاً دہلی‘ جہاں کانگرس کی شیلا ڈکشٹ متواتر تین بار پانچ برس (کل پندرہ برس) کی مدت کیلئے وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں، میں اس دفعہ کانگرس کی شکست یقینی تھی۔ اس کی وجہ کرپشن اور مہنگائی بتاتی جاتی ہے۔ لیکن کسی کو اندازہ نہ تھا کہ سماجی کارکن اروند کیجری وال کی جماعت ''عام آدمی پارٹی‘‘ اتنی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔ سرکاری طور پر اعلان کردہ انتخابی نتائج کے مطابق دہلی اسمبلی کی 70 میں سے ''عام آدمی پارٹی‘‘ نے 28 نشستیں حاصل کی ہیں‘ جبکہ بی جے پی کے امیدوار 32 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ دہلی میں‘ جہاں ''عام آدمی پارٹی‘‘ کی کامیابی نے سب کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے، کانگرس کی شکست نے بھی مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔ دہلی میں کانگرس گزشتہ پندرہ برس سے حکمران تھی۔ 2009ء میں وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ نے تیسری بار منتخب ہو کر ہیٹرک کی تھی۔ اس دفعہ نئی دہلی کے ایک حلقے میں وہ اپنی نشست بھی نہ بچا سکیں‘ اور ان کی پارٹی صرف آٹھ اسمبلی نشستیں حاصل کر سکی۔
دہلی کے انتخابی نتائج بی جے پی کے لیے بھی حیرانی بلکہ کسی حد تک مایوسی کا باعث ثابت ہوئے۔ بی جے پی کی قیادت کو یقین تھا کہ نریندرا مودی کا چہرہ دکھا کر وہ دہلی میں کلین سویپ
کرے گی لیکن واحد بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے کے باوجود بی جے پی دہلی میں اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں‘ بلکہ بی جے پی کی کامیابی بذاتِ خود ''عام آدمی پارٹی‘‘ کی رہین منت ہے‘ کیونکہ اس پارٹی نے کانگرس کے ووٹ توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچا ہے؛ تاہم 28 نشستیں حاصل کر کے ''عام آدمی پارٹی‘‘ نے بی جے پی کو دہلی میں ''اپنی تاریخی‘‘ کامیابی سے محروم کر دیا ہے‘ حالانکہ نریندرا مودی نے دہلی میں بی جے پی کے امیدواروں کے حق میں اپنی چار روزہ انتخابی مہم کے دوران 12 جلسے کیے۔ ان میں سے ایک جلسہ جان بوجھ کر لال قلعہ کے سامنے سجایا گیا‘ جس کا مقصد دہلی والوں کو یہ پیغام پہنچانا تھا کہ مودی صاحب بہت جلد اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے ہیں لیکن اس جلسے کے باوجود پرانی دہلی کے حلقے چاندنی چوک سے بی جے پی کی بجائے، کانگرس کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔
اس سے بھارتی میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ لوک سبھا کے آئندہ برس انتخابات میں مودی فیکٹر بی جے پی کو کس حد تک کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے‘ کیونکہ ان ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا انفرادی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ صرف راجستھان میں بی جے پی کو نریندرا مودی کی بدولت توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جہاں تک مدھیا پردیش کا تعلق ہے، اْس میں بی جے پی کی تیسری بار کامیابی کا سہرا، ریاست کے وزیر اعلیٰ شِو راج سنگھ چوہان کے سر ہے۔ انہوں نے گڈ گورننس اور عوام کو سستے داموں اشیائے خوردنی کی فراہمی کا اہتمام کر کے اتنی ہر دلعزیزی حاصل کر لی ہے کہ بھارتی اخبارات کی اطلاعات کے مطابق انتخابی مہم کے دوران ریاست کا ہر باشندہ وزیر اعلیٰ کی تعریف و توصیف کرتا نظر آیا اور جب نریندرا مودی کا نام لیا جاتا تھا تو لوگ دوسری طرف منہ پھیر لیتے تھے۔ چھتیس گڑھ‘ جہاں کانگرس اور بی جے پی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا، بی جے پی بڑی مشکل سے جیتی اور اس کے پیچھے بھی مودی فیکٹر کارفرما نہ تھا بلکہ وزیر اعلیٰ رام سنگھ کی اچھی شہرت کو زیادہ دخل تھا۔ میزورام میں کانگرس نے 40 میں سے 32 نشستیں حاصل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اگرچہ شمالی ہندوستان میں ہندی بولنے والے علاقے اس کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں لیکن ملک کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں اْسے اب بھی پذیرائی حاصل ہے۔ اس بنا پر کانگرس ایک قومی پارٹی ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔
لیکن بی جے پی اب بھی اس مقام سے کافی دور ہے کیونکہ اس کا ووٹ بینک صرف بھارت کے شمال مغربی حصے میں واقع ہندی بولنے والی ریاستوں تک محدود ہے۔ اگرچہ نریندرا مودی نے بھارت کے مختلف حصوں کا طوفانی دورہ کر کے بی جے پی کی انتخابی مہم میں جان ڈال دی ہے اور وہ ایک اچھے اور فیصلہ کن اقدام کرنے والے منتظم کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں؛ تاہم بی جے پی کو آئندہ انتخابات میں ایک لینڈسلائڈ کامیابی دلوانے میں ان کی اہلیت مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ مودی کی تمام تقاریر اور بیانات کا فوکس ہندوتوا یعنی انتہا پسند ہندو قوم پرستی اور کانگرس حکومت پر تنقید ہے۔ اسمبلی انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ عام آدمی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سیاسی لیڈر بے روزگاری، مہنگائی اور قانون شکنی ختم کرنے کیلئے عملی اقدامات پر مبنی پروگرام پیش کریں۔ کانگرس کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اس کا تمام تر زور بی جے پی اور نریندرا مودی کو فرقہ پرست ہونے کی وجہ سے قومی اتحاد اور ملکی سالمیت کیلئے سنگین خطرہ ثابت کرنے پر صَرف ہو رہا ہے۔ اسی بنا پر کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ نے اسمبلی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عوام کانگرس اور بی جے پی دونوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور وہ کسی ایک تیسری قوت کی تلاش میں ہیں‘ جو انہیں معاشی مسائل اور سماجی عدم تحفظ سے نجات دلائے۔ بھارتی میڈیا میں بیشتر مبصرین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات میں بی جے پی کانگرس سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی‘ لیکن بی جے پی کو مرکز میں حکومت کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اٹل بہاری واجپائی کے برعکس نریندرا مودی کی شخصیت میں وہ کشش نہیں جو 20 سے زائد اینٹی کانگرس جماعتوں پر مشتمل نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) کو وجود میں لا سکے۔ نریندرا مودی کے بارے میں بھارتی میڈیا کی رائے یہ ہے کہ وہ سیاسی اتحادیوں کو اپنی طرف اٹریکٹ (Attract) کرنے کی بجائے، ریپیل(Repell) کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ اس لیے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بی جے پی 2014ء کے انتخابات میں ایک واحد بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھرنے کے باوجود، ہو سکتا ہے مخلوط حکومت میں شمولیت کیلئے اتحادیوں کے حصول میں ناکام رہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں آئندہ برس انتخابات میں کانگرس اور بی جے پی دونوں پارٹیاں پیچھے رہ جائیں گی اور ممکن ہے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی، علاقائی، نان کانگرسی اور نان بی جے پی پارٹیاں مل کر کانگرس اور بی جے پی دونوں سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائیں۔