"DRA" (space) message & send to 7575

افغانستان‘ ایران اور بھارت کا اُبھرتا ہوا اتحاد

افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے گزشتہ دنوں بھارت کا تین روزہ دورہ مکمل کیا۔ پچھلے تین برسوں میں اُن کا بھارت کا یہ پانچواں دورہ ہے۔ لیکن افغانستان اور امریکہ کے درمیان مجوزہ سکیورٹی پیکٹ پر صدر کرزئی کے تحفظات کے پیشِ نظر اس دورے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ امریکہ اگلے سال اپنی اور نیٹو کی بیشتر افواج نکالنے کے بعد بھی دس سے پندرہ ہزار فوجی افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے۔ صدر کرزئی اس شرط سے متفق ہیں لیکن جن شرائط کے تحت یہ دستہ افغانستان میں مقیم ہو گا،اُس پر صدر کرزئی کا موقف امریکیوں سے مختلف ہے۔ان ہی اختلافات کی وجہ سے صدر کرزئی نے مجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگلے سال اپریل میں صدارتی انتخابات میں جو اُمیدوار کامیاب ہوگا وہی اس پر دستخط کرے گا۔حالانکہ کچھ عرصہ پیشتر اس معاہدے پر غور کرنے کیلئے قبائلی عمائدین پر مشتمل جو (لوئی)جرگہ بلایا گیا تھا، جس نے نہ صرف اس معاہدے کو منظور کر لیا تھا بلکہ صدر کرزئی پر زور دیا تھا کہ وہ بلاتاخیر اس معاہدے پر دستخط کردیں۔لیکن صدر کرزئی بدستور اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اُن کا اصرار ہے کہ جب تک امریکہ اس بات کی ضمانت فراہم نہیں کرتا کہ اُس کی فوجیں کارروائی کے دوران شہریوں کو نشانہ بنانے سے اجتناب کریں گی، وہ معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔ 
اس دبائو کا مقابلہ کرنے کیلئے صدر حامد کرزئی ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطہ قائم کر کے اُن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔صدر کرزئی کا دورہ بھارت اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت سے قبل وہ اوائل دسمبر میں ایران کا ایک روزہ دورہ بھی کر چکے ہیں۔ جس کے دوران میں اُنہوں نے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی تھی۔اس ملاقات کے نتیجے میں دواہم باتیں سامنے آئی ہیں۔ایک تو یہ کہ ایران نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے مغربی ایشیا سے غیر ملکی افواج کے نکل جانے کا مطالبہ کیا ہے۔اور دوسرا یہ کہ افغانستان اور ایران کے درمیان اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں قریبی تعاون پر مبنی ایک ''ریجنل سیکورٹی پیکٹ‘‘پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ ایران کا افغانستان میں ثقافتی،سفارتی اور معاشی شعبوں میں پہلے سے ہی کافی اثرورسوخ موجود ہے۔مبصرین کے مطابق صدر کرزئی افغانستان کو ایران کے اور بھی قریب لے جانا چاہتے ہیں اور اس کیلئے وہ نہ صرف امریکہ کے ساتھ مجوزہ سیکورٹی پیکٹ پر اپنے موقف کے حق میں ایرانی حمایت کے طلبگار ہیں،بلکہ 2014ء میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد امن،سلامتی اور افغان نیشنل آرمی کیلئے ایرانی امداد اور تعاون کے بھی خواہش مند ہیں۔ اگرچہ ایران افغانستان میں امریکہ کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتا،تاہم تبصرہ نگاروں کی رائے میں افغانستان میں ایران کے کردار میں اضافہ ناگزیر ہے۔اس کی وجہ تاریخی بھی ہے اور جغرافیائی بھی،ایران اور افغانستان 650کلو میٹر طویل مشترکہ بین الاقوامی سرحد کے علاوہ لسانی،مذہبی،ثقافتی اور تہذیبی رشتوں میں صدیوں سے منسلک چلے آرہے ہیں۔اب بھی 20لاکھ کے قریب غیر رجسٹرڈ افغان باشندے ایران میں بطور مہاجر مقیم ہیں۔مستقبل میں افغانستان اور ایران کے درمیان سیاسی، دفاعی اور اقتصادی شعبوں میں قریبی تعاون کے یقینی امکانات موجود ہیں۔
اس منصوبے میں افغانستان اور ایران کے ساتھ بھارت بھی شامل ہوگیا ہے۔اس سے قبل بھارت شمالی افغانستان میں 220کلو میٹر لمبی سڑک تعمیر کر چکا ہے جسے ایران کے راستے چاہ بہار سے ملا دیا جائے گا۔ بھارت کی طرف سے چاہ بہار کی بندرگاہ کی وسعت میں دلچسپی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی،تجارتی بلکہ دفاعی شعبوں میں تعلقات میں نمایاںاضافہ ہوا ہے۔بھارت کی ملٹری اور پولیس اکیڈمیوں میں افغان نیشنل آرمی اور پولیس کے آفیسرز تربیت حاصل کررہے ہیں۔حال ہی میں انڈین ملٹری اکیڈمی سے50سے زائد افغان فوجی تربیت حاصل کر کے فارغ ہوئے ہیں۔صدر کرزئی نے بھارت سے ہتھیار او ر اسلحہ حاصل کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھالیکن بھارت،پاکستان کی طرف سے ممکنہ ردعمل کے پیشِ نظر افغانستان کے ساتھ دفاعی شعبے میں اپنے تعاون کو محدود رکھنا چاہتا ہے۔تاہم اقتصادی سرمایہ کاری اور تجارتی شعبے میں افغانستان اور بھارت کے درمیان تعاون میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کی ایک اہم مثال حاجی گاک میں خام لوہے کے ذخائر کی کان کَنی کا منصوبہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ خام لوہے کے یہ ذخائر ایشیاء کے سب سے بڑے ذخائر ہیں اور ان کی کھدائی میں چین کے علاوہ متعدد دیگر ممالک بھی حصہ لے رہے ہیں۔
بھارت نے اس منصوبے میں گیارہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔اپنے حالیہ دورئہ بھارت کے دوران میں صدر کرزئی نے بھارتی سرمایہ کاروں کو چین کی مانند افغانستان کے بیش قیمت قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔اس سلسلے میں اُنہوں نے اپنے تین روزہ دورہ کے دوران میں بھارتی تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں سے بھی ملاقات کی اور اُن پر افغانستان کی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری پر زور دیا۔ 
ان اقدامات کے نتیجے میں بھارت اور افغانستان میں نہ صرف اقتصادی رابطوں بلکہ دوطرفہ تجارت میں بھی اضافہ ہوگا۔اس کے پیشِ نظر دونوں ملکوں نے ایران کے ساتھ ملکر چاہ بہار کی بندرگاہ کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔چاہ بہار کی بندرگاہ میں اس وقت 25لاکھ ٹن کارگو ہینڈل کرنے کی گنجائش ہے۔بھارت ،ایران اور افغانستان ملکر اس بندرگاہ کی کارگو ہینڈ لنگ گنجائش (Capacity)کو ایک کروڑ پچیس لاکھ ٹن تک لے جانا چاہتے ہیں۔
صدر کرزئی کی طرف سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطہ کرنے اور اُن کی افغانستان میں حالات کو قابو میں رکھنے کی خاطر امداد حاصل کرنے کی کوششیں صرف بھارت اور ایران تک ہی محدود نہیں۔ گزشتہ ماہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کا دورئہ افغانستان اور صدر کرزئی سے اُن کی ملاقات کو بھی اس سلسلے کی ایک کڑی کہا جاسکتا ہے۔پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے صدر کرزئی نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی ہے۔بلکہ اُنہوں نے امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی بھی مذمت کی۔ لیکن پاکستان کی طرف سے افغان حکام کو ملا برادر تک رسائی دینے سے انکار اور حقانی نیٹ ورک کی افغانستان میں کاروائیوں کی طرف سے مسلسل چشم پوشی کی وجہ سے،افغانستان کے حلقے پاکستان سے ناراض ہیں۔جہاں تک افغانستان کے ساتھ بھارت اور ایران کا ایک صفحہ پر ہونے کا تعلق ہے تو اس کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آتی کیونکہ ایران اور بھارت دونوں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے سخت خلاف ہیں۔ بھارت، افغان حکومت کی طرح افغانستان میں امریکی افواج کی محدود تعداد کے قیام کا حامی ہے۔البتہ ایران نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہ ایک ایسا نکتہ نہیں جو ان تینوں ملکو ں یعنی افغانستان،ایران اور بھارت کے درمیان اتحاد کے راستے میں رکاوٹ بن سکے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟اور اُس نے اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اپنے لیے کون سا مقام چُنا ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں