موجودہ عالمی سیاسی نظام تقریباً دو سو آزاد اور خودمختار ممالک پر مشتمل ہے۔ ان میں سے کئی باہمی تعاون اور دوستی کے رشتوں میں ایک دوسرے سے منسک ہیں اور چند کے درمیان سرحدی‘ لسانی یا اقتصادی نوعیت کے تنازعات بھی ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد عالمی سیاست میں چونکہ غالب رجحان باہمی اشتراک اور علاقائی تعاون کی طرف ہے‘ اس لیے جب کسی تنازع کے حل کے لیے قوموں کے درمیان رابطہ یا مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو عالمی میڈیا شہ سرخیوں کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔ مثلاً حال ہی میں ایران اور امریکہ سمیت 5 مغربی ممالک اور چین کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کا آغاز ہوا تو پوری دنیا کی نظریں ان مذاکرات پر لگی ہوئی تھیں۔ اسی طرح عرب‘ اسرائیل تنازع پر فریقین آپس میں گفتگو کا آغاز کرتے ہیں تو عالمی برادری اس سے مثبت نتائج کی آس لگا کر بیٹھ جاتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال شمالی کوریا کے ایٹمی مسئلے پر سہ فریقی مذاکرات کے حوالے سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان دیرینہ تنازعات کا بین الاقوامی امن اور استحکام سے بڑا گہرا تعلق ہے اور اگر ان تنازعات کی وجہ سے قوموں کے درمیان تصادم کی صورت حال پیدا ہو جائے تو متصادم قوموں کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن سخت خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس امکان سے بچنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تنازعات کو حل کرنے کی کوششوں کی نہ صرف حمایت کی جاتی ہے بلکہ جہاں تک بس چلے‘ دنیا کے با اثر اور اہم ممالک ان کوششوں کو کامیاب بنانے کے لیے سفارتی اور سیاسی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی تنازع اب صرف براہ راست ملوث ہونے والے ملکوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پوری دنیا اس کے بارے میں اپنی تشویش یا دلچسپی کا اظہار کرتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں سے حل طلب تنازعات بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔ چنانچہ جب کبھی دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی سطح پر رابطہ یا مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو پوری دنیا کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ مذاکرات کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور فریقین پر انہیں کامیاب یا بارآور بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے حالیہ ملاقات ہے۔ پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادت کے درمیان یہ کوئی پہلا رابطہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی دونوں طرف سے سرحدی صورت حال کے بارے میں رابطے ہوتے رہے ہیں۔ خصوصاً جب سے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہاٹ لائن قائم کی گئی ہے‘ پاکستانی اور بھارتی افواج کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہفتے میں کم از کم ایک بار قائم ہوتا چلا آ رہا ہے۔ تاہم 24 دسمبر کو واہگہ کے قریب پاکستان رینجرز کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ملاقات یقینا ایک اہم پیش رفت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملاقات کے بارے میں خبر کو نہ صرف پاکستان اور بھارت کے میڈیا میں نمایاں جگہ دی گئی بلکہ جنوبی ایشیا سے باہر بھی اس پر تبصرے کیے گئے۔ جن ملکوں نے اس میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ان میں امریکہ اور چین شامل ہیں۔ دونوں ملکوں نے اس اقدام کو سراہا اور توقع ظاہر کی کہ اس ملاقات کے نتیجے میں نہ صرف لائن آف کنٹرول پر دیرپا امن قائم ہوگا بلکہ
دیگر تنازعات کے حل کے لیے بھی راہ ہموار ہو جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بین الاقوامی برادری کی دلچسپی نئی بات نہیں۔ شاید کچھ لوگوں کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ تقریباً ایک دہائی پہلے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی اور اس کے نتیجے میں امن کے عمل کے آغاز کا سہرا صرف بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی اور جنرل مشرف کے سر ہی نہیں جاتا بلکہ اسے پٹڑی پر لانے کے لیے بہت سے ممالک نے درپردہ کردار ادا کیا تھا جو فیصلہ کن ثابت ہوا۔ ان ممالک میں امریکہ‘ روس‘ برطانیہ اور یورپی یونین کے علاوہ چین بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی کسی واقعہ یا حالات کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی نے خطرناک صورت اختیار کی تو ان ممالک کی مداخلت کام آئی اور حالات کو قابو سے باہر جانے سے روک دیا گیا۔
جنوبی ایشیا جیسے اہم خطّے میں امن اور سلامتی کے بارے میں عالمی برادری کو پاکستان اور بھارت سے کچھ اہم توقعات ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا مفید ہوگا بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام ان سے بخوبی آگاہ ہوں تاکہ حکومت کی طرف سے ان توقعات کے مطابق ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو دوستانہ بنیادوںپر استوار کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو انہیں عوامی تائید حاصل ہو۔ یہ توقعات اس لیے کی جاتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت نہ صرف آبادی بلکہ جنگی لحاظ سے بھی جنوبی ایشیا کے سب سے اہم ممالک ہیں‘ اس لیے اس خطّے میں امن اور استحکام برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی ان دو ممالک پہ آتی ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان اور بھارت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ دونوں اپنے باہمی تنازعات کو تصادم کی شکل اختیار کرنے کا موقع نہ دیں۔ دوسرے ان کو حل کرنے کے لیے پُرامن دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ ہر صورت برقرار رکھیں۔ تیسرے ان تنازعات اور ا ختلافات کو آپس میں تعاون مثلاً تجارت اور رابطوں یعنی عوامی سطح پر تعلقات کے فروغ کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے دیں بلکہ زمینی‘ فضائی اور بحری راستوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ میل جول میں اضافہ کریں تاکہ نہ صرف علاقائی اقتصادی شعبوں میں تعاون میں اضافہ ہو بلکہ عوامی سطح پر بھی ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی کے جذبات پیدا ہوں۔
اگر پاکستان اور بھارت اس راستے پر چل پڑیں تو انہیں عالمی برادری اہم رعایات اور سہولتوں سے نوازنے کے لیے تیار ہوگی۔ مثلاً گزشتہ دس برسوں کے دوران میں یورپی‘ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت‘ سیاحت‘ ثقافت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں جو قریبی تعلقات قائم کیے ہیں‘ وہ سال 2004ء میں پاک بھارت امن مذاکرات کے آغاز اور اس کی کامیابی کے روشن امکانات کا نتیجہ ہیں۔ تازہ ترین مثال یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کی رعایت دینے کا اعلان ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق یورپی یونین کا یہ فیصلہ پاکستانی معیشت کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگا۔ یورپی یونین میں شامل ممالک کو پاکستانی برآمدات کی مالیت میں ہر سال کم از کم ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا‘ جس سے ہمارے ہاں بے روزگاری میں کمی آئے گی اور کرنسی کی قیمت مستحکم ہوگی لیکن اس رعایت کے ساتھ یورپی یونین کے رکن ممالک پاکستان سے بھی توقع رکھیں گے کہ وہ اپنے ہاں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات کو استوار کر کے علاقائی تعاون اور امن کے قیام کے لیے کوشش کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ہو یا بھارت دونوں کے ساتھ خصوصاً تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں عالمی برادری کے قریبی تعلقات کا انحصار جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام پر ہے۔
صرف یورپی اور مشرق بعید کے ممالک ہی نہیں بلکہ خود جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ میں شامل دیگر ممالک بھی شدت سے پاک بھارت دوستی اور تعاون کے خواہش مند ہیں۔ اس لیے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان اختلافات‘ کشیدگی اور عدمِ تعاون کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون کا عمل آگے نہیں بڑھ رہا۔ اس کا خمیازہ سب سے زیادہ خطے کے چھوٹے ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ان دونوں ممالک پر اپنے باہمی اختلافات دور کرنے اور تنازعات کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔ اس سمت پاکستان اور بھارت جب بھی کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو پورے خطّے میں اس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کے امن‘ استحکام اور ترقی کے عمل میں بین الاقوامی برادری کی دلچسپی اور شراکت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا ناگزیر عمل ہے جسے پاکستان اور بھارت نظر انداز نہیں کر سکتے اور انہیں خطے میں امن اور اپنے عوام کی خوشحالی کی خاطر بین الاقوامی توقعات پر پورا اترنا پڑے گا۔