ایک سال کے اختتام پر اور دوسرے سال کے آغاز پر گزرے ہوئے برس کے اہم واقعات کو یاد کیا جاتا ہے۔اور آنے والے برس میںمتوقع واقعات کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔یہ رسم اب مستقل صورت اختیار کر چکی ہے۔پہلے کی طرح اب بھی گزشتہ سال 2013ء میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ان واقعات کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ اور پھر ان تجزیوں کی روشنی میں آنے والے سال کے بارے میں پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ضروری نہیں سب تجزیہ کاروں کی ایک ہی رائے ہو۔ نہ ہی یہ لازمی ہے کہ پیش گوئیاں بھی ایک جیسی ہوں۔یا درست ثابت ہوں کیونکہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی اور سیاسی تبدیلیوں کے عمل میں ایک سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ حالات کس کروٹ بیٹھیں گے،کوئی بھی مسئلہ کسی بھی وقت سر اٹھا سکتا ہے۔ایسی صورت میں تجزیہ کاروں کے اندازے اور پیش گوئیاں الٹ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔البتہ سب تجزیہ نگاروں میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ سب اپنے اپنے تجزیوں میں ان واقعات پر فوکس کرتے ہیں جو وقوع پذیر ہوئے۔کوئی ان واقعات کا تذکرہ نہیں کرتا جو وقوع پذیر نہ ہوئے ہوں لیکن ان کے وقوع پذیر ہونے کا قوی امکان ہو۔آج کے کالم میں گزرے سال 2013ء کا جائزہ لیتے ہوئے ہم ان امکانات کا ذکر کریں گے جو عملی شکل اختیار کرتے کرتے رہ گئے۔ان امکانات میں سب سے اہم کچھ عناصر کی طرف سے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اتارنے کی سر توڑ کوشش تھی۔خدا کا شکر ہے کہ یہ کوشش ناکام ہوئی اگرچہ اسے ناکام بنانے کیلئے عوام اور سیاسی پارٹیوں کو بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی۔لیکن مئی2013ء کے پارلیمانی انتخابات کو سبوتاژکرنے اور اقتدار کے پر امن انتقال کو روکنے کیلئے جو مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے،وہ ایک ایک کرکے ناکام ہوگئے۔
جوں ہی سال2013ء کا آغاز ہواجمہوریت مخالف قوتیں سرگرم ہوگئیں۔سب سے پہلے یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوں گے اور یہ کہ صدر آصف علی زرداری انتخابات کی تاریخ میں ایک سال کی توسیع کی کوشش میں ہیں تاکہ اس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ریٹائرڈ ہوجائیں اور صدر زرداری کو اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے الیکشن شیڈول کے اعلان میں تاخیر نے ان افواہوں کو مزید ہوا دی۔تاہم جب انتخابات یقینی نظر آنے لگے تو انہیں سبوتاژ کرنے کیلئے سب سے زیادہ مذموم اور تباہ کن ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا۔اس سازش کے تحت ملک کے ہر حصے میں تباہ کن دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کی گئیں ۔افغانستان سے ملحقہ سرحدی صوبے یعنی خیبر پختون خوا اور بلوچستان ان کارروائیوں کا خاص نشانہ تھے۔لیکن ملک کے دیگر حصے بھی محفوظ نہ تھے۔حد یہ ہے کہ ایک ہی دن میں کئی بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے واقعات ہوئے۔جماعت اسلامی ،تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن)کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی ان حملوں سے محفوظ نہ تھی۔ان سب کارروائیوں کا مقصد عوام اور سیاسی پارٹیوں کو خوف زدہ کرنا تھاتاکہ وہ انتخابی عمل میںحصہ نہ لے سکیں۔
دہشت گردی کی کارروائیوں کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ سال اوائل جنوری میں صرف ایک روز یعنی 10جنوری کو کوئٹہ اور مینگورہ(سوات)میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے تین واقعات میں 115معصوم شہری جن میں مرد،عورتیں اور بچے بھی شامل تھے،شہید اور263کے قریب زخمی ہوئے۔ان میں سے صرف کوئٹہ میں علم دار روڈ پر حملے میں93افراد ہلاک ہوئے۔ان میں سے86کا تعلق ہزارہ شیعہ برادری سے تھا اس کے چار دن بعد شمالی وزیرستان میں میران شاہ کے قریب ایک فوجی قافلے پر حملہ کیا گیا جس میں 14سپاہی شہید اور21زخمی ہوئے۔جنوری کے بعد فروری بھی کچھ کم تباہ کن نہیں تھا۔اس ماہ کے دوران میں صرف تین دن کے وقفے میں کوئٹہ شہر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔شہر میں کرم داد روڈ پر بارود بھرے ٹینکر کو اڑا کر جو دھماکہ کیا گیا اس میں87افراد ہلاک اور170زخمی ہوئے یہ دھماکہ جنوری میں علم دار روڈ پر کیے جانے والے دھماکہ سے بھی بڑا تھا اور اس میں ماہرین کے مطابق آٹھ سو سے ایک ہزار کلوگرام تک دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
جوں جوں انتخابات قریب آتے گئے،دہشت گردوں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور انہوں نے زیادہ تباہی پھیلانے کیلئے نئے ہتھکنڈے بھی استعمال کرنا شروع کر دئیے۔
ان کا اصل ہدف فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانا تھا۔3مارچ کو کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں جہاں رہائش پذیر لوگوں کی اکثریت کا تعلق شیعہ برادری سے تھا،ایک زور دار بم دھماکہ کیا گیا۔دہشت گردی کی اس واردات میں45افراد ہلاک اور135زخمی ہوئے۔ارد گرد کی رہائشی عمارتوں کی جو نقصان پہنچا وہ اس کے علاوہ تھا۔ان کاروائیوں سے دہشت گرد خوف و ہراس کی فضاء اور سیاسی انتشار پھیلانا چاہتے تھے تاکہ مئی2013ء کے انتخابات نہ ہو سکیںاور جمہوریت کی گاڑی رواں دواں نہ رہ سکے۔لیکن عوام اور سیاسی پارٹیوں کے حوصلے پست نہ ہوئے البتہ کوئٹہ کے تباہ کن واقعات نے نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کی چھٹی کروادی اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ اور متاثرہ افراد کی طرف سے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے پر اصرار دراصل جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی طرف پہلا قدم ہے اور یہ کہ انتخابات وقت پر نہ ہو سکیں گے۔
وسط جنوری میں ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد میں دھرنے سے یہ خدشات اور بھی پکے ہو گئے ''سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ کا نعرہ بلند کر کے تحریک منہاج القران کے لبرل مذہبی رہنما ڈاکٹر طاہر القادری نے کڑاکے کی سردی اور بارش کے باوجود اپنے ہزاروں مریدوں کو اسلام آباد کے بلیو ایریامیںجمع کر کے پورے پاکستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔انتہائی نظم وضبط کا مظاہرہ کرنے والا عورتوں،بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں پر مشتمل انسانوں کا یہ جم غفیر ایک ہی نعرہ لگارہا تھا ''انقلاب لیکن کیسا انقلاب؟‘‘ اس سوال کا جواب نہ تو حاضرین کے پاس اور نہ ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس تھا۔البتہ انہوں نے اپنی تمام توپوں کا رخ جمہوریت پر مبنی نظام کی طرف موڑ دیا تھا۔ان کے اس اقدام کو بہت سے لوگوں نے ان خفیہ ہاتھوں کا اشارہ قرار دیا تھا جو جمہوریت کے خلاف ہمیشہ سازشوں میں شریک رہے ہیں۔ ایک طرف دہشت گردوں کے حملے اور دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری کی جمہوری سیاست کے خلاف مہم نے اس تاثر کو عام کر دیا تھا کہ مئی میں انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔امید کی صرف ایک کرن تھی ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) سمیت تقریباََ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی معرکہ میں حصہ لینے کیلئے تیار تھیں۔
دہشت گردی کی وارداتیں ان کے عزم کو کمزور نہ کر سکیں تو دہشت گردوں نے حملوں کا رخ ان سیاسی پارٹیوں کی طرف موڑ دیا جو ان کے نزدیک سیکولر سوچ کی حامی تھیں۔پیپلز پارٹی سے لے کر اے این پی، بلوچ نیشنل پارٹی اور ایم۔کیو۔ایم تک ان دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بنے۔ان حملوں میں پارٹی ورکرز کے علاوہ قومی او ر صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے امیدوار بھی شہید ہوئے۔سب سے زیادہ نقصان اے این پی کو اٹھانا پڑا جس کی اپریل میں پشاور کی ایک ریلی پر حملے میں16کارکنوں سمیت4پولیس اہلکار بھی شہید ہوگئے۔نئے سال کی آمد پر جب ہم گزشتہ برس کا ذکر کرتے ہوئے مئی2013ء کے انتخابات کوجمہوری جدوجہد میں ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قوم نے یہ منزل آگ کا دریا عبور کر کے حاصل کی تھی۔