"DRA" (space) message & send to 7575

افغانستان‘ امریکی انخلا اور پاکستان

امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر جلیل عباس جیلانی نے واشنگٹن میں ایک بیان میں کہا ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلاء کی صورت میں پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔جن میں سب سے زیادہ اہم افغانستان میں سکیورٹی اور پاکستان میں افغان مہاجرین کی متوقع آمد ہے۔اْنہوں نے کہا کہ ابھی انخلاء میں کئی ماہ باقی ہیں اور اس کی صرف باتیں ہورہی ہیں،لیکن افغانستان سے پاکستان میں مہاجرین کی آمدکا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔یہی وہ خدشات ہیں جن کے پیشِ نظر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری بھی افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلاء کو تشویش کی نظر سے دیکھتی ہے۔جوں جوں امریکی اعلان کے مطابق اس کی فوجوں کی واپسی کا وقت قریب آرہا ہے،اس تشویش میں اضافہ ہورہا ہے۔ کیونکہ افغانستان ہو یا اْس کے ہمسایہ ممالک ،اس بات سے خائف ہیں کہ جب تک امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں موجود ہیں،طالبان کی موجودگی صرف سرحدی یا دیہی علاقوں تک محدود ہے۔بیرونی افواج کے چلے جانے کے بعد افغانستان پر اْن کے قبضے کو کوئی نہیں روک سکے گا۔کیونکہ کرزئی حکومت اور اْس کی افواج طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوں گی۔حال ہی میں امریکہ کی درجن سے زیادہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے آخر میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کی صورت میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کو کوئی نہیں روک سکتا۔اگرچہ یہ خدشہ پہلے بھی ظاہر کیا جا چکا ہے لیکن افغانستان کی حالیہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کے بارے میں جو بھی اندازے ظاہر کیے گئے یا پیش گوئیاں کی گئیں،وہ سچ ثابت نہیں ہوئیں۔اس لیے روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا؟جب دسمبر1979ء میں سابق سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئی تھیں،تو عام تاثر یہ تھا کہ روس اب افغانستان سے نہیں جائے گا۔کیونکہ مشرقی یورپ کی مثال ساری دنیا کے سامنے تھی جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد ہٹلر کی فوجوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے روسی فوجیں مشرقی یورپ کو روندتی ہوئی جرمنی تک پہنچ گئی تھیں۔اور پھر واپس جانے کی بجائے ان ممالک پر کمیونسٹ حکومتیں مسلط کرکے انہیں وارساپیکٹ کے تحت اپنا قریبی اتحادی بنا لیا۔پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کو بھی یقین تھا کہ روسی فوجیں افغانستان خالی نہیں کریں گی اور اْس نے ملک میں اپنی آئندہ منصوبہ بندی اسی مفروضے کی بنیاد پر کر رکھی تھی ۔لیکن 1988ء میں جب محمد خان جونیجو کی حکومت نے جنیوا مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے معاہدہ پر دستخط کر دیئے،تو وہ سخت مایوس ہوئے اور جھنجھلاہٹ میں اْنہوں نے نہ صرف جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا بلکہ اخبارات میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق اْن کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ ''کوئلوں کی دلالی میں ہمارا منہ کالا ہوگیاہے‘‘۔
کچھ اس قسم کی غلط فہمی کا شکار جنرل مشرف بھی تھے جن کے اقتدار سنبھالنے کے دوسال بعد ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔جنرل مشرف کا خیال تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی کارروائی بہت مختصر ہوگی اور امریکی بہت جلد افغانستان سے نکل جائیں گے۔لیکن جب افغانستان میں جنگ نے طول پکڑا اور طالبان کی مراحمت ختم ہونے کی بجائے،تقویت پکڑنے لگی،تو امریکیوں کو افغانستان میں اپنی افواج کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔جو ایک وقت میں ڈیڑھ لاکھ سے بھی زائد تھی۔پاکستان کو بھی یہ صورت حال بخوشی قابل قبول تھی کیونکہ اس طرح پاکستان پر امریکہ کے انحصار میں اضافہ ہوا تھا۔یا دوسرے الفاظ میں پاکستان امریکہ کی نظرمیں ایک مخصوص پوزیشن اختیار کر چکا تھا۔چنانچہ وہی جنرل پرویز مشرف جو افغانستان میں امریکی اقدام کو شارٹ اور شرفٹ (Short and Shrift)سمجھ بیٹھا تھا۔اب افغانستان میں طالبان کے خلاف مزید امریکی اور نیٹو افواج کے حق میں بیانات دے رہا تھا۔
پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک جن میں چین اور روس بھی شامل ہے،بھی افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی اچانک اور مکمل واپسی کے حق میں نہیں۔اْن کا موقف اس دلیل پر مبنی ہے کہ چونکہ امریکہ نے ہی افغانستان میں موجودہ حالات بگاڑے ہیں اس لیے انہیں ٹھیک کرنا بھی امریکہ کی ہی ذمہ داری ہے۔بین الاقوامی برادری سمجھتی ہے کہ تیرہ برس افغانستان کو جنگ اور تباہی کی بھٹی میں جھونکنے کے بعد امریکہ کو افغانستان اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے کہ اْس کی فوجوں کے انخلاء کے 
بعدیہ ایک خون ریز اور خطر ناک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔ بین الاقوامی برادری اور خصوصاََ وہ ممالک جن کی سرحد یں افغانستان سے ملتی ہیں،اس قسم کی صورت حال سے سخت خائف ہیں کیونکہ وہ خود ان حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔امریکہ سمیت دیگر ممالک کو یہ ڈر بھی لاحق ہے کہ بیرونی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان افغانستان پر دوبارہ قابض ہو جائیں گے اور افغانستان دہشت گردوں کا دوبارہ اڈہ بن جائے گا۔اس لیے امریکہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ افغانستان چھوڑنے سے پہلے ملک میں ایسا سیٹ اَپ قائم کرے جو اْس کے چلے جانے کے بعد افغانستان میں امن و استحکام کی ضمانت دے سکے۔
امریکہ نے اس مقصد کے حصول کیلئے سر توڑ کوششیں کی ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات اور کرزئی حکومت کی طرف سے امن اور مفاہمت کا سلسلہ ان ہی کوششوں کا حصہ ہے۔لیکن یہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں تو دوسری طرف امریکہ اور کرزئی حکومت کے درمیان مجوزہ دوطرفہ سیکورٹی پیکٹ پر دستخط نہ ہونے کی وجہ سے اول الذکر سخت مضطرب ہے۔اس سے افغانستان کے آئندہ حالات کے بارے میں غیر یقینی میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک اس بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورت حال سے سخت پریشان ہیں کیونکہ امریکہ اور نیٹو افواج کی عدم موجودگی میں متحارب افغان گروپوں کو آپس میں متصادم ہونے 
سے کوئی نہیں روک سکے گااور افغانستان ایک دفعہ پھر خانہ جنگی اور اندرونی خلفشار کا شکار ہو جائے گا۔
ایسی صورت میں جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ بلاشبہ پاکستان ہے۔ ماضی میں افغانستان کے اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستان کو معاشی اور سماجی لحاظ سے جو نقصانات پہنچے،اْن کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔اگر امریکی اپنے پیچھے ایک ایسا افغانستان چھوڑ کر اپنی راہ لیتے ہیں جو ایک دفعہ پھر جنگ اور خلفشا رکا شکار ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف افغانستان کے عوام بلکہ پورے خطے کے عوام کیلئے انتہائی خطر ناک ثابت ہوسکتا ہے۔اس لیے پاکستانی سفیر برائے امریکہ جلیل عباس جیلانی نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ باالکل بجا ہیں اور اْن کے پیش نظر لازمی ہے کہ پاکستان افغانستان کے مستقبل اور امریکی انخلاء سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورت حال کے بارے میں اپنا موقف بیان کرے۔لیکن پاکستان کو صرف اس پر ہی اکتفاء نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں ہم اپنے قومی سکیورٹی مفادات کو صرف ایک ملک یعنی امریکہ کے اقدام اور فیصلوں کا محتاج بنا دیں گے۔پاکستان ایک آزاد،خود مختار اور ایٹمی قوت کا مالک ملک ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں ایک جمہوری طور پر منتخب مضبوط حکومت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جرات سے آگے بڑھ کر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے۔اس کیلئے اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اندرونی طور پر دہشت گردی کا قلع قمع کر کے ہمسایہ ممالک یعنی افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ نہ صرف تعلقات کو بہتر کیا جائے،بلکہ ان کے ساتھ مل کر 2014ء کے بعد کی افغان صورت حال سے نمٹنے کیلئے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں