بنگلہ دیش ایک دفعہ پھر خبروں اور تبصروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔ چند روز پیشتر اس کا سبب جماعتِ اسلامی کے ایک رہنما عبدالقادر ملا کو 1971ء کی خانہ جنگی میں پاکستانی افواج کا ساتھ دینے کے الزام میں پھانسی دینا تھا۔ اب موضوع بحث 5 جنوری کو ہونے والے بنگلہ دیش کے 10ویں پارلیمانی انتخابات ہیں۔
ان انتخابات کو یک طرفہ کہا جا رہا ہے کیونکہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی قیادت میں ایک درجن سے زائد سیاسی پارٹیوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں حکمران عوامی لیگ (AL) نے پارلیمنٹ میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کر لی ہے‘ کیونکہ 300 پارلیمانی نشستوں میں سے127 پر اس کے امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے ہیں۔ باقی حلقوں میں بھی مقابلہ برائے نام تھا‘ اور اطلاعات کے مطابق ووٹرز ٹرن آئوٹ (Voter's Turn Out) بہت کم تھا۔
بی این پی‘ جس کی قیادت بنگلہ دیش کے ایک سابق صدر مرحوم ضیاالرحمٰن کی بیوہ بیگم خالدہ ضیا کے ہاتھ میں ہے، نے اپنے اس مطالبے کے حق میں انتخابات میں شرکت سے انکار کر رکھا تھا کہ وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت مستعفی ہو کر ایک نگران حکومت قائم کرے اور انتخابات اس نگران اور غیرجانبدار حکومت کے تحت ہوں۔
بنگلہ دیش میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت محاذآرائی اور عدم تعاون کی بنا پر نگران حکومت کے تحت عام انتخابات کروانے کا سلسلہ 1990ء میں شروع ہوا تھا۔ یہ نگران حکومتیں عام طور پر کسی ریٹائرڈ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کی جاتی تھیں‘ لیکن 2011ء میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے‘ جسے سابق پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل تھی، ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس شق کو آئین سے خارج کر دیا‘ کیونکہ ملک کی سپریم کورٹ نے نگران حکومت کی نگرانی میں انتخابات کرانے کی پریکٹس کو آئین کی روح کے منافی قرار دیا تھا۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اپوزیشن کو انتخابات کی نگرانی کیلئے ایک قومی حکومت تشکیل دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اپوزیشن نے اس پیشکش کو مسترد کر کے انتخابات کے بائیکاٹ اور حکومت کے خلاف ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔
ان ہڑتالوں اور مظاہروں کی وجہ سے بنگلہ دیش کی نہ صرف عام اور کاروباری زندگی مفلوج ہوئی بلکہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی وجہ سے درجنوں افراد کو اپنی جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین تصادم اور تشدد کا یہ سلسلہ دراصل گزشتہ برس سے ہی جاری تھا۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش میں گزشتہ برس یعنی سال 2013ء کے دوران میں 375 سے زائد افراد سیاسی تشدد کا نشانہ بنے۔ گزشتہ نومبر میں حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ انتخابات ہر حال میں کرائے جائیں گے، ان مظاہروں اور تشدد میں تیزی آ گئی اور صرف دو ماہ میں 160 افراد ہلاک ہوئے۔ پولنگ کے دن یعنی 5 جنوری کو مظاہرین نے100 سے زائد پولنگ اسٹیشن جلا دیے۔ پْرتشدد مظاہروں کی وجہ سے بہت سے مقامات پر ووٹ نہیں ڈالے جا سکے۔ پولیس کو بپھرے ہوئے مظاہرین کو روکنے کیلئے متعدد مقامات پر گولی چلانا پڑی جس کے نتیجے میں صرف ایک دن میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔
1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش متواتر تشدد اور سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ ان 41 برسوں میں ملک کے دو سربراہانِ مملکت قتل ہو چکے ہیں اور تیرہ دفعہ فوج کی کامیاب یا ناکام بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ بنگلہ دیش لمبے عرصے تک صدارتی نظام حکومت کے نام پر فوجی حکمرانوں کی شخصی حکومتوں کے ماتحت رہا۔ 1990ء میں جنرل حسین محمد ارشاد‘ جنہوں نے 1982ء میں جنرل ضیاالرحمٰن کے قتل کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی، کی حکومت کا تختہ اْلٹنے کے بعد بنگلہ دیش کی تمام سیاسی پارٹیوں نے پارلیمانی نظامِ حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ لیکن ملک بدستور تشدد، سیاسی محاذ آرائی اور عدمِ استحکام کا شکار رہا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ عوامی لیگ اور بی این پی کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی ہے۔ اس لڑائی کو دو بیگمات کی لڑائی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کی قیادت علی الترتیب دو خواتین یعنی حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے ہاتھ میں ہے۔ دونوں سیاسی پارٹیاں 1990ء سے اب تک باری باری اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ گزشتہ پارلیمنٹ‘ جس کے انتخابات 2008ء میں ہوئے تھے، عوامی لیگ کو کل 300 میں سے 230 نشستوں کے ساتھ دوتہائی اکثریت حاصل تھی جبکہ اس پارلیمنٹ میں بی این پی صرف 30 نشستیں حاصل کر سکی تھی‘ حالانکہ اس سے پہلے یعنی 2001ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ میں بی این پی کے پاس 200 کے قریب نشستیں تھیں۔ 2001ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ میں جماعتِ اسلامی کے پاس 17 نشستیں تھیں‘ لیکن 2008ء میں جو انتخابات ہوئے اْن میں نہ صرف بی این پی کو عبرتناک شکست ہوئی بلکہ اْس کی اتحادی جماعت اسلامی کا بھی صفایا ہو گیا اور وہ صرف دو نشستیں حاصل کر سکی۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ بی این پی اور اْس کی اتحادی جماعتوں نے 2008ء کے انتخابی نتائج کو دل سے قبول نہیں کیا تھا اور اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے حسینہ واجد کی حکومت کو ہڑتالوں‘ احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ لیکن دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد عوامی لیگ کے طرز حکومت میں بھی آمرانہ رویے کی جھلک نظر آتی رہی۔ بہت سے معاملات جن میں نگران حکومت اور پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی شامل ہے، حسینہ واجد کی حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس سے دونوں پارٹیوں کے درمیان عدم اعتماد اور اختلافات کی خلیج اور بھی وسیع ہو گئی۔ مبصرین کے نزدیک خالدہ ضیا کی پارٹی کا رویہ بھی کسی حد تک غیرذمہ دارانہ رہا۔ بہت سے مبصرین کے مطابق اپوزیشن نے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے غلطی کی کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران میں کرپشن کے متعدد سکینڈلوں، لاء اینڈ آرڈر کی بد ترین صورتحال، بدانتظامی اور حکمران جماعت کے کارکنوں کی غنڈہ گردی کے باعث عوامی لیگ کی مقبولیت کافی کم ہو چکی تھی۔ اگر بی این پی اور اْس کی ساتھی جماعتیں بھرپور طریقے سے انتخابات میں حصہ لیتیں تو اس دفعہ ان کی جیت یقینی تھی۔
بنگلہ دیش میں انتخابات کے موقع پر تشدد کے واقعات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ ملکی اور غیرملکی مبصرین بنگلہ دیش کی معیشت پر ان حالات کے باعث ہونے والے نقصانات پر بھی سخت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ آئے دن کی ہڑتالوں اور سیاسی محاذ آرائی کے باوجود، بنگلہ دیش نے معاشی اور سماجی شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ اس سلسلے میں ملک کی گارمنٹس انڈسٹری قابلِ ذکر ہے جس کی برآمدات سے بنگلہ دیش کو ہر سال بیس ارب ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کیلئے بہتر مواقع دستیاب ہونے کی وجہ سے بہت سے ممالک نے بنگلہ دیش میں اپنا سرمایہ اور مشترکہ صنعتی منصوبے لگانے کی طرف بھی رجوع کیا ہے۔ ان میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ جاپان، چین، یورپی یونین، امریکہ اور خلیج فارس کی عرب ریاستیں بھی شامل ہیں۔ ان سب ممالک کو بنگلہ دیش کے سیاسی حالات پر تشویش ہے کیونکہ حالیہ انتخابات نمایاں طور پر متنازعہ نوعیت کے ہیں۔ اپوزیشن نے ان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ایک غیرجانبدار حکومت کے تحت دوبارہ انتخابات کرائے جائیں اور جب تک یہ مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، اپوزیشن نے ملک گیر ہڑتالوں اور شٹر ڈائون کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان انتخابات کو متنازعہ اور یک طرفہ قرار دینے والوں میں بنگلہ دیش کی اپوزیشن کے علاوہ باہر کے ممالک بھی شامل ہیں۔ امریکہ نے انتخابی نتائج کو یک طرفہ قرار دے کر عوامی لیگ کی حکومت کی قانونی حیثیت کو مشکوک قرار دیا ہے۔ یورپی یونین نے بھی ان انتخابات کو غیرمنصفانہ قرار دے کر اپنے انتخابی مبصرین کو بنگلہ دیش بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ صرف بھارت نے ان انتخابات کو جائز قرار دیا۔
وزیر اعظم حسینہ واجد ان انتخابات کو آئین کے عین مطابق سمجھتی ہیں اور اْنہوں نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں کو ملک میں ہر قیمت پر امن قائم کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست کو قریب سے دیکھنے والے مبصرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ ملک اب ایجی ٹیشن اور سیاسی محاذ آرائی کی ایک طویل راہ پر چل نکلا ہے جس سے نہ صرف ملک کی معیشت ہی نہیں بلکہ بڑی مشکل سے قائم ہونے والی جمہوریت بھی بْری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔