''عام آدمی پارٹی‘‘کے ایک رہنماپرشانت بھوشن کی جانب سے کشمیر میں بھارتی افواج کی تعیناتی پر ریفرنڈم کروانے کی تجویز اور اس کے ردِعمل میں ایک انتہا پسند ہندو تنظیم''ہندو رکھشا دَل‘‘کا دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ایک دفتر پر حملہ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ گزشتہ تقریباََ25برس سے جاری کشمیریوں کی تحریک آزادی نے بھارت کی اندرونی سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
اس سے قبل عام طور پر سمجھا جارہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کی نوعیت،اس کی موجودہ صورتِ حال اور مستقبل کے بارے میں بھارت کی تمام سیاسی پارٹیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔اس تاثر کو پھیلانے میں کانگرس اور بی جے پی کی تمام حکومتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔بیرونی دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بھارت کے عوام خواہ اْن کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو کشمیر کے بارے میں ایک ہی رائے رکھتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔اس میں جو بھی گڑ بڑ ہورہی ہے اْس کے پیچھے صرف پاکستان کا ہاتھ ہے اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل یہ ہے کہ مٹھی بھر کشمیری مجاہدین کا فوجی آپریشن کے ذریعے قلع قمع کردیا جائے اور ہر شہر ،ہرقصبے اور ہر گائوں میں بھارتی افواج کو تعینات کر کے اور اْن کے ہاتھ میںخصوصی اختیارات دے کر کشمیری عوام کی آزادی کی آواز کو دبا دیا جائے۔
لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔بھارت کے صرف دانشور حلقوں میں ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی اب یہ بحث کھل کر جاری ہے کہ طاقت کے بے دریغ استعمال سے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
اگرچہ پارٹی کے رہنما اروندکجری وال نے پرشانت کے بیان کو اْن کی ذاتی رائے قرار دے کر مخالفین کا منہ بند کرنے کی کوشش کی ہے،تاہم عام آدمی پارٹی کے رہنما نے کوئی نئی بات نہیں کی،نہ ہی وہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے پہلے آدمی ہیں۔ اْنہوں نے جو کچھ کہا ہے اْس کا لْبِ لْباب یہ ہے کہ کشمیر میں طاقت کے استعمال سے تمام کشمیری خواہ اْن کا تعلق کسی بھی مذہب سے یا علاقے سے ہو،بھارت سے ذہنی طور پر اپنا رشتہ توڑ چکے ہیں۔بھارت جتنا مرضی شور مچائے کہ کشمیر اْس کا اٹوٹ انگ ہے حقیقت یہ ہے کہ 1989ء سے اب تک بھارتی افواج نے نہتے کشمیریوں کے خلاف جس طرح بے دریغ طاقت استعمال کی ہے،اْس کے نتیجے میں کشمیری اب اپنے آپ کو بھارت کا حصہ نہیں سمجھتے ۔مشہور بھارتی صحافی اور کالم نگار کلدیپ نائرنے یہی بات آج سے بیس برس پہلے کہی تھی اور بھارتی حکومت کو رائے دی تھی کہ کشمیریوں کا دل جیتنے کیلئے بھارت کشمیر کے بارے میں اپنے رویے اور پالیسی کو تبدیل کرے۔خود کشمیرکے اندر کانگرس کی حلیف سیاسی پارٹیوں نے بھی بھارتی افواج کو دیئے جانے والے
خصوصی اختیارات کی مخالفت کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کی سکیورٹی فورسز کو شہری آبادی سے دور رکھا جائے اور قانون سے بالاتر کارروائیوں کی روک تھام کیلئے اْن کے خصوصی اختیارات کو محدود کیا جائے۔
دیکھا جائے تو کشمیر پر موجودہ بھارتی موقف کو صرف اْن سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے جنہیں ہندی بولنے والے شمالی ہندوستان کی ریاستوں میں زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل بھارت کے اْن علاقوں کا مسئلہ ہے جو برہمنزم کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وہ علاقے ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف زیادہ تعصب پایا جاتا ہے۔ورنہ جہاں تک مشرقی اور جنوبی ہندوستان کا تعلق ہے،کشمیر کے بارے میں رائے مختلف پائی جاتی ہے۔مثلاً1998ء میں جب بی جے پی تین نعروں یعنی آرٹیکل370کی منسوخی، یونیفارم سول کوڈ اور رام مندر کی تعمیر کے ساتھ انتخابی میدان میں اْتری تھی تو اقتدار میں آکر وہ ان تینوں نعروں کو اس لیے عملی جامہ نہیں پہنا سکی تھی کیونکہ جنوبی ہندوستان سے اْس کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں مثلاً اے آئی ڈی ایم کے(AIDMK)نے ان مسائل پر بی جے پی کا ساتھ دینے سے ا نکار کردیاتھا۔اب بھی نریندرا مودی کے کیمپ سے آرٹیکل 370جس کے تحت کشمیر کو بھارت کے وفاقی ڈھانچے میں ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے،کے خلاف آواز آرہی ہے۔لیکن غالب امکان یہ ہی ہے کہ تمام تر دعوئوں کے باوجود بی جے پی اس پر عمل درآمد نہیں کرسکے گی۔کیونکہ اس پر باقی سیاسی جماعتوں جن میں کانگرس بھی شامل ہے ،کا موقف بی جے پی سے مختلف ہے۔کشمیر پر خود کانگرس کے دیرینہ اور روایتی موقف پر بھی اب دیگر جماعتوں کی طرف سے سخت تنقید ہورہی ہے۔ان جماعتوں میں بائیں بازو کی پارٹیاں شامل ہیں۔خصوصاََ کیمونسٹ پارٹی(مارکسٹ) جس نے مغربی بنگال پر تین دہائیوں تک حکومت کی اورجسے اب بھی مغربی بنگال کے علاوہ بھارت کی کئی جنوبی ریاستوں میں بھاری سیاسی حمایت حاصل ہے،کی طرف سے کشمیر میں بھارت کی موجودہ پالیسیوں اور طرزِ عمل کی بھر پور مذمت کی جاتی رہی ہے۔بلکہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی بھارت کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نزدیک کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کی ذمہ داری کانگرسی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے،جنہوں نے بھارت میں رہنے والی مختلف قوتوں کو ایک مضبوط مرکز والے سیاسی نظام میںجکڑ کر رکھا ہے اور وہ اختلاف کرنے والی ہر آواز کو سختی سے دبانے کی عادی ہیں۔ ان ہی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی آدھی سے زیادہ ریاستوں میں نکسل باغیوں اور مائو پرست انقلابیوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پرشانت بھوشن کے بیان پر سخت ردِعمل کے اظہار میں کانگرس اور بی جے پی ایک ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ بی جے پی نے اپنی ایک ذیلی انتہا پسند تنظیم کے ذریعے عام آدمی پارٹی کی اس جمہوری سوچ کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی ہے لیکن کانگرس نے بھی عام آدمی پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کوشش کی ہے کہ وہ دائیں بازوکے عناصر کی حمایت حاصل کرنے میں بی جے پی سے پیچھے نہ رہے۔ لیکن ان دوبڑی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کشمیر پر ہارڈ لائن اپنانے کے باوجود اب اس حقیقت پر پردہ ڈالنا مشکل ہے کہ برسوں سے جاری کشمیر پالیسی پر بھارت کی پولیٹیکل کلاس میں اختلافات اْبھر رہے ہیں۔پاکستان اور کشمیری عوام کے نکتہ نظر سے یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کیونکہ اس سے کشمیریوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔کشمیریوں کے حق میں اْٹھنے والی ہر آواز کو خوش آمدید کہنا چاہیے بلکہ آزادی کی حتمی منزل تک پہنچے کیلئے کشمیریوں کو خود بھارت کے اندر سے کچھ حلقوں کی طرف سے حمایت حاصل ہوجائے تو اس سے زیادہ مفید اور اہم بات کیا ہوسکتی ہے؟